• KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm
  • KHI: Maghrib 5:49pm Isha 7:07pm
  • LHR: Maghrib 5:10pm Isha 6:33pm
  • ISB: Maghrib 5:12pm Isha 6:37pm

اسکرینز پر گڑی ننھی آنکھیں

شائع November 29, 2016
ٹیکنالوجی کا غلط استعمال بچوں پر مختلف طریقوں سے اثر انداز ہو رہا ہے — رائٹرز
ٹیکنالوجی کا غلط استعمال بچوں پر مختلف طریقوں سے اثر انداز ہو رہا ہے — رائٹرز

دنیا میں ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی کر رہی ہے اور آئے دن جدید سے جدید تر آلات و مصنوعات روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن رہی ہیں۔ ساتھ ہی ان کا استعمال اور ان تک رسائی بھی آسان ہوتی جا رہی ہے۔

اس ترقی نے نوعِ انسان کے لیے بڑی آسانیاں پیدا کر دیں ہیں۔ ان آسانیوں اور سہولتوں کے ثمرات تو ایک جانب مگر اسی ٹیکنالوجی کے انفرادی و معاشرتی سطح پر منفی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں اور اس کا اثر سب سے زیادہ بچوں کی شخصیت پر پڑ رہا ہے جن کی ننھی آنکھیں دن میں زیادہ وقت اسکرینز پر گڑی رہتی ہیں۔

زیادہ عرصہ قبل کی بات نہیں بلکہ ماضی قریب کا ایک دریچہ کھول کر دیکھیں تو پائیں گے کہ انٹرنیٹ اس قدر عام نہیں ہوتا تھا اور اسمارٹ فونز تک رسائی ہر ایک کے بس کی بات نہیں تھی تب بچوں میں آؤٹ ڈور سرگرمیاں جیسے کرکٹ، فٹبال اور دیگر کھیلوں کا کافی رجحان پایا جاتا تھا۔

پڑھیے: نقلی بندوقیں، اصلی دہشتگردی

جبکہ انڈور گیمز میں بھی بڑی دلچسپی رکھی جاتی تھی لِڈو، کیرم، شطرنج ، کارڈز کھیلنا بچوں کے پسندیدہ مشاغل ہوتے تھے۔ چونکہ یہ تمام کھیل فرد واحد نہیں کھیل سکتا تھا اس لیے بہن بھائی، دوست، کزنز سب مل بیٹھ کر کھیل کا حصہ بن جاتے تھے۔

علاوہ ازیں کہانیوں کی کتابیں پڑھنا، ڈرائنگ بنانا، گھر کے کام کاج کرنے میں دلچسپی کا اظہار جتلانا اور کچن سے لے کر گھر کی صاف صفائی میں ہاتھ بٹانے جیسے کام کرنا ایسے معمولات تھے جو بچوں کی شخصیت، ذہنیت اور کردار کی تعمیر پر مثبت اثرات مرتب کرتے تھے۔

حالیہ منظر نامہ کافی حد بدل چکا ہے۔ ٹیکنالوجی کا غلط استعمال بچوں پر مختلف طریقوں سے اثر انداز ہو رہا ہے۔

انٹرنیٹ کے استعمال سے بچوں کے سوچنے کے طریقہ کار میں تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ بچوں میں تحقیق کرنے کی یا خود سے کسی مسئلے کا حل ڈھونڈنے کی عادت نہیں رہی کیونکہ سرچ انجن کی باکمال سروس کے ذریعے اب سیکنڈوں میں جواب حاضر ہو جاتا ہے۔

بچوں میں تجسس ہی تحقیق کاری کا جزو پیدا کرتا ہے۔ جبکہ تحقیق کی عادت بچے میں نئی جستجو پیدا کرتی ہے۔ جو بچے ویڈیو گیمز بہت زیادہ کھیلتے ہیں یا ٹی وی کے سامنے گھنٹوں گزارتے ہیں اس طرح وہ نہ صرف جسمانی کاہلی ہی نہیں بلکہ ذہنی تھکاوٹ کا شکار بھی ہو جاتے ہیں اور ان کی تخلیقی صلاحتیں ماند پڑ جاتی ہیں، ان کو اپنے ارد گرد کی دنیا میں بھی ویڈیو گیمز یا کارٹون جیسے کرداروں کی ہی تلاش ہوتی ہے اور نہ ملنے کی صورت میں وہ مزید مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

مسلسل انٹرنیٹ یا ٹی وی کے استعمال سے بچوں کی جسمانی صحت براہِ راست متاثر ہوتی ہے۔ بچے ایک جگہ بیٹھے رہتے ہیں جس سے خون کی روانی میں کمی واقع ہوتی ہے اور کم عمری میں ہی ذیابطس اور ہارٹ اٹیک جیسی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ بچے سست روی کا شکار ہو جاتے ہیں اور جسم میں سے چستی کم ہو جاتی ہے۔ سر میں درد رہنے لگ جاتا ہے اور چڑچڑے پن کا شکار ہو جاتے ہیں۔

پڑھیے: دو بچوں کی 'خود کشی' کا ذمہ دار کون

موبائل فون اور انٹرنیٹ کے شوق میں گم ہو کر بچے صحتمندانہ سرگرمیوں سے دور ہو گئے ہیں اور اس کے ساتھ ہی جنک فوڈ کھانے کی روایت بھی زور پکڑ گئی ہے جس کے باعث بہت سے بچے موٹاپے کا شکار ہو جاتے ہیں اور یہ موٹاپا بچے کو نہ صرف جسمانی طور پر بلکہ ذہنی طور پر بھی متاثر کرتا ہے۔ اکثر موٹے بچے اپنے ہم عمروں کے مذاق کا نشانہ بھی بنتے ہیں جس سے وہ مزید حساس ہو جاتے ہیں۔

انٹرنیٹ یا ٹی وی میں حد درجہ دلچسپی کے باعث، بچے اسکرین پر مسلسل نظریں جما کر رکھتے ہیں جس سے ان کی قوتِ بینائی کمزور پڑ جاتی ہے اور کم عمری میں ہی عینک کا سہارا لینا پڑ جاتا ہے۔

نئی نسل کے برعکس چند دہائیاں قبل بچے بڑے شوق سے گھر کے کاموں میں دلچسپی ہوتی تھی، اس طرح انہیں بہت کچھ سیکھنے کا موقع بھی ملتا تھا اور اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرنے کے عادی بن جاتے تھے۔

جہاں باغبانی، گھروں میں پالتو جانوروں کا خوشدلی سے خیال رکھنے جیسے مشاغل سے بچوں کو فطرت سے قربت حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتے تھے وہاں آج کے دور کے بچے چونکہ موبائل ٹی وی میں اس قدر گم ہوگئے ہیں کہ ان کو اپنے ارد گرد کی خبر ہی نہیں رہتی۔

گھریلو سرگرمیوں میں عدم دلچسپی کے باعث ان کی شخصیت میں سلیقہ مندی کے پہلو کی کمی رہ جاتی ہے اور فطرت کو سمجھنے اور پرکھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔

ٹی وی، انٹرنیٹ اور موبائل فون کے بے جا استعمال کا سب سے زیادہ نقصان یہ ہوا ہے کہ غیراخلاقی مواد تک بچوں کی رسائی بہت آسان ہو گئی ہے جس سے اخلاقی اقدار میں کمی آ گئی ہے اور بچوں کی معصومیت ماند پڑ گئی ہے۔ اکثر والدین کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کا بچہ کس قسم کی سرگرمیوں میں مشغول ہے۔

پڑھیے: کامیاب بچوں کے والدین کی 12 مشترک عادتیں

جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے بچوں کے درمیان سب سے اہم مسئلہ تعلیم سے دوری ہے۔ اکثر بچے اس قدر انٹرنیٹ کے عادی ہو گئے ہیں کہ دورانِ اسکول بھی موبائل فون یا ٹیبلیٹ چھپ کر استعمال کرتے ہیں۔ جس سے وہ اپنے اصل مقصد، درس و تدریس سے محروم ہو جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ان کے اندر وہ قابلیت نہیں آتی جو کہ تربیت یافتہ خواندہ فرد میں مطلوب ہوتی ہے اور مستقبل میں ان کو بیروزگاری جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ تو رہا مسئلہ مگر اس کا حل کیا ہوسکتا ہے؟

میرے خیال سے اگر درج زیل چند تجاویز کے ذریعے والدین بچوں میں بڑھتے ٹیکنالوجی کے رجحان کو خاصا کم کر سکتے ہیں۔

گیمز، ٹی وی اور کمپیوٹر کے استعمال کے مخصوص اوقات کار ترتیب دیں۔

والدین اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ ان کے بچے زیادہ وقت تک ایک ہی حالت میں بیٹھے ٹی وی، گیمز اور کمپیوٹر استعمال نہ کرتے ہوں اور انہیں ایک ٹائم ٹیبل کے تحت ان مصنوعات کے استعمال کی اجازت دیں۔ بچے تو خیر وقت کا احساس نہیں کر پاتے مگر والدین کو ایک ٹائمر کی مدد سے وقت کا خیال رکھیں اور مقررہ وقت پر ٹی وی، گیمز یا کمپیوٹر کے پاور بٹن آف کردیں۔

تواتر کے ساتھ مختلف سرگرمیوں کا اہتمام کریں۔

ہر ہفتے کوئی نئی سرگرمی پیدا کریں جس سے بچوں میں پرچست طرز زندگی اختیار کرنے میں حوصلہ افزائی پیدا ہو سکے۔ ہفتہ وار سرگرمی میں ایک گھنٹہ سائیکل چلانا، اپنے ارد گرد علاقوں کی سیر یا زیادہ کچھ نہیں تو گھر کے آنگن میں کھیل کود کی سرگرمیاں ترتیب دیں۔ اس ہقتہ وار روٹین میں بچوں کو گھر کی صاف صفائی اور والدین کے ساتھ کھانا پکانے میں مدد کرنے جیسی سرگرمیوں کو بھی شامل کیا جاسکتا۔ اس طرح بچوں میں جسمانی چستی اور صحتمندانہ روش پیدا ہوگی، جبکہ معاشرتی اور گھریلو سطح پر ایک کارگر فرد کے طور پر اپنی صلاحتوں کو مزید بہتر کر سکیں۔

آؤٹ ڈور سرگرمیاں ترتیب دیں۔

بچوں میں کھیلوں کا رجحان بڑھانے کی غرض سے انہیں شہر میں موجود کھیلوں کی سرگرمیوں کے لیے موجود جگہوں پر اپنے بچوں کے ہمراہ وہاں جانے کے پروگرامز ترتیب دیں۔ ان کھیلوں میں کرکٹ، ہاکی، والی بال، اسکوائش یا سوئمنگ وغیرہ شامل ہیں۔ بڑھتے بچوں کے لیے سوئمنگ ایک بہتر انتخاب ہوگا کیونکہ سوئمنگ میں بچوں کے تمام مسلز استعمال ہوتے ہیں اس طرح ان کی صحتمند نشوونما بھی ہو پاتی ہے۔

والدین بچوں کے لیے خود مثال بنیں۔

بچوں میں اپنے والدین کے عوامل کو نقل کرنا ایک نفسیاتی تقاضا ہے۔ والدین روزانہ کسی نہ کسی ایک جسمانی سرگرمی کے لیے ایک مخصوص وقت مختص کریں۔ مذکورہ بالا سرگرمیوں میں خود سر جتنا زیادہ حصہ لیں گے اتنا زیادہ بچوں میں جسمانی تندرستی کا رجحان پیدا ہوگا۔

بچوں کو ان سب مسائل سے محفوظ رکھنے کے لیے والدین کو چاہیے کہ بچوں کو مختلف اقسام کی جسمانی سرگرمیوں میں مصروف رکھیں اور خود بچوں کی مشغلوں میں خصوصی دلچسپی ظاہر کریں تاکہ بچوں کا حوصلہ بلند ہو۔

ممکن حد تک بچوں کے سامنے موبائل فون، لیپ ٹاپ یا ٹی وی سے گریز کریں۔ آپ ایسا کریں گے تو آپ کا بچہ بھی ان خرافات سے دور رہے گا اور مستقبل میں معاشرے کے اوپر بوجھ بننے کی بجائے ملک کا قیمتی سرمایہ ثابت ہوگا۔

ثمیرہ ظفر

ثمیرہ ظفر بین الاقوامی تعلقات اور اردو میں ایم اے کی ڈگری رکھتی ہیں۔ وہ خاتونِ خانہ ہیں اور اپنے مشاہدے اور تجربات کو تحریری شکل دینا ان کا پسندیدہ کام ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

saeed Nov 30, 2016 10:48am
I have learned by sameera zafar's article, I will follow of these instruction with my son. thanks

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024