سانحہ 12 مئی: ملک بھر میں وکلا کا یوم سیاہ
کراچی: سانحہ 12 مئی کے نو سال مکمل ہونے پر آج وکلا نے ملک گیر یوم سیاہ مناتے ہوئے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھیں اور بارز پر سیاہ پرچم لہرائے۔
خیال رہے کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور آمریت میں جب وکلا تحریک اپنے عروج پر تھی، 12 مئی 2007 کے روز اس وقت کے غیر فعال چیف جسٹس کی کراچی آمد کے موقع پر کشیدگی میں وکلا سمیت کم از کم 30 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
ڈان نیوز کے مطابق سانحہ 12 مئی کے حوالے سے سندھ، پنجاب، بلوچستان اور ملک کی دیگر بار کونسلز نے ملک بھر میں یوما سیاہ منانے کی اپیل کی تھی، جس پر ملک کی تمام بار کونسلوں میں وکلا نے بازوں پر سیاہ پٹیاں باندھی اور احتجاجی ریلیاں نکالی جبکہ بارز میں جنرل باڈی اجلاس بھی منعقد کیے گئے۔
سندھ
مذکورہ سانحہ کے حوالے سے کراچی سٹی کورٹ میں بار روم پر سیاہ پرچم لہرائے گئے، وکلا نے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھی اور عدالتی کارروائی کا مکمل بائیکاٹ کیا، جبکہ واقعے میں ہلاک ہونے والے افراد کیلئے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔
اس موقع پر کراچی بار نے سانحے کی تحقیقات کیلئے فیکٹ فائنڈنگ کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا۔
وائس چیئرمین سندھ بار کونسل صلاح الدین احمد کا کہنا تھا کہ سانحے کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن بنایا جائے، اگر مطالبات پورے نہ ہوئے تو سڑکوں پر آئیں گے۔
سندھ بار کونسل کی اپیل پر صوبے کے دیگر شہروں میں بھی وکلا نے اپنے ساتھیوں کے قتل کے خلاف یوم سیاہ منایا۔
حیدرآباد میں بھی وکلا نے عدالتی امور کا مکمل بائیکاٹ کیا، جس کی وجہ سے پیشی پرآئے سائلین کو شدید پریشانی سامنا کرنا پڑا۔
دادو میں وکلا نے سانحہ 12 مئی کی یاد میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔
بلوچستان
کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر کی عدالتوں میں بھی وکلا نے یوم سیاہ منایا، کوئٹہ میں وکلا نے بار روم کے باہر سیاہ پرچم لہرائے اور عدالتی امور کا مکمل بائیکاٹ کیا۔
وکلا رہنماؤں نے اپنے خطاب میں سانحہ 12 مئی پر حکومت کے غیر سنجیدہ رویے کو افسوس ناک قرار دیا۔
وکلا تنظیوں کی جانب سے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ کراچی میں 12 مئی کی ہلاکتوں کے ذمہ دار افراد کو سخت سے سخت سزائیں دی جائیں۔
پنجاب
سانحے 12 مئی کے خلاف پنجاب بار کی کال پر ہائیکورٹ اور لاہور بار کے وکلا نے بھی عدالتوں کا مکمل بائیکاٹ کیا، راولپنڈی سمیت دیگر شہروں میں بھی وکلا عدالتوں میں پیش نہیں ہوئے۔
12 مئی 2007
آج سے نو سال قبل 12 مئی 2007 کے روز جب اس وقت کی وکلا تحریک عروج پر تھی، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی کراچی آمد کے موقع پر ان کے استقبال کے لیے آنے والے سیاسی کارکنوں پر نامعلوم افراد نے گولیاں برسا دی تھیں۔
واضح رہے کہ شہر میں کشیدگی کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب غیر فعال چیف جسٹس افتخار احمد چوہدری سندھ ہائی کورٹ بار سے خطاب کرنے کے لیے کراچی پہنچے تھے۔
تاہم اس وقت کی انتظامیہ نے انہیں کراچی ائیرپورٹ سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی تھی۔
اس روز کراچی کے مختلف علاقوں میں کشیدگی کے دوران وکلا سمیت 50 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔