جمہوری حکومت میں جمہور کا تماشا
حالیہ دنوں میں ٹی وی سمیت سوشل میڈیا پر دو واقعات کا بڑا چرچہ دیکھنے اور سننے کو ملا، دونوں واقعات کا تعلق پاکستان کی خواتین سے تھا۔
پہلا واقعہ کچھ دن پہلے رونما ہوا جس کی وڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک ایف سی اہلکار ایک نجی ٹی وی چینل سے منسلک خاتون صحافی صائمہ کنول سے بد تمیزی کر رہا ہے۔
دوسرا واقعہ اسلام آباد میں ہوا جس کی بھی وڈیو فوٹیج جاری ہوئی اور اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک خاتون سیاسی ورکر اسلام آباد پولیس کی خاتون اہلکار دست و گریباں ہیں۔
مواصلاتی ذرائع کی کثرت نے رابطے بڑھا دیے ہیں، اب رابطے بڑھے تو اظہار خیالات بھی آڑے آئے۔ اب کوئی ایک کپ چائے بھی پکا رہا ہو تو اس کا چرچہ نہ جانے کتنی چائے کی پیالیوں پر چسکیاں بھرتے لوگوں کی نشستوں میں جاری رہتا ہے۔
سو یہ دو واقعات بھی برقی رابطوں کی مرہون منت سب کی اپنی اپنی روشنیوں تلے آیا۔ کہیں مذمت تو کہیں مسرت۔
مگر انسان ہونے کے ناطے ہم سب پر فرض ہے کہ ہم اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے خواتین سمیت ہر اس ملک کے ہر فرد سے عزت اور احترام کریں۔
جذبات اور احساسات کو تھوڑی دیر پرے رکھ کر دیکھا جائے تو پہلا واقعہ جو خاتون صحافی کے ساتھ پیش آیا اس میں خاتون صحافی کی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے ایف سی اہلکار کی وردی کو کاندھے کی طرف سے پکڑ کر انہیں کیمرے کے سامنے شکل دکھانے پر مجبور کیا۔
یہ عمل ہرگز درست نہیں اور غیر اخلاقی ہے، اور یہ کسی بھی مرد یا عورت صحافی کو زیب نہیں دیتا۔ رد عمل میں ایف سی اہلکار نے اپنا غصہ اور جذبات پر قابو نا رکھتے ہوئے خاتون صحافی کو زور دار تھپڑ رسید کر دیا۔
اگر ان دونوں کے عوامل کا موازنہ کیا جائے تو حقیقتاً زیادہ غلطی ایف سی اہلکار کی تھی۔ ایک سویلین باوردی اہلکار ہم وطنوں کی حفاظت اور ہر طرح سے مدد کرنے کی ذمہ داری اپنے سر لیتا ہے۔
جی ہاں اس کی وردی کا تقدس ہے اور اس کو پامال کرنے کا کسی کو حق حاصل بھی نہیں مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ اس پامالی کا وہ خود ہی منصف بن بیٹھے اور ہوش و حواس خطا ہونے کا لیبل لگا کر اپنی من چاہی سزا دینا شروع کر دے۔
سویلین باوردی اہلکار کا کام خوف پھیلانا نہیں بلکہ خوف ختم کرنا ہوتا ہے۔ ایف سی اہلکار کسی ایک فرد واحد کے لیے نہیں بلکہ اس جگہ موجود ہر شخص کے محافظ کے طور پر تعینات تھا اور محافظ کبھی خوف کا باعث نہیں بنتا۔
لیکن ساتھ ہی ساتھ خاتون صحافی کو بھی صحافت کے اخلاقی اقدار کا پاس رکھتے ہوئے اپنی صحافتی کارروائی کو انجام دینا چاہیے تھا۔
ہمارے ملک میں میڈیا کے اداروں کی کثرت تو ہے لیکن ان کی پیشہ ورانہ تربیت کا کہیں سامان نہیں۔ کچھ میڈیائی ادارے تو خود ساختہ ریٹنگ بڑھاؤ ٹریننگ دے رہے ہوتے ہیں جس کی زد میں صحافتی اقدار خاموش کتابوں میں قید رہتے ہیں۔
اب آتے ہیں دوسرے واقعے کی جانب جس میں ایک خاتون سیاسی ورکر شہر اقتدار میں جہاں ابھی اقتداری کشمکش کا ماحول عروج پر ہے، اسلام آباد پولیس کی خاتون اہلکار سے دست و گریباں ہو گئیں۔
خاتون ورکر کا کہنا تھا کہ پولیس نے ان کے ساتھ بد سلوکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں گریبانوں سے پکڑا، حالانکہ اگر اس واقعے کی فوٹیج کو تھوڑا غور سے دیکھا جائے تو خود خاتون ورکر کا ہاتھ بھی خاتون پولیس اہلکار کے گریبان تک گیا اور یوں دونوں ایک دوسرے کے گریبانوں تک جا پہنچی۔
جبکہ اس واقعے کے بعد اسلام آباد پولیس نے اپنے آفیشل فیس بک پیج پر ایک وضاحتی وڈیو بھی پوسٹ کی جس کو دیکھ کر واقعہ کا عمومی نظریہ ہی تبدیل ہو جاتا ہے۔ وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سیاسی کارکن ایک بڑا پتھر اپنے ہاتھوں میں تھامے ہوئے تھیں جسے خاتون پولیس اہلکار نے چھیننے کی کوشش، کیوں کہ خاتون اہلکار کے مطابق وہ اس پتھر سے وہاں موجود کسی پولیس اہلکار یا کسی شخص کو نشانہ بنا سکتی تھیں۔
اس دوران سیاسی خاتون مشتعل ہو گئیں اور اہلکار کو زخمی بھی کیا۔ خاتون پولیس اہلکار کے مطابق انہوں نے انہیں سونپا گیا کام انتہائی خوش اسلوبی سے سر انجام دیا۔
جمہوریت کا مطلب اظہار خیال کی آزادی بھی ہے، مظاہرے کرنا بھی ہے اور اپنی آواز بلند کرنا بھی ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ آپ جمہوریت کے دائروں سے تجاوز کر جائیں اور پولیس اہلکاروں سے دست و گریباں ہوجائیں۔
افسوس کہ اس جمہوری دور میں حکمران جماعت اپنا بول بالا کرنے کے لیے اور جمہوریت کو خطروں سے بچانے کے لیے پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ڈکٹیٹ کر کے انہیں جمہور کے خلاف استعمال کر رہی ہے اور پاکستان کی تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے جہان عوام الناس یا مخالف جماعت کے احتجاج پر سرکاری مشینری کو استعمال کیا گیا۔
سوال یہ ہے کہ کیا قصوروار گورنمنٹ کے ماتحت چلنے والے ادارے ہیں یا ہمارے حکمران جو جمہور کے ووٹ حاصل کر کے انہیں اپنے سیاسی مفادات کے تلے روند ڈالتے ہیں؟
قربان جاؤں ایسے جمہوری حکمرانوں کے رویوں پر کے جب بھی کوئی ان کے مخالف کھڑا ہو کر ان کو للکارتا ہے تو یہ ان آوازوں کو دبانے کے لیے فوراً حکمت عملی مرتب کر لیتے ہیں لیکن دہشت گردی، غربت، مہنگائی، بے روزگاری وغیرہ جیسے مسائل حل کرنے میں ان کی تمام تر پالیسیاں اور حکمت عملی ناکام ہو جاتی ہے.
ٹی وی پر یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ پولیس ناگوار انداز میں سیاسی کارکنوں کو گرفتار کر رہی تھی، جمہوریت اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتی کہ آپ کسی کے سیاسی حق پر طاقت کا استعمال کریں۔ جمہوریت کو خطرہ ہے کا نعرہ ٹھیک ہے لیکن جمہور کو تو قربانی کا بکرا نہ بنائیں۔
حالیہ پیش آنے والے دونوں واقعات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہر شخص کا نظریہ، عینک، روشنی اور چورن و منجن دیگرے سے مختلف ہے۔
بس تو پھر یہ تو ہونا ہی ہے کہ کوئی خاتون پولیس اہلکار اور ایف سی اہلکار کی تعریف کرتا دکھائی دیا تو کوئی خاتون صحافی اور خاتون ورکر کی، لیکن کوئی یہ نہیں سوچ رہا کہ آخر ہم بحیثیت قوم کس نہج کی طرف جا رہے ہیں؟
کیا ہماری اخلاقیات یہی ہیں کے ہم ایسے معاملات کو دوبارہ رونما ہونے سے روکنے کے بجائے ایسے معاملات کو اور طول دیں اور اپنی چاشنی لگا دیں۔
انہی غلطیوں کا نتیجہ ہے کہ ہم اب تک ان مسائل کا شکار ہیں. جہاں عصر حاظر میں کئی ممالک ترقی کے سفر طے کر رہے ہیں وہاں ہمارے حکمران ابھی تک جمہوریت کو خطروں سے بچا رہے ہیں اور عوام کو آپس میں لڑوا کر خود چین سے زندگی گزر بسر کر رہے ہیں۔
تبصرے (0) بند ہیں