• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

کینڈی کرش ساگا: عمران خان کا پسندیدہ گیم؟

شائع September 23, 2016 اپ ڈیٹ September 24, 2016
— خاکہ بشکریہ لکھاری
— خاکہ بشکریہ لکھاری

مجھے معلوم ہے کہ یہ بات سننے میں کافی عجیب ہے مگر عمران خان کینڈی کرش کھیلنے کے عادی ضرور ہیں اور وہ اس عادت کو ختم نہیں کر سکتے۔

حقیقی دنیا سے تو ان کی تمام امیدیں ٹوٹ چکی ہیں لہٰذا وہ اب اپنی 'ورچوئل سیاست' میں ہی گم ہوتے جا رہے ہیں۔

گزشتہ تقریباً ایک دہائی میں ملکی سیاست کم و بیش دو بالکل مختلف حلقوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔

ایک حلقے میں، فریقین کے درمیان واضح اور وسیع تر مفادات کی خاطر ریاست کی طاقت کے حصول کے لیے رسہ کشی جاری رہتی ہے۔ یہاں پر امیدوار کی ذاتی قوت (چاہے وہ جو بھی ہو) اور صحیح وقت پر درست چال چلنا، کامیابی کے لیے دو ضروری اجزاء کی حیثیت رکھتے ہیں۔

یہ کھیل انتخابی میدان میں کھیلا جاتا ہے اور اس کھیل کے اصول بھی ہیں۔ مگر کبھی کبھی اصولوں کو توڑا بھی جا سکتا ہے، اور یہ بھی امیدوار کی 'طاقت' پر منحصر ہے۔

دوسرے حلقے میں سیاست اسکرینز کی زینت ہوتی ہے — دیواروں پر ٹنگی، ہاتھوں میں پکڑی، اور ٹیبل پر رکھی اسکرینز۔

ہونا تو یہ چاہیے کہ اسکرین کی سیاست انتخابی میدان کا عکس ہو، مگر یوں لگتا ہے کہ یہ حلقہ اپنے ہی اندر بالکل ایک الگ حلقہ بن چکا ہے۔ ایسا ہونے کی وجہ سے سیاست کی حقیقت اور تصور کے درمیان تعلق ناقابل فہم حد تک پچیدہ ہوچکا ہے۔

ایک سیاست دان شاید میدان پر تو بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہو مگر اسکرین پر اپنے تشخص کو قابو کرنے کے اختیار رکھنے کے قابل نہ ہو۔

اس کے برعکس، ایک رہنما اسکرین پر اپنی موجودگی پر توجہ بھی مرکوز کر سکتا ہے اور سیاسی میدان میں صفر ہونے کے باوجود دیکھنے اور سننے والوں کو اپنے سحر میں مبتلا کیے رکھ سکتا ہے۔

اس سے بھی زیادہ پریشان کن حقیقت یہ ہے کہ آپ کو یہ کبھی معلوم ہی نہیں ہوپاتا کہ کھیل شروع ہونے کی سیٹی بجنے کے ساتھ ہی ان دو حلقوں میں سے کون سا حلقہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوگا۔

آن اسکرین سیاست نہ صرف ناظرین بلکہ اس کے اداکاروں کے لیے بھی لت آور چیز ہے۔

اگر اداکار اپنی مقبولیت کی خاطر بنائی ہوئی تصوراتی دنیا پر خود بھی یقین کرنا شروع کر دیں تو یہ ان کے لیے ایک خطر ناک عمل ثابت ہو سکتا ہے۔

عمران خان ایک بار پھر چوبیس گھنٹے ہفتے کے ساتوں دن ٹی وی کیمروں کے سامنے کھڑے ہونے کے لیے تیار ہیں۔

ان کی سوشل میڈیا بریگیڈ بھی کمربستہ ہے کیوں کہ 'پانی پت' کا معرکہ 30 ستمبر کو رائیونڈ میں لڑا جائے گا۔

عمران خان کی یہ جدوجہد حکمران اشرافیہ کی کرپشن کے خلاف ہے۔ خصوصاً اس کا نشانہ نواز شریف ہیں۔

عمران خان کا وزیرِ اعظم کے خلاف کیس دراصل یہ ہے کہ انہوں نے اپنے بچوں کے نام پر غیرملکی اکاؤنٹس میں غلط طریقوں سے حاصل ہونے والی دولت کو جمع کیا، جبکہ اس دولت کو الیکشن حکام کے سامنے ظاہر کرنے میں بھی ناکام رہے، چنانچہ ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

اپنے احتجاجی مظاہرے کی تاریخ سے دس دن قبل 19 ستمبر کو قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 162 (ساہیوال 3)، جسے چیچہ وطنی نشست بھی کہتے ہیں، میں ضمنی انتخابات منعقد ہوئے۔

پڑھیں: پیارے عمران خان! یہ آخری اوور ہے

یہ نشست پنجاب کے 148 میں سے صرف ان 6 قومی انتخابی حلقوں میں سے ایک تھی جہاں 2013 کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے کامیابی حاصل کی تھی۔

مگر ان انتخابات میں شکست پانے والوں نے الیکشن ٹریبیونل کا دروازہ کھٹکھٹایا اور پی ٹی آئی کے فتح یاب ہونے والے امیدوار رائے حسن نواز پر اپنے اثاثوں کو چھپانے کا الزام لگایا۔

انہوں نے یہ الزام لگایا کہ پی ٹی آئی امیدوار نے ایک پیٹرول پمپ، ایک سی این جی اسٹیشن، جی ٹی روڈ پر موجود کافی اسٹورز کی ملکیت کو ظاہر نہیں کیا اور اس کے ساتھ یہ کہ وہ ایک ایسی ٹیکسٹائل مل کے مینیجنگ ڈائریکٹر ہیں جو 887 ملین روپے کی مالیت کا قرضہ چکانے میں ناکام رہی ہے۔ یہ بھی الزام لگایا کہ انہوں نے 4 لاکھ روپے کے ٹیلی فون بلز ادا نہیں کیے۔

کیا یہ اسی قسم کی کرپشن نہیں جس کا الزام عمران خان نواز شریف پر لگاتے ہیں؟

اس حلقے کے سیاستدانوں کو گزشتہ تین سالوں میں کئی عدالتی کارروائیوں سے گزرنا پڑا ہے۔

ٹریبیونل نے درخواست گزاروں کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے حسن نواز کی گزشتہ سال مئی میں رکنیت معطل کر دی۔

حسن نواز نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی۔ سپریم کورٹ نے ٹریبیونل کا فیصلہ برقرار رکھنے میں ایک سال کا عرصہ اور لگا دیا۔

جون میں الیکشن کمیشن نے خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخابات منعقد کروانے کا اعلان کردیا۔

چونکہ حسن نواز نااہل قرار دیے گئے تھے لہٰذا وہ اپنے بھتیجے رائے مرتضیٰ اقبال کو امیدوار کے طور پر سامنے لائے۔

مرتضیٰ کی انتخابی مہم میں ان کے چچا کو خاصی اہمیت حاصل رہی جو ہر پوسٹر پر نمایاں نظر آتے تھے۔ اور ہاں، ان کے عظیم رہنما عمران خان کی تصاویر بھی پوسٹرز پر ساتھ ساتھ تھیں۔

پی ٹی آئی نے ایک قانون توڑنے والے شخص کے لائے گئے امیدوار کو پارٹی ٹکٹ دیا۔

تو پھر عمران خان دیگر لوگوں پر الزام تراشی کرنے کی جرات کہاں سے اکٹھی کر پاتے ہیں؟ کیا یہ ایسا نہیں ہے کہ چھاج تو بولے سو بولے، چھلنی بھی بولے جِس میں سو چھید؟

رائے خاندان ضلع ساہیوال کے طاقتور ترین خاندانوں میں سے ہے۔

وہ 1985 سے لے کر اپنے حلقے میں کسی نہ کسی طرح سے کامیابی حاصل کرتے چلے آ رہے ہیں۔

اگر یہ خاندان پی ٹی آئی میں شامل نہ ہوتا تو پی ٹی آئی کو پی پی پی سے بھی کم ووٹ ملتے۔ مگر پی ٹی آئی کے نزدیک اخلاقیات کی تشریح 'ہمارے' لیے اور ہے، 'ان' کے لیے اور۔

بہرحال، چیچہ وطنی میں صرف رائے ہی واحد طاقتور نہیں ہیں۔ وہاں آرائیں، گجر اور جٹ بھی کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔

ہر ایک برادری کے اپنے مقاصد ہیں، اور ان میں نمایاں انتخابی تجربہ رکھنے والے رہنما بھی شامل ہیں۔

ان کے سیاسی مفادات بھلے ہی ایک دوسرے سے مختلف ہوں مگر مسلم لیگ نواز نے اپنی زبردست حکمت عملی کے جوہر دکھا کر ان تمام برادریوں کو ضمنی انتخابات میں جٹ برادری سے تعلق رکھنے والے اپنے امیدوار کو ووٹ دینے پر آمادہ کردیا۔

اپنے علاقے میں محدود ذاتی اثر و رسوخ ہونے کی وجہ سے رائے برادری کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

پی ٹی آئی کے مطالبات کو مدِنظر رکھتے ہوئے فوج کی انتہائی سخت نگرانی میں انتخابات منعقد کروائے گئے۔ دھاندلی کی کسی قسم کی اطلاعات موصول نہیں ہوئیں۔

پڑھیں: میں اب پی ٹی آئی کا دفاع کیوں نہیں کرتا

مسلم لیگ نواز نے پی ٹی آئی کو ضمنی انتخابات میں ان کے مضبوط گڑھ میں شکست دی، جس میں ووٹ ڈالنے والوں نے نواز شریف کی جماعت کو ان کے امیدوار پر ترجیح دی۔

یہ زمینی حقائق ہیں جنہیں پی ٹی آئی قبول کرنے کو تیار نہیں ہے۔

پی ٹی آئی کے پاس اور کوئی آپشن نہیں سوائے اپنا پسندیدہ کام کرنے کے — یعنی اسکرین پر کینڈیز کرش کرنا۔

اس طرح آپ میں کامیابی کا ایک احساس پیدا ہوتا ہے۔

ہاں بھلے ہی یہ کامیابی کا ایک غلط احساس ہو مگر ان لمحوں سے محظوظ ہوا جا سکتا ہے۔

اس گیم میں آپ جتنا زیادہ اسکور بنا لیتے ہیں، جوش و خروش میں بھی اتنا اضافہ ہوجاتا ہے اور اس جوش و جذبے سے اس حقیقت کو نظر انداز کرنے میں مدد مل جاتی ہے کہ اسکرین پر موجود تعداد حقیقی زندگی میں حاصل ہونے والے ووٹوں کی تعداد جتنی نہیں ہوتی۔

تو اگر آپ بھی ملک کے سیاسی حقائق سے لمحے بھر کے لیے نجات چاہتے ہیں تو مہربانی فرما کر عمران خان کی درخواست کو قبول کریں اور کینڈی کرش کے عوامی گیم کے لیے رائے ونڈ میں ان کا ساتھ دیں۔

یقیناً آپ کو کافی مزہ آئے گا۔

اور کیا پتہ وہ ملک میں موجود کرپٹ سیاستدانوں کو پکڑنے اور تباہ کرنے کی خاطر پوکیمون گو کا پی ٹی آئی ورژن بھی متعارف کر دیں!

طاہر مہدی

لکھاری الیکشن اور گورننس میں دلچسپی رکھنے والے آزاد محقق ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر TahirMehdiZ@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

ayaz khan Sep 26, 2016 03:13pm
PTI ki sysat Shahid Afridi ki bating he zyada mashoron se kharab hojayegi

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024