صرف نام کی 'گرین لائن' بس سروس
کراچی شہر میں گذشتہ سال شدید گرم موسم میں ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے بارہ سو سے زائد انسان لقمہء اجل بن گئے تھے، جس کی سب سے بڑی وجہ کراچی کی سمندری ہواؤں کا رک جانا تھا، جس سے شہر میں گھٹن اور گرمی میں اضافہ ہوا۔
سمندری ہواؤں پر انسان کا کوئی کنٹرول نہیں، اس لیے ان کے رک جانے پر کسی کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا، لیکن جس چیز پر موردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے، وہ ہماری اس طرح کے واقعات کے حوالے سے ناقص منصوبہ بندی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی بڑی وجہ درختوں کی کمی اور کاربن کے اخراج میں اضافہ ہے۔ ایک درخت سال بھر میں بارہ کلو گرام تک کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور چار انسانوں کے لیے سال بھر کی آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ مگر ہمارا عزم ہے کہ آکسیجن کی اس مفت سپلائی کو کاٹ کر ہی دم لینا ہے۔
کراچی سے کافی عرصے سے بارشیں منہ موڑ چکی ہیں، جس کی وجہ اس شہر میں درختوں کی کمی اور موجودہ درختوں کی کٹائی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی شہر میں صرف 60 لاکھ درخت موجود ہیں، جبکہ آبادی کے لحاظ سے ماحولیات کے اثر سے محفوظ رکھنے کے لیے ڈیڑھ کروڑ مزید درختوں کی مزید ضرورت ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق کسی بھی شہر کے 25 فیصد رقبے پر درخت ہونے ضروری ہیں، مگر شہر کراچی میں جتنی فضائی آلودگی ہے، اس لحاظ سے 25 فیصد رقبہ بھی ناکافی ہے۔
وزیرِ اعظم پاکستان کی جانب سے کراچی کو دیا جانے والا گرین لائن بس سروس کا تحفہ شہریوں کو بہترین سفری سہولیات فراہم کرے گا، جس سے یقینی طور پر ٹرانسپورٹ کے کئی مسائل حل ہوں گے، لیکن یہ ترقیاتی منصوبہ ایک بہت بڑی قیمت پر تیار ہوگا، اور وہ قیمت کراچی کے درخت چکائیں گے۔
چشم کشا رپورٹ: کراچی کو سونامی سے بچانے والی ڈھال خطرے میں
پہلے سے فضائی آلودگی اور بڑھتی ہوئی گرمی کے شکار اس شہر میں 18,000 ہزار ہرے بھرے درختوں کو کاٹ کر گرین لائن بس سروس کے لیے جگہ بنائی جائے گی، یعنی 3 لاکھ لوگوں کو سفری سہولیات میسر کرنے کے لیے 72,000 لوگوں کو آکسیجن فراہم کرنے والے درخت کاٹ دیے جائیں گے۔
گرین لائن بس سروس پر کام کے فوری بعد ہی درختوں کی کٹائی کا آغاز ہوا اور برسوں پرانے درختوں کو کاٹ دیا گیا، حالانکہ جب وزیرِ اعظم پاکستان سنگِ بنیاد رکھنے ناظم آباد کے انو بھائی پارک آئے تھے، تو منصوبے کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ درختوں کو بچانے کی پوری کوشش کی جائے گی، اور روٹ کے درمیان آنے والے درختوں کو دوسری جگہوں پر منتقل کیا جائے گا، اور جہاں کاٹنا ضروری ہوگا وہاں متبادل پودے لگائے جائیں گے۔
مگر ایسا فی الوقت نظر نہیں آ رہا۔
ناظم آباد میں کئی درختوں کو کاٹ دیا گیا ہے اور اب تک ان کے متبادل کوئی درخت نہیں لگایا گیا۔ کراچی شہر میں پہلے ہی ہزاروں کی تعداد میں درختوں کو بلاخوف کاٹا جاچکا ہے۔ کچھ عرصہ قبل صرف شہیدِ ملت روڈ پر ایک عمارت کی تعمیر کے سلسلے میں ایک مقامی بلڈر نے کم و بیش 70 درختوں کو کاٹ ڈالا، جبکہ شارعِ فیصل پر اشتہاری بورڈز کو واضح کرنے کی خاطر اکثر درختوں کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ اس طرح درختوں کی بے دریغ کٹائی پر کوئی محکمہ کارروائی نہیں کرتا بھلے ہی درخت کے کاٹنے پر سزا کا قانون موجود ہے۔
مزید پڑھیے: کراچی میں اتنی شدید گرمی کیوں
یہ بھی قابلِ فکر بات ہے کہ جب ان درختوں کو کمرشل منصوبوں کی جگہ بنانے کے لیے کاٹا جاتا ہے، تو ان کی لکڑی کس کے استعمال میں آتی ہے؟ یعنی درخت کاٹنے والے دہرے فائدے میں رہتے ہیں، مفت کی جگہ مل جاتی ہے اور ساتھ میں لکڑی بیچ کر پیسہ بھی۔
متعلقہ محکمے ہمیشہ درختوں کے کٹ جانے اور ان کی لکڑی ٹھکانے لگنے کے بعد ہی حرکت میں آتے ہیں (دانستہ طور پر؟) اور بے فائدہ مقدمے درج کروا کر 'تحقیقات کا حکم' دیتے نظر آتے ہیں۔
سندھ لوکل باڈیز آرڈیننس 2001 اور مینٹیننس آف ٹری اور پبلک پارکس آرڈیننس 2002 کے تحت درخت کاٹنا جرم ہے مگر اس پر عملدرآمد دیکھنے میں نہیں آتا۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ گرین بس منصوبہ قابل ستائش ہے۔ ترقیاتی منصوبے عوام کا حق ہیں، لیکن اس کے لیے پہلے منصوبہ بندی اور منصوبہ بندی کے مطابق اس پر عمل ضروری ہے۔
دنیا بھر میں اس بات کو مدِنظر رکھا جاتا ہے کہ تمام منصوبے انسان دوست ہونے کے ساتھ ماحول دوست بھی ہوں۔ اور جہاں اس طرح کے منصوبوں کے لیے درخت کاٹنے ضروری ہوں، وہاں پہلے متبادل درخت لگائے جاتے ہیں تاکہ ماحولیاتی توازن برقرار رہے۔
کچھ عرصہ قبل برطانیہ میں لندن اور برمنگھم کو ملانے کے لیے تیز رفتار ٹرین کے منصوبے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے روٹ میں آنے والے قدیم درختوں کے کاٹنے کے منصوبے پر شدید عوامی احتجاج سامنے آیا۔ چونکہ ان میں سے چند قدیم دیوہیکل درختوں کی منتقلی ممکن نہیں، اس لیے اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ درخت کاٹنے سے قبل ٹرین کے روٹ کے دونوں اطراف 20 لاکھ درخت لگائے جائیں گے جن سے نہ صرف کاٹے جانے والے درختوں کا ازالہ ہوگا، بلکہ برطانیہ کے جنگلات کے رقبے میں بھی اضافہ ہوگا۔
پڑھیے: طلباء کا اپنی مدد آپ کے تحت پھلدار درخت لگانے کا منصوبہ
ہم ایک زمانے سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ چین ہمارا بہترین دوست ہے اور اصل میں حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان اور چین کے سفارتی تعلقات کو قائم ہوئے اس سال 65 سال ہوجائیں گے، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چین جیسے بہترین دوست سے ہم نے ماحولیات کے حوالے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
چین کا شاید ہی کوئی علاقہ ہوگا جہاں ٹرانسپورٹ کی سہولیات میسر نہ ہوں۔ ہزاروں کلومیٹر پر محیط ریلوے نظام اور بس روٹس کا جال پھیلا ہوا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی منصوبے پر عمل کرنے سے پہلے درختوں کو جدید طریقوں سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے اور مزید درخت لگائے جاتے ہیں تاکہ آلودگی کا مسئلہ درپیش نہ ہو۔
ہمارے ہاں اس کے برعکس ہے۔ درخت لگانے اور شجر کاری مہم کا اعلان تو کیا جاتا ہے تو اس پر عمل نہیں کیا جاتا، اور اگر درخت لگا بھی دیے جاتے ہیں تو ان کی دیکھ بھال نہیں کی جاتی۔ جولائی 2009 میں ٹھٹھہ میں کیٹی بندر کے مقام پر ایک دن میں 4 لاکھ 49 ہزار پودے لگا کر عالمی ریکارڈ تو بنا لیا گیا، مگر ان کی دیکھ بھال نہیں کی گئی جس کی وجہ سے وہ نشونما نہیں پا سکے۔
مینگروو کے جنگلات کراچی کو سمندری طوفانوں سے محفوظ رکھتے رہے ہیں، مگر انہیں بھی کمرشل منصوبوں کی جگہ بنانے کے لیے تیزی سے کاٹا جا رہا ہے۔
یہی حال کراچی کے مینگروو کے جنگلات کا بھی ہے۔ کراچی کو سمندری طوفانوں سے بچانے والے قدرتی جنگلات کو پراپرٹی ڈویلپمنٹ کے لیے تہہ تیغ کر کے رکھ دیا گیا ہے، جس سے فی الوقت تو اربوں روپے کما لیے گئے ہیں، لیکن سمندری طوفانوں کے لیے راستہ کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔
گرین لائن بس سروس بلاشبہ کراچی کے شہریوں کو ٹریفک کی اذیت سے نجات دلانے میں کچھ حد تک مددگار ثابت ہوگی۔ اس سے ٹریفک کا جو دباؤ کم ہوگا، اس سے ایندھن کے ضیاع اور کاربن کے اخراج میں کمی آنے کی توقع ہے، لیکن ایسا کوئی بھی منصوبہ پوری طرح فائدہ مند صرف تب ہوگا جب اس کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں گے۔
حیرت انگیز: ڈرونز کے ذریعے سالانہ 1 ارب درخت لگانے کا منصوبہ
اس کے لیے ضروری ہے کہ ٹرانسپورٹ کے محکمے کا محکمہء ماحولیات کے ساتھ رابطہ اور ہم آہنگی ہو تاکہ روٹ کے راستے میں آنے والے درختوں اور قدیم تعمیرات کے تحفظ کے لیے کام کیا جا سکے، مگر شاید یہ ہمارے حکام کے لیے بہت بڑا سر درد ہے، جسے پالنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔
اس مشقت سے بچنے کے لیے ہم ابھی تو درخت کاٹ دیں گے اور بس منصوبہ بھی جلد از جلد مکمل کر لیں گے، مگر اس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔
باقی رہے وہ پرندے جن کے گھر ان درختوں پر قائم تھے، تو اجی چھوڑیے، ہمیں انسانوں کی فکر کہاں ہے جو پرندوں کی فکر کریں؟
متعلقہ مضامین
تبصرے (8) بند ہیں