• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

خان صاحب! یہ ٹی ٹوئنٹی نہیں ٹیسٹ میچ ہے

شائع August 7, 2016
اپوزیشن  کس طرح خود کو محب وطن کہہ سکتی ہیں۔ اپوزیشن ایک طرف احتجاج کر رہی ہوتی ہے اور دوسری جانب ہزاروں لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے — فوٹو کرٹسی پی ٹی آئی
اپوزیشن کس طرح خود کو محب وطن کہہ سکتی ہیں۔ اپوزیشن ایک طرف احتجاج کر رہی ہوتی ہے اور دوسری جانب ہزاروں لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے — فوٹو کرٹسی پی ٹی آئی

پھر وہی اگست کا مہینہ, پھر وہی ڈی چوک کے دو سیاسی بھائی, پھر وہی احتجاج اور دھرنا، پھر وہی مقصد، حریف بھی پرانا اور کھلاڑی بھی پرانے، پچ بھی وہی، بلے باز بھی وہی۔ گراؤنڈ میں کپتان کے علاوہ دس فیلڈر موجود ہیں لیکن تربیت یافتہ نہیں اور بار بار کیچز چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ ’’ کیچز ون دی میچز‘‘ لیکن یہ دس فیلڈر (دونوں جماعتوں کے) کسی کام کے نہیں۔

فیلڈنگ کے دوران ''کپتان ہم تمہارے ساتھ ہیں'' کے نعرے لگاتے ہیں لیکن جونہی چائے یا کھانے کا وقفہ ہوتا ہے تو آف دی ریکارڈ یہی فیلڈرز اپنے ہی کپتان کی کلاس لے رہے ہوتے ہیں۔ یہ بلے بازوں کو خود موقع دیتے ہیں اور پھر فریاد بھی خود کرتے ہیں۔

انہوں نے ٹی ٹوئنٹی میچ سمجھ کر فیلڈنگ شروع کی تھی لیکن یہ تو ٹیسٹ میچ ہے اور ایسا ٹیسٹ میچ کہ اس کا نتیجہ 2018 میں نکلے گا اور یقیناً جب مس فیلڈنگ ہوگی، حریف ٹیم کے بلے باز چوکے اور چھکے بھی لگائیں گے تو میچ بھی وہی جیتیں گے۔

2014 میں نیا پاکستان تو دور کی بات نیا خیبر پختونخوا نہیں بنا، نیا پاکستان بنانے کے چکر میں دونوں بھائیوں نے جو حال ڈی چوک میں پرانے پاکستان کا کیا تھا اس کی ذمہ داری کون لے گا؟ 2014 کے دھرنے میں ڈی چوک جانے کا تجربہ بہت سوں کی طرح مجھے بھی ہوا تھا۔ آج بھی ڈی چوک پر گندگی کے مناظر کوششوں کے باوجود بھی نہیں بھولے جا سکتے۔

اب کی بار پیپلز پارٹی نے بھی آستینیں چڑھائی تو ہیں لیکن وہ کیچڑ میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہزار بار سوچے گی اور 2014 میں اگست کے مہینے کے دھرنے کو ضرور یاد کرے گی جب دونوں سیاسی بھائی ڈی چوک سے خالی ہاتھ لوٹنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

بڑے بھائی تو جنوری 2013 میں بھی ڈی چوک کے قریب کئی روز کا دھرنا یہ نعرہ لگاتے ہوئے ختم کر چکے تھے کہ’’مبارک ہو ،مبارک ہو‘‘ اس وقت ان کے پیروکاروں نے اپنے قائد کی مبارکباد تو لی لیکن بعد میں سب نے دیکھا کہ کھودا پہاڑ نکلا چوہا کے مصداق ان بے چاروں کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ زرداری صاحب نے ان کو اسلام آباد کی مصروف شاہراہ سے ایسے اٹھانے کی چال چلائی جیسے مکھن سے بال نکالا جاتا ہے۔

ایک بار پھر یہ دونوں بھائی 6 اور 7 اگست کو ایک ساتھ احتجاج کرنے جا رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس بار یہ کیا گل کھلاتے ہیں۔ کیا عمران خان نیا پاکستان بنا پائیں گے؟ اور کیا قادری صاحب ایک بار پھر مبارک ہو مبارک ہو کے نعرے کے ساتھ ’’ڈیل‘‘ کر کے لوٹ جائیں گے؟

گزشتہ دنوں معروف وکیل، سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا تھا کہ جب ن لیگ پر سخت وقت آتا ہے تو وہ پاؤں پڑتے ہیں لیکن جب خطرہ ٹل جاتا ہے تو ان کے ہاتھ گریبانوں تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ کے قائد اور وزیر اعظم نواز شریف نے جلاوطنی سے سبق نہیں سیکھا اور وہ آج بھی اپنے چہیتوں کو نواز رہے ہیں۔

دائیں بائیں بیٹھے اپنے رفقاء پر گہری نگاہ نہیں رکھ رہے یا تو وہ انہیں سمجھنے سے قاصر ہیں یا شاید رفقا کی باتوں میں آ کر کچھ معاملات کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔ مگر وزیراعظم صاحب کئی بار اپنوں سے ڈسے جانے کے باوجود بھی خاموش ہیں اور یہی خاموشی کبھی کبھار مسائل کو اس نہج پر پہنچا دیتی ہے جہاں سے لوٹنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

ایک اور اہم بات یہ بھی کہ معروف وکیل اور سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ نے گزشتہ دنوں دبئی میں نیوز کانفرنس کے دوران انکشاف کیا تھا کہ موجودہ وزیر داخلہ، وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان اختلافات پیدا کر کے خود وزیراعظم بننا چاہتے ہیں۔

یہی بات 2014 کے دھرنوں کے دوران بھی اسلام آباد میں گردش کررہی تھی اور اسلام آباد کی سیاسی تپش پر نظر رکھنے والے بعض ماہرین کا خیال تھا کہ پی ٹی آئی اور عوامی تحریک کے دھرنے کے پیچھے خود وزیرداخلہ کا ہاتھ بھی ہے۔

خیر اس خبر کی کہیں بھی تصدیق نہیں ہوئی تھی اور اس کی اہمیت ایک پروپیگنڈہ کے سوا کچھ بھی نہیں تھی۔ لیکن یہ بات تو سچ ہے کہ 2014 کے دھرنوں کے دوران وزیرداخلہ کی اپنی ہی حکومت سے ناراضی تھی اور شاید اسی ناراضی کو غلط رنگ دیا جا رہا تھا۔

دوسری جانب تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے گزشتہ چند سالوں میں متعدد بار احتجاج اور دھرنے دیے ان کے کسی احتجاج یا دھرنے کو اب تک کامیاب نہیں کہا جا سکتا تو کیا اس بار وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوجائیں گے؟ کیا عمران خان کے 7 اگست کو پشاور سے راولپنڈی تک مارچ سے پانامہ لیکس پر تحقیقات ہو جائیں گی؟

کیا اس طرح حکومت اپوزیشن جماعتوں کے منظور کردہ ٹرمز آف ریفرنسز (ٹی او آرز) تسلیم کرلے گی؟ کیا اس بار پی ٹی آئی کے مارچ سے ان کے ووٹ بینک میں اضافہ ہو جائے گا؟

جہاں تک ڈاکٹر طاہرالقادری کے احتجاج کی بات ہے تو وہ بھی 6 اگست کو ایک بار پھر احتجاج شروع کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان کا آخری پڑاؤ اسلام آباد میں ہوگا جہاں احتجاجی دھرنا دیا جائے گا۔

قادری صاحب سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہداء کے لواحقین کو انصاف دلوانے کے لیے ایک بار پھر سڑکوں پر آرہے ہیں۔ کیا ماڈل ٹاؤن سانحے میں جاں بحق افراد کے لواحقین کو عوامی تحریک کی جانب سے سڑکوں پر ہونے والے احتجاج سے ہی انصاف مل سکتا ہے؟

کیا واقعی قادری صاحب کا مقصد صرف مذکورہ سانحے کے جاں بحق افراد کے لواحقین کو انصاف دلوانا ہے یا وہ ایک بار پھر جنوری 2013 کی طرح نظام کے خلاف لڑنے کے لیے سڑکوں پر آرہے ہیں؟

کیا دونوں سیاسی بھائیوں کا مقصد صرف یہ تو نہیں کہ ان کے تمام تر احتجاج کے باوجود ن لیگ کی منتخب حکومت اپنی جگہ قائم ہے تو کیوں نہ اس کو ہٹانے یا کم از کم وزیراعظم کو استعفٰی پر مجبور کرکے ملک میں نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے کوشش کی جائے؟

یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ جمہوریت میں سیاسی جماعتیں حکومت کے غلط فیصلوں کے خلاف احتجاج کا حق محفوط رکھتی ہیں لیکن احتجاج کے مقاصد اگر ملک میں انتشار اور افراتفری پھیلانا ہو تو پھر اپوزیشن کا احتجاج کس کام کا؟

اپوزیشن کس طرح خود کو محب وطن کہہ سکتی ہے۔ اپوزیشن ایک طرف احتجاج کر رہی ہوتی ہے اور دوسری جانب ہزاروں لوگوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

کسی کو مزدوری نہیں مل پاتی، کوئی اپنے دفتر پہنچ نہیں پاتا، بچے اسکول جانے سے محروم ہو جاتے ہیں، وکلاء اور حتیٰ کہ ججز بھی بعض اوقات عدالتوں میں نہیں پہنچ پاتے جس کا خمیازہ عام آدمی کو ہی بھگتنا پڑتا ہے، طلباء کے امتحانات رک جاتے ہیں، خواتین کے لیے بھی مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔

سب سے بڑھ کر مریض وقت پر ہسپتال نہیں پہنچ پاتے اور بعض اوقات انہی احتجاج کے باعث بعض مریض ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی راستوں میں زندگی ہار بیٹھتے ہیں۔

اگر سیاسی جماعتوں نے احتجاج ہی کرنا ہے تو اس کے لیے دھرنوں کے علاوہ اور بھی طریقے ہیں۔ کیا سیاسی جماعتیں اب بھی بلوغت کی اس سطح پر نہیں پہنچیں جہاں پر عوام کے لیے مشکلات پیدا کیے بغیر ان کی مشکلات حل کی جا سکیں؟

ارشد اقبال

ارشد اقبال پشتو نیوز چینل خیبر نیوز اسلام آباد میں سب ایڈیٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024