ایم کیو ایم کو بچانے کی کوشش نہیں کر رہے، برطانوی حکام
لندن: برطانیہ میں وائٹ ہال کے ایک سینیئر عہدیدار نے اس بات کی تردید کی ہے کہ برطانوی حکومت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کو قانونی الزامات سے بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ہوم آفس کے مستقل سیکریٹری مارک سیڈ وِل نے برطانوی پارلیمنٹ کی بااثر ہوم افیئرز سلیکٹ کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہا، 'برطانوی حکومت پر ایم کیو ایم سے نرمی برتنے کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے'۔
وہ برطانوی رکن پارلیمنٹ ناز شاہ کے ایک سوال کا جواب دے رہے تھے، جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ایم کیو ایم کے حوالے سے دہشت گردی کی قانون سازی میں ناکامی سے پولیس کی تفتیش متاثر ہوئی۔
مزید پڑھیں:الطاف حسین کے خلاف کارروائی کیلئے برطانیہ کو ریفرنس
ناز شاہ نے سوال کیا، 'کیا آپ اس کی تصدیق کرسکتے ہیں کہ دفتر خارجہ کی جانب سے ایم کیو ایم کو دہشت گرد تنظیم قرار نہ دینے سے کراؤن پراسیکیوشن سروس (سی پی ایس) کی تفتیش پر اس حوالے سے کوئی اثر نہیں پڑے گا کہ ایم کیو ایم پر دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جانے چاہئیں یا نہیں؟
جس کے جواب میں سیڈ وِل نے کہا، 'چاہے کوئی کسی کالعدم تنظیم کا رکن ہو یا نہیں، پولیس کو اس بات کا اختیار ہے کہ وہ کسی کے خلاف بھی دہشت گردی کی قانون سازی کرسکتی ہے'۔
واضح رہے کہ متعدد پاکستانی نژاد برطانوی ارکان پارلیمنٹ ایم کیو ایم کے حوالے سے برطانوی حکام کو خطوط لکھ چکے ہیں، جس کے جواب میں برطانوی حکومت کے عہدیداران نے یہ نکتہ پیش کیا کہ ایم کیو ایم برطانیہ کی کالعدم جماعتوں کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ’الطاف حسین سے چھٹکارہ حاصل کرنے کا وقت آگیا‘
وائٹ ہال کے اندرونی ذرائع نے تسلیم کیا کہ ایم کیو ایم کے معاملے پر ہوم آفس، دفتر خارجہ اور سی پی ایس میں اختلافات پائے جاتے ہیں، تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے لندن پر ڈالا جانے والا سیاسی دباؤ اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے اور برطانوی حکام کے مطابق 22 اگست کو ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کی تقریر کے بعد چوہدری نثار کی جانب سے کی جانے والی شکایات نے برطانوی حکومت کو اس بات پر مجبور کردیا ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے حوالے سے اپنے رویئے کا دوبارہ جائزہ لیں۔
مزید پڑھیں:پاکستان مخالف تقریر: برطانوی پولیس الطاف حسین کے خلاف سرگرم
یاد رہے کہ گذشتہ ماہ 23 اگست کو میٹرو پولیٹن پولیس نے اعلان کیا تھا کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے قائد الطاف حسین کی اُس تقریر کے مندرجات کا جائزہ لے رہی ہے، جس میں انھوں نے پارٹی کارکنوں سے یہ پوچھا تھا کہ کیا وہ کراچی میں میڈیا ہاؤسز پر حملوں کے لیے جانے والے ہیں۔
ابتداء میں برطانوی پولیس نے اس معاملے کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی تھی اور کہا تھا کہ الطاف حسین کی حالیہ تقریر کے بعد وہ نئی انکوائری شروع نہیں کرے گی، جبکہ پاکستان سے ٹیلی فون پر شکایات کرنے والوں کو جواب دیا گیا تھا کہ 'یہ کراچی کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کا معاملہ ہے'۔
یہاں پڑھیں: الطاف حسین نے کیا کہا ...
دوسری جانب سیڈ وِل نے انکشاف کیا کہ امریکا اور پاکستان اس معاملے پر تعاون کر رہے ہیں، ان کا کہنا تھا، 'میں اپنے پاکستانی ہم منصب سے رابطے میں ہوں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ مکمل مجرمانہ تفتیش کے لیے میٹروپولیٹن پولیس کو تمام شواہد فراہم کیے جائیں۔'
برطانوی ہولیس کی اس ہچکچاہٹ کی ایک وجہ ایم کیو ایم کے حوالے سے جاری 3 کیسز بھی ہوسکتے ہیں۔ جن میں سے ایک 2010 میں ایم کیو ایم رہنما عمران فاروق کا قتل کیس بھی ہے، جس پر پاکستانی اور برطانوی حکام کی جانب سے کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آتی۔
پاکستان میں عمران فاروق کے قتل میں ملوث ہونے کے شبہ میں 3 ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے، جبکہ دونوں حکومتوں کے درمیان اس حوالے سے ڈیڈلاک ہے کہ کتنے ملزمان کو امریکا کے حوالے کیا جائے گا، برطانیہ تینوں ملزمان میں سے صرف محسن علی سید کی حوالگی چاہتا ہے جبکہ پاکستان کا اصرار ہے کہ یا تو وہ تینوں کو حوالے کرے گا یا کسی کو بھی نہیں۔
دوسری جانب الطاف حسین کے خلاف منی لانڈرنگ اور نفرت انگیز تقریر کے حوالے سے 2 کیسز پر بھی تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔
ایم کیو ایم کا کہنا ہے کہ یہ تینوں کیسز بے بنیاد ہیں کیونکہ ان کی پارٹی یا اس کے لندن میں مقیم سینئر رہنماؤں کے خلاف کسی قسم کے ثبوت پیش نہیں کیے جاسکے۔
یہ خبر 9 ستمبر 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی