پشاور کا قدیم ورثہ وارثوں کا منتظر
میں صبح سویرے پشاور کے ایک سب سے پرانے بازار، بازار کالان آ پہنچا۔ وہاں سے سڑک سیدھا ایک پہاڑ کی چوٹی کی طرف جاتی ہے جہاں تحصیل کھتری واقع ہے۔
میرے بائیں جانب مشہور و معروف سیٹھی اسٹریٹ یا مقامی زبان میں کہیں تو سیٹھی محلہ واقع ہے۔
اس قلعہ بند شہر سے جڑی ماضی کی یادوں کی لہر کو تسلی دینے کے لیے اس شہر کو دیکھنے کا یہی بہترین وقت ہے کیونکہ اس کے بعد ایک آدھ گھنٹے میں یہ علاقہ اس قدر رش سے بھر جائے گا کہ گاڑی تو کیا پیدل چلنے تک کی بھی جگہ نہیں ملے گی۔ بدقسمتی سے میں اپنے اندر اٹھی ماضی کی یادوں کی شدید لہروں کو خاصی تسلی دینے میں کامیاب نہ رہا۔
اب یہ شہر کافی تبدیل ہو چکا ہے۔ اب یہ وہ شہر ہی نہیں رہا جو میں نے بچپن میں دیکھا تھا۔
پرانی عمارتوں کی جگہ بے ترتیب کمرشل دوکانیں تعمیر ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے پورا علاقہ بے ترتیب اور بھدی عمارتوں سے بھرا دکھائی دیتا ہے۔
جلد ہی اس علاقے کی باقی بچی کھچی جگہ ٹھیلوں اور پتھاروں سے پُر ہو جائے گی اور اس طرح ٹریفک جام اور چھوٹی موٹی باتوں پر جھگڑوں کے لیے موزوں صورتحال بھی پیدا ہو جائے گی۔
پشاور کے لوگ مہمان نوازی اور رواداری جیسی عظیم روایتوں کے امین تھے۔ گفتگو کے دوران جملے کے آخر میں 'جی' یا 'جان' جیسے الفاظ لازمی شامل ہوتے تھے۔ بدقسمتی سے اب یہ روایت بھی ماضی کی بات بن کر رہ گئی ہے۔
اچانک میں نے خود کو تھامس ہارڈی کے ایک ناول کے ایک موضوع 'ڈیراسینیشن' میں پایا، وکٹورین دور کے ناول نگار تھامس ہارڈی نے تیزی سے ہونے والی صنعت کاری کے ہاتھوں انگلینڈ کے ثقافتی زوال پر رنج و غم کا اظہار کیا تھا۔
ان کے نزدیک اس وقت کا نیا دور اپنے ساتھ لوگوں کی زندگیوں اور امن و سکون میں مشکلات لا رہا تھا اور انگلینڈ کا دیہاتی منظرنامہ اپنی خوبصورتی کھو رہا تھا۔
ڈیراسینیشن کا مطلب ہے کہ 'اپنا اصل مقام یا جڑیں کھو بیٹھنا'۔ بہرحال برطانیہ کو اس بات کا جلد ہی احساس ہو گیا تھا اور انہوں نے اپنے ثقافتی اور آبائی ورثے کو محفوظ کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا — جس میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی رہے۔
لندن کی سڑکوں پر پیدل چلتے وقت آپ اب بھی ماضی کو قریب سے چھو کر محسوس کر سکتے ہیں جیسے گول پتھروں سے بنی سڑکیں کہ جن پر شاید کسی دن چارلس ڈکنز اور شیکسپیئر بھی پیدل چلے ہوں گے۔
وہاں کے میوزیم ان کے ثقافتی ورثے کے گواہی دیتے ہیں اور اصل حالت میں محفوظ کی گئی عمارتیں وہاں کے مقامی لوگوں کی اپنی روایتوں سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ افسوس کے ساتھ تیزی سے اچانک ہونے والی کمرشلائزیشن سے پشاور اپنا اصل چہرہ کھو رہا ہے۔
پشاور مختلف تہذیبوں اور دنیا کے مختلف حصوں سے آنے والے تجارتی کاروانوں کے ملنے کا مرکز رہا ہے۔
پشاور یہ اعزاز بھی حاصل کر چکا ہے کہ یہ شہر جنوبی ایشیا کا قدیم ترین شہر ہے جو آج بھی قائم ہے — 4 سے 6 صدی قبل مسیح میں یہ شہر ہخامنشی سلطنت کا صوبہ تھا جس کے بعد پشاور یونانی، موریا، سیتھی، کشن، ساسانی، سفید ہنز، ہندو شاہی، غزنوی، غوری، افغان، مغل، درانی، سکھ اور تقسیم ہند سے پہلے برطانیہ کے قبضے میں رہا۔
ایک جنگجو کی قبر
گور کھتری پشاور کی قدیم عمارتوں میں سے ایک عمارت ہے جو گنج گیٹ کے قریب واقع ہے جہاں مشہور برطانوی انجینئر سر الیگزینڈر کننگھم نے کشن بادشاہ کا اسٹوپا دریافت کیا تھا۔
مغلیہ دور میں یہ ایک کاروان سرائے تھا جس کی تعمیر مغل شہنشاہ شاہ جہان کی بیٹی جہان آرا نے کروائی تھا۔
اس کے بعد جب سکھوں نے پشاور پر قبضہ کیا تب ان کے کرائے کے جنگجو جنرل پاؤلو کریسزنو مارتینو اویٹیبل نے گور کھتری کو اپنی رہائش گاہ میں تبدیل کروا دیا تھا۔ وہ 1838 سے 1842 تک پشاور کے حکمران رہے۔
جنرل اویٹینل کو مقامی طور پر ابو تبیلہ کہا جاتا ہے، انہوں نے پشاور پر بے رحم حکمرانی کی اور مقامی لوگوں کے دلوں میں اپنا خوف طاری کیے رکھا۔
ان کا نام اب بھی پشاوریوں کے درمیان سنگدلی کی علامت کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ گور کتھری کے حقیقی معنی جنگجو کی قبر کے ہیں۔
سکھوں کے دور میں گورکھ ناتھ نامی ایک بزرگ نے اس مقام پر قیام کیا اور ایک مندر تعمیر کروایا۔
اس مندر کے آثار اب بھی موجود ہیں۔ صوبائی حکومت نے اس تاریخی مقام پر ایک آثار قدیمہ کمپلیکس بھی تعمیر کروایا ہے۔
پشاور کے آثار قدیمہ کا ایک بہترین اثاثہ سیٹھی محلہ ہے جو کہ گور کتھری سے سڑک سے آگے واقع ہے۔
7 گھروں پر مشتمل یہ مقام شہر میں سب سے اعلٰی موروثی فن تعمیر کا نمونہ ہے۔ یہ گھر سیٹھیوں کے ہیں جو کہ پشاور کا سب سے پرانا بیوپاری خاندان ہے، وہ ریشم، کپڑے، نیل اور چائے کا کاروبار کرتے تھے۔
شنگھائی اور روس میں ان کے اپنے تجارتی دفاتر واقع تھے۔ سیٹھی ہاؤسز بخارا کے مقامی طرز تعمیر اور برطانوی راج کے وکٹورین ڈیزائنز کا ایک منفرد میلاپ ہے۔ ٹھنڈے بالا خانے اور بڑے دالان ان کی کچھ اہم خصوصیات میں سے ایک ہیں۔
لکڑی اور شیشے کا نفیس کام ان عمارتوں کی خوبصورتی اور شان و شوکت میں اور بھی اضافہ کر دیتا ہے۔ سیٹھی ہاؤسز کی زبردست تاریخی اور تعمیری حیثیت پر کوئی دو رائے نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ شہر میں اس دور میں دیگر گھروں اور محلوں کی طرز تعمیر میں بھی ایسی ہی خصوصیات موجود ہوا کرتی تھیں مگر میڈیا نے ان عمارتوں کو زیادہ کوریج ہی نہیں دی۔
سڑک سے مزید آگے گھنٹہ گھر ہے۔ اس گھنٹہ گھر کا اصل نام کننگھم ٹاور، پشاور کے سابق کمشنر سر جان کننگھم پر رکھا گیا تھا۔
یہ ٹاور ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی کی مناسبت سے وکٹورین طرز پر تعمیر کیا گیا تھا۔ گور کھتری اور قصہ خوانی بازار کے درمیان ایسے کئی سارے دیگر مقامات ہیں جو اپنی اپنی کہانیاں رکھتے ہیں ان میں چوک یادگار یا اسپیکرز کارنر، پیپل منڈی، بٹیر بازار (پرندوں کا بازار) اور موچی لڑہ (موچیوں کی سڑک) شامل ہیں۔
ہر عمارت کی اپنی کہانی ہے
19 ویں صدی کے وسط میں پشاور کے کمشنر سر ہربرٹ ایڈورڈز نے قصہ خوانی بازار یا کہانی سنانے والوں کے بازار کو وسطی ایشیا کا پکاڈلی (لندن کا ایک مشہور علاقہ جہاں پکاڈلی سرکس واقع ہے) کہا تھا۔
بلاشبہ یہ ایک انتہائی دلچسپ تمثیل ہے بشرطیکہ آپ نے دونوں جگہیں دیکھی ہوں۔ قدیم دور میں پیشہ ور قصہ خواں یا کہانیاں سنانے والے بازار کے بالاخانوں اور چائے خانوں میں بیٹھ کر قصے کہانیاں سنایا کرتے تھے۔
لوگ ان سے روایتی اور گزرے زمانوں کے قصے اور کہانیاں سننے کے لیے ان کے گرد گھیرا بنا کر بیٹھ جاتے تھے۔ کہانی سننے والوں میں دنیا کے مختلف حصوں سے پشاور آنے والے مسافر اور تاجر ہوتے تھے۔
ریڈیو اور ٹیلی وژن کی ایجاد کے بعد یہ صدیوں پرانی روایت دم توڑ گئی اور پیچھے رہ گیا ان قصہ خوانوں کا اپنا قصہ کہ 'ایک دفعہ کا ذکر ہے' کہ اس بازار میں کہانیاں سنانے والے بھی ہوتے تھے۔
قلعہ بند شہر کے باہر تاریخ کی تباہ کاریوں کا قصہ سناتا بالا حصار کا ایک بلند و بالا، مضبوط قلعہ ہے۔ بالا حصار (مطلب اونچی دیوار) کا تذکرہ شہنشاہ بابر کی کتاب تزک بابری میں ملتا ہے جبکہ، کہا جاتا ہے کہ ان کے بیٹے ہمایوں نے شیر شاہ سوری کو شکست دینے کے بعد قلعے کو دوبارہ تعمیر کروایا تھا۔ تاہم یہ قلعہ مغل دور سے کافی پرانا معلوم ہوتا ہے۔
معروف تاریخ دان ڈاکٹر احمد حسن دانی اپنی کتاب میں 'پشاور: ہسٹورک سٹی آف فرنٹیئرز' میں بیان کرتے ہیں کہ قلعے اور شاہی رہائش گاہ کی موجودگی کا ذکر چینی سیاح ہاین سنگ نے بھی کیا ہے جو 630 صدی میں پشاور آئے تھے۔
بدقسمتی سے سکھوں نے 1834 میں پشاور پر قبضہ کرنے کے بعد بالا حصار میں لوٹ مار مچا دی۔ انہوں نے قلعے کا نام سمیر گڑھ رکھ دیا مگر وہ نام مقبول نہ ہو سکا اور پشاور میں سکھوں کے مختصر دور کے بعد یہ نام بھی جلد ہی لوگوں کے ذہنوں سے مٹ گیا۔
1849 میں برٹش کی جانب سے سکھوں کو شکست دینے کے بعد اس قلعے کو دوبارہ تعمیر کروایا اور اسے گریژن میں تبدیل کر دیا۔ دسمبر 1948 میں بالا حصار کو فرنٹیئر کور کا ہیڈ کوارٹر بنا دیا گیا تھا۔
پشاور چھاؤنی برٹش راج دور کا ہی ایک آثار ہے۔ 1850 میں سر کولن کیمبل نے پشاور چھاؤنی کی بنیاد رکھی تھی۔
انہوں نے قلعہ بند شہر کے باہر چھاؤنی تعمیر کی اور برطانوی روایت کے تحت چھاؤنی درختوں کی چھاؤں میں بچھی کشادہ سڑکوں، گرجا گھروں، کلبز، اسکولوں اور دیگر سہولیات سے آراستہ تھی۔
ان دنوں بڑی تعداد میں انگریز مرد و خواتین بازار کا رخ کیا کرتے تھے اس لیے آج بھی پشاور کے پرانے مقامی لوگ اس بازار کو 'گورا بازار' کے طور پر یاد کرتے ہیں گو کہ تقسیم ہند کے بعد اس کا نام جناح اسٹریٹ رکھ دیا گیا تھا۔
چھاؤنی میں واقع ڈینز ہوٹل بھی ایک تاریخی عمارت ہے جو پوری دنیا بھر سے آنے والے سیاحوں سے بھری رہتی تھی۔
90 کی دہائی کے اواخر میں ڈینز اپنا مقام کھو بیٹھی اور دیگر مقامات کی بھی قسمت کا حال ویسا ہی رہا۔ پشاور میں ڈھیر سارے تاریخی مقامات ہیں مگر اس تاریخی ورثے کی تیز رفتار زوال پذیری کہیں ختم ہوتے دکھائی نہیں دے رہی۔
مسخ ہوتی تاریخی
پشاور جنوبی ایشیا کا ایک سب سے قدیم شہر ہے۔ اس کے ثقافتی ورثے کا تعلق دو ہزار سالوں سے بھی زیادہ پرانا ہے۔
بدقسمتی سے یہ ورثہ کمرشلائزیشن کی آڑ میں اپنا اصل مقام کھوتا جا رہا ہے۔ حکومت نے ایک سیٹھی ہاؤس کو محفوظ بنانے اور گور کھتری کے مقام پر آثار قدیمہ کمپلیکس تعمیر کروا کر قابل تعریف اقدام اٹھائے ہیں؛ مگر ثقافت اور ریت و رواج ایسے معاملات نہیں ہیں جنہیں سنبھالنا حکومت کا کام ہو۔
ان چیزوں کا زیادہ انحصار لوگوں پر ہے کہ وہ اپنے آبائی ریتوں، فن تعمیر اور فائن آرٹس کا تحفظ کریں۔ میں لندن اور اسکاٹ لینڈ میں ایسی کئی ساری عمارتیں اور یادگاریں دیکھ چکا ہوں جنہیں بڑی احتیاط سے محفوظ کیا گیا ہے۔
میں نہیں سمجھتا کہ وہاں یہ سب کچھ حکومت کی جانب سے کیا گیا ہے؛ بلکہ یہ وہاں کے لوگوں کی قوت ارادی یا خواہش ہے کہ وہ اپنے تاریخی اور روایتی ورثے کے ذریعے اپنی شناخت کو برقرار رکھتے ہیں۔ اسی چیز کی ضرورت اس ضمن میں بھی ہے۔
میری آج بھی تمنا ہوتی ہے کہ جھروکھوں، آروسیوں (کھڑکیاں) دالان اور لکڑی کے تختوں سے بنی کھڑکیاں دیکھوں۔
مگر اب یہ سب ایک تصوراتی کہانی کا حصہ بنتے چلے جا رہے ہیں کیونکہ چند روپوں کی خاطر ان مقامات کو بیچ دیا جاتا ہے۔ میں سوچ کر حیران ہوتا ہوں کہ پشاوریوں کی اگلی نسل ہندکو بول بھی پائے گی یا نہیں، جو کہ اس قلعے بند شہر کی مقامی زبان ہے، کیونکہ آج بچوں کو یہ زبان بولنے کی ترغیب نہیں دی جاتی۔
اربنائزیشن یا شہری آباد کاری اور کمرشلائزیشن معاشرے کی صورت بدل دیتی ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ وہ بہت کچھ چھین بھی لیتی ہیں۔
میرے کہنے کا قطعاً یہ مقصد نہیں ہے کہ پشاور کو ان سے باز رہنا چاہیے کیونکہ معاشرے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے یہ انتہائی ضروری ہیں۔
مگر اس بات کو ذہن میں رکھنا لازمی ہے کہ یہ عمل اپنی تاریخ اور ریتوں کے عوض نہ ہو۔ میرا ماننا ہے اب پشاور کے لوگوں کے لیے اپنے تاریخی ورثے کو عملی تحفظ فراہم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارا ورثہ تاریخ کے اوراق تک محدود ہوجائے۔
یہ مضمون ڈان سنڈے میگزین میں 31 جولائی 2016 کو شایع ہوا۔
تبصرے (1) بند ہیں