چیف جسٹس آزاد کشمیر کا 'نظام صلوٰۃ'
آزاد کشمیر سپریم کورٹ کے عملے سے اپنے پہلے خطاب میں آزاد کشمیر کے نئے چیف جسٹس چوہدری محمد ابراہیم ضیاء نے دوسری باتوں کے ساتھ اپنے ان ارادوں کا بھی اظہار کیا جنہوں نے کئی لوگوں کو ورطہءِ حیرت میں ڈال دیا۔
چیف جسٹس نے ذاتی، علاقائی اور قومی تعصبات، کام چوری، لاپرواہی اور فرائض سے غفلت برتنے کے خلاف بات کی۔ مگر جس چیز نے سب سے زیادہ توجہ اپنی جانب مبذول کروائی، وہ عدالتی عملے کو ان کی ہدایت تھی: جب تک وہ چیف جسٹس ہیں، عملے کی تنخواہوں میں سالانہ اضافہ ان کے باقاعدگی سے نماز ادا کرنے پر منحصر ہے۔
شاید انہیں سننے والوں کو وہ وقت یاد آ گیا ہو جب حکام نے ایک انتظامی حکمنامے کے ذریعے نظامِ صلوٰۃ نافذ کرنے کی کوشش کی تھی۔ مذہبی معاملات کو انسان اور اس کے پیدا کرنے والے کے درمیان چھوڑ دینا چاہیے اور ان کی تنخواہوں میں اضافے کو تقویٰ سے نہیں جوڑنا چاہیے۔
تجربہ کار لوگوں میں ہمیشہ رہنمائی، تبلیغ اور اصلاح کی چاہت ہوتی ہے۔ اور یقیناً زندگی کے ہر شعبے کے تجربہ کار لوگوں سے سیکھنے کے لیے بہت چیزیں موجود ہوتی ہیں۔ بحث کا مقصد یہ نہیں ہے کہ آیا کوئی تجربہ کار، باعزت اور کامیاب شخصیت، جو معاشرے پر اپنی چھاپ چھوڑ سکتی ہے، اسے تبدیلی لانے کی کوشش کرنی چاہیے یا نہیں۔ بلکہ یہ ایک اصول ہے کہ اس شخص کو اپنے عمل سے مثال قائم کرنی چاہیے، بجائے اس کے کہ وہ اپنے عہدے کے ذریعے اپنے ذاتی عقائد کی تبلیغ کرے۔
جہاں اپنے ماتحتوں سے دفتری کے بجائے سماجی وفاداری درکار ہو، وہاں سب سے بہترین اور پائیدار طریقہ انہیں اپنے اختیارات کا استعمال کیے بغیر اپنا گرویدہ بنانا ہے۔
مثال کے طور پر پنجاب میں شادی کی دعوتوں پر ہونے والے اخراجات کو محدود کرنے کا قانون ہے۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب کو اس قانون پر عملدرآمد کروانے کے لیے سرکاری فورس اور اختیارات کا استعمال کرنا پڑتا ہے تاکہ سماجی تبدیلی لائی جا سکے۔ یہ آسان طریقہ ہے۔
اس کے بجائے وہ خود اپنی ذاتی زندگی میں کفایت شعاری اپنا کر عوام کے سامنے مثال قائم کرتے تو زیادہ بہتر تھا۔ ایسا ہی ان لوگوں کو بھی کرنا چاہیے جو اپنے اسٹاف کو ظاہر اور باطن سے متقی دیکھنا چاہتے ہیں۔
اعلیٰ عہدوں پر موجود لوگوں کو اپنی قابلیت پر یقین رکھتے ہوئے ایسی مثال قائم کرنی چاہیے جس پر دوسرے لوگ عمل کریں۔
یہ اداریہ ڈان اخبار میں 28 فروری 2017 کو شائع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں