• KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:32pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm
  • KHI: Zuhr 12:16pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 11:46am Asr 3:32pm
  • ISB: Zuhr 11:51am Asr 3:34pm

صرف نام کی 'گرین لائن' بس سروس

شائع May 7, 2016 اپ ڈیٹ May 9, 2016
ایک کوا کراچی کی ساحلی پٹی پر ایک کٹے ہوئے مینگروو کے درخت پر بیٹھا ہے۔ — اے ایف پی فوٹو۔
ایک کوا کراچی کی ساحلی پٹی پر ایک کٹے ہوئے مینگروو کے درخت پر بیٹھا ہے۔ — اے ایف پی فوٹو۔

کراچی شہر میں گذشتہ سال شدید گرم موسم میں ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے بارہ سو سے زائد انسان لقمہء اجل بن گئے تھے، جس کی سب سے بڑی وجہ کراچی کی سمندری ہواؤں کا رک جانا تھا، جس سے شہر میں گھٹن اور گرمی میں اضافہ ہوا۔

سمندری ہواؤں پر انسان کا کوئی کنٹرول نہیں، اس لیے ان کے رک جانے پر کسی کو موردِ الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا، لیکن جس چیز پر موردِ الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے، وہ ہماری اس طرح کے واقعات کے حوالے سے ناقص منصوبہ بندی ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی بڑی وجہ درختوں کی کمی اور کاربن کے اخراج میں اضافہ ہے۔ ایک درخت سال بھر میں بارہ کلو گرام تک کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، اور چار انسانوں کے لیے سال بھر کی آکسیجن فراہم کرتا ہے۔ مگر ہمارا عزم ہے کہ آکسیجن کی اس مفت سپلائی کو کاٹ کر ہی دم لینا ہے۔

کراچی سے کافی عرصے سے بارشیں منہ موڑ چکی ہیں، جس کی وجہ اس شہر میں درختوں کی کمی اور موجودہ درختوں کی کٹائی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی شہر میں صرف 60 لاکھ درخت موجود ہیں، جبکہ آبادی کے لحاظ سے ماحولیات کے اثر سے محفوظ رکھنے کے لیے ڈیڑھ کروڑ مزید درختوں کی مزید ضرورت ہے۔ ماہرین ماحولیات کے مطابق کسی بھی شہر کے 25 فیصد رقبے پر درخت ہونے ضروری ہیں، مگر شہر کراچی میں جتنی فضائی آلودگی ہے، اس لحاظ سے 25 فیصد رقبہ بھی ناکافی ہے۔

وزیرِ اعظم پاکستان کی جانب سے کراچی کو دیا جانے والا گرین لائن بس سروس کا تحفہ شہریوں کو بہترین سفری سہولیات فراہم کرے گا، جس سے یقینی طور پر ٹرانسپورٹ کے کئی مسائل حل ہوں گے، لیکن یہ ترقیاتی منصوبہ ایک بہت بڑی قیمت پر تیار ہوگا، اور وہ قیمت کراچی کے درخت چکائیں گے۔

چشم کشا رپورٹ: کراچی کو سونامی سے بچانے والی ڈھال خطرے میں

پہلے سے فضائی آلودگی اور بڑھتی ہوئی گرمی کے شکار اس شہر میں 18,000 ہزار ہرے بھرے درختوں کو کاٹ کر گرین لائن بس سروس کے لیے جگہ بنائی جائے گی، یعنی 3 لاکھ لوگوں کو سفری سہولیات میسر کرنے کے لیے 72,000 لوگوں کو آکسیجن فراہم کرنے والے درخت کاٹ دیے جائیں گے۔

گرین لائن بس سروس پر کام کے فوری بعد ہی درختوں کی کٹائی کا آغاز ہوا اور برسوں پرانے درختوں کو کاٹ دیا گیا، حالانکہ جب وزیرِ اعظم پاکستان سنگِ بنیاد رکھنے ناظم آباد کے انو بھائی پارک آئے تھے، تو منصوبے کے بارے میں بریفنگ دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ درختوں کو بچانے کی پوری کوشش کی جائے گی، اور روٹ کے درمیان آنے والے درختوں کو دوسری جگہوں پر منتقل کیا جائے گا، اور جہاں کاٹنا ضروری ہوگا وہاں متبادل پودے لگائے جائیں گے۔

مگر ایسا فی الوقت نظر نہیں آ رہا۔

ناظم آباد میں کئی درختوں کو کاٹ دیا گیا ہے اور اب تک ان کے متبادل کوئی درخت نہیں لگایا گیا۔ کراچی شہر میں پہلے ہی ہزاروں کی تعداد میں درختوں کو بلاخوف کاٹا جاچکا ہے۔ کچھ عرصہ قبل صرف شہیدِ ملت روڈ پر ایک عمارت کی تعمیر کے سلسلے میں ایک مقامی بلڈر نے کم و بیش 70 درختوں کو کاٹ ڈالا، جبکہ شارعِ فیصل پر اشتہاری بورڈز کو واضح کرنے کی خاطر اکثر درختوں کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ اس طرح درختوں کی بے دریغ کٹائی پر کوئی محکمہ کارروائی نہیں کرتا بھلے ہی درخت کے کاٹنے پر سزا کا قانون موجود ہے۔

مزید پڑھیے: کراچی میں اتنی شدید گرمی کیوں

یہ بھی قابلِ فکر بات ہے کہ جب ان درختوں کو کمرشل منصوبوں کی جگہ بنانے کے لیے کاٹا جاتا ہے، تو ان کی لکڑی کس کے استعمال میں آتی ہے؟ یعنی درخت کاٹنے والے دہرے فائدے میں رہتے ہیں، مفت کی جگہ مل جاتی ہے اور ساتھ میں لکڑی بیچ کر پیسہ بھی۔

متعلقہ محکمے ہمیشہ درختوں کے کٹ جانے اور ان کی لکڑی ٹھکانے لگنے کے بعد ہی حرکت میں آتے ہیں (دانستہ طور پر؟) اور بے فائدہ مقدمے درج کروا کر 'تحقیقات کا حکم' دیتے نظر آتے ہیں۔



سندھ لوکل باڈیز آرڈیننس 2001 اور مینٹیننس آف ٹری اور پبلک پارکس آرڈیننس 2002 کے تحت درخت کاٹنا جرم ہے مگر اس پر عملدرآمد دیکھنے میں نہیں آتا۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ گرین بس منصوبہ قابل ستائش ہے۔ ترقیاتی منصوبے عوام کا حق ہیں، لیکن اس کے لیے پہلے منصوبہ بندی اور منصوبہ بندی کے مطابق اس پر عمل ضروری ہے۔

دنیا بھر میں اس بات کو مدِنظر رکھا جاتا ہے کہ تمام منصوبے انسان دوست ہونے کے ساتھ ماحول دوست بھی ہوں۔ اور جہاں اس طرح کے منصوبوں کے لیے درخت کاٹنے ضروری ہوں، وہاں پہلے متبادل درخت لگائے جاتے ہیں تاکہ ماحولیاتی توازن برقرار رہے۔

کچھ عرصہ قبل برطانیہ میں لندن اور برمنگھم کو ملانے کے لیے تیز رفتار ٹرین کے منصوبے کا اعلان کیا گیا۔ اس کے روٹ میں آنے والے قدیم درختوں کے کاٹنے کے منصوبے پر شدید عوامی احتجاج سامنے آیا۔ چونکہ ان میں سے چند قدیم دیوہیکل درختوں کی منتقلی ممکن نہیں، اس لیے اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ درخت کاٹنے سے قبل ٹرین کے روٹ کے دونوں اطراف 20 لاکھ درخت لگائے جائیں گے جن سے نہ صرف کاٹے جانے والے درختوں کا ازالہ ہوگا، بلکہ برطانیہ کے جنگلات کے رقبے میں بھی اضافہ ہوگا۔

پڑھیے: طلباء کا اپنی مدد آپ کے تحت پھلدار درخت لگانے کا منصوبہ

ہم ایک زمانے سے سنتے چلے آرہے ہیں کہ چین ہمارا بہترین دوست ہے اور اصل میں حقیقت بھی یہی ہے کہ پاکستان اور چین کے سفارتی تعلقات کو قائم ہوئے اس سال 65 سال ہوجائیں گے، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ چین جیسے بہترین دوست سے ہم نے ماحولیات کے حوالے سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔

چین کا شاید ہی کوئی علاقہ ہوگا جہاں ٹرانسپورٹ کی سہولیات میسر نہ ہوں۔ ہزاروں کلومیٹر پر محیط ریلوے نظام اور بس روٹس کا جال پھیلا ہوا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی منصوبے پر عمل کرنے سے پہلے درختوں کو جدید طریقوں سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے اور مزید درخت لگائے جاتے ہیں تاکہ آلودگی کا مسئلہ درپیش نہ ہو۔

ہمارے ہاں اس کے برعکس ہے۔ درخت لگانے اور شجر کاری مہم کا اعلان تو کیا جاتا ہے تو اس پر عمل نہیں کیا جاتا، اور اگر درخت لگا بھی دیے جاتے ہیں تو ان کی دیکھ بھال نہیں کی جاتی۔ جولائی 2009 میں ٹھٹھہ میں کیٹی بندر کے مقام پر ایک دن میں 4 لاکھ 49 ہزار پودے لگا کر عالمی ریکارڈ تو بنا لیا گیا، مگر ان کی دیکھ بھال نہیں کی گئی جس کی وجہ سے وہ نشونما نہیں پا سکے۔



مینگروو کے جنگلات کراچی کو سمندری طوفانوں سے محفوظ رکھتے رہے ہیں، مگر انہیں بھی کمرشل منصوبوں کی جگہ بنانے کے لیے تیزی سے کاٹا جا رہا ہے۔

یہی حال کراچی کے مینگروو کے جنگلات کا بھی ہے۔ کراچی کو سمندری طوفانوں سے بچانے والے قدرتی جنگلات کو پراپرٹی ڈویلپمنٹ کے لیے تہہ تیغ کر کے رکھ دیا گیا ہے، جس سے فی الوقت تو اربوں روپے کما لیے گئے ہیں، لیکن سمندری طوفانوں کے لیے راستہ کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔

گرین لائن بس سروس بلاشبہ کراچی کے شہریوں کو ٹریفک کی اذیت سے نجات دلانے میں کچھ حد تک مددگار ثابت ہوگی۔ اس سے ٹریفک کا جو دباؤ کم ہوگا، اس سے ایندھن کے ضیاع اور کاربن کے اخراج میں کمی آنے کی توقع ہے، لیکن ایسا کوئی بھی منصوبہ پوری طرح فائدہ مند صرف تب ہوگا جب اس کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ درخت لگائے جائیں گے۔

حیرت انگیز: ڈرونز کے ذریعے سالانہ 1 ارب درخت لگانے کا منصوبہ

اس کے لیے ضروری ہے کہ ٹرانسپورٹ کے محکمے کا محکمہء ماحولیات کے ساتھ رابطہ اور ہم آہنگی ہو تاکہ روٹ کے راستے میں آنے والے درختوں اور قدیم تعمیرات کے تحفظ کے لیے کام کیا جا سکے، مگر شاید یہ ہمارے حکام کے لیے بہت بڑا سر درد ہے، جسے پالنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔

اس مشقت سے بچنے کے لیے ہم ابھی تو درخت کاٹ دیں گے اور بس منصوبہ بھی جلد از جلد مکمل کر لیں گے، مگر اس کا خمیازہ ہماری آنے والی نسلیں بھگتیں گی۔

باقی رہے وہ پرندے جن کے گھر ان درختوں پر قائم تھے، تو اجی چھوڑیے، ہمیں انسانوں کی فکر کہاں ہے جو پرندوں کی فکر کریں؟


متعلقہ مضامین

گرین لائن اور حل طلب مسائل

صنوبر کی فریاد

کیا کراچی ہمیشہ ڈوبتا رہے گا؟

محمد ارشد قریشی

محمد ارشد قریشی انٹرنیشنل ریڈیو لسنرز کلب کراچی کے صدر ہیں، اور سماجی مسائل پر لکھتے ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Maq_arshad@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (8) بند ہیں

Imran May 07, 2016 02:25pm
سبز درخت کاٹ دیئے تو کیا ہو ا ساتھ میں بسیں بھی تو سبز چلا دی ہیں۔ ترجمان پی ایم ایل ۔ ن
Saleem Siddiqi May 07, 2016 03:35pm
بلکل درست لکھا آپ نے چند دن پہلے ناظم آباد میں اس مقام پر گھنے درختوں کا جو حشر دیکھا اس سے واضح لگتا تھا کہ گرین بس منصوبے سے کہیں زیادہ دلچسپی درختوں سے لکڑی حاصل کرنے میں ہے
fiz May 07, 2016 05:18pm
bura hal kr dia hy is govt ne karachi ka , ujaar k rakh di hy
Dr.Afzaal Malik May 07, 2016 08:19pm
درخت لگانا بہترین صدقہ جاریہ جبکہ سرسبز و شاداب درخت کاٹنا بہت بڑی بدقسمتی ہے۔ جب تک درخت کاٹنے کو قومی جرم قرار نہیں دیا جاتا ٹمبر مافیا‘ ناجائز مافیا‘ ماحول دشمن مافیا اور ملک دشمن مافیا کو لگام نہیں دی جا سکتی۔ پوری دنیا میں شور مچا ہے کہ پاکستان شدید گرمی اور ماحولیات سے متاثر ہونے والے چند بڑے ممالک میں شامل ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہاں کرپشن کے علاوہ کوئی کام بھی ڈھنگ سے نہیں ہو رہا۔ محکمہ ماحولیات کو کوئی فکر ہی نہیں‘ سینکڑوں کی تعداد میں سرسبزو شاداب درخت کاٹنے کا ظالمانہ‘ بے رحمانہ‘ دہشت گردانہ اور ناعاقب اندیشانہ سلسلہ جاری رہاتو آنے والے دنوں ہفتوں مہینوں سالوں میں ہمارا کیا بنے گا؟ وزارت ماحولیات اور اسکے تمام ذیلی ادارے جو اربوں روپے سالانہ گرانٹ بلکہ ہر سال اپنی تنخواہوں مراعات میں اضافہ وصول کرتے ہیں کو اپنے فرائض حلال طریقے سے بھی نبھانے چاہئیں۔ درختوں کی کٹائی قانوناً جرم قرار دلوانا ہو گا۔ پانی کے ذخائر بنوانے کیلئے اراکین اسمبلی اور حکمرانوں پر دبائو ڈالنا ہو گا۔ سرسبز درخت یونہی کاٹے جاتے رہے تو بھیانک نتائج ہونگے لہٰذا فوری نئے درخت لگانے کا عملی آغاز کیا جائے۔
Dr.Afzaal Malik May 07, 2016 08:36pm
پانچ سو سرسبز درخت کاٹ دیئے تو کیا ہوا جناب نیلامی میں پنجاب حکومت کو دس ہزار روپے بھی تو مل گئے ہیں ناں۔ اس سے سڑکوں پر چلنے والی پٹرول ڈیزل بسوں پر سبز رنگ کر دیا جائیگا جس سے ماحولیات میں بھی بہتری آئے گی اور اضافی آمدنی سے میٹرو ٹرین وغیرہ کے منصوبے مکمل کئے جائیں گے۔ اپوزیشن کا تو کام ہی ملکی ترقی کے منصوبوں کو رکوانا ہے۔ شیر اک واری فیر
Dr.Afzaal Malik May 07, 2016 08:43pm
کاش کوئی ایسی حکومت آئے جو پہلے ہی سال میں درختوں کو کاغذوں سے نکال کر واقعی زمین میں لگائے۔ اور اتنے پودے لگائے کہ چند ہی سال میں ہر شہر سرسبزو شاداب ہو جائے۔ جہاں ہر غریب پیدل چلنے والے کو کڑی دھوپ میں نہ جلنا پڑے۔ درختوں کی وجہ سے ماحولیات پر بھی مثبت اثر پڑتا ہے اور ٹمپریچر میں کمی ہوتی ہے۔ کبھی ٹھنڈے گھنے درخت کی چھائوں تلے کوئی نہر کنارے بیٹھا ہو تو اسکے احساس ہو کہ قدرت کی نعمتیں کتنی حسین ہیں۔ کرپشن کے اے سی میں بیٹھنے سے بہتر ہے کہ انسان حق حلال کی کمائی میں سے ایک حصے کا ایک درخت لگا لے۔ تاقیامت اسے صدقہ جاریہ کا ثواب ملتا رہے گا۔ اس بات کو اگر کوئی سوچے تو درخت کاٹنے سے پہلے کوئی ہزار بار سوچے۔ جس طرح طلاق روئے زمین کا ناپسندیدہ ترین فعل ہے اور آخری حل ہے اسی طرح درخت کاٹنا بھی روئے زمین کا ناپسندیدہ ترین فعل اور آخری حل ہونا چاہئے۔ فتح مکہ پر سب کیلئے عام معافی کا اعلان کیا گیا تھا‘ پھل دار سایہ دار درختوں کو بھی نہ کاٹنے کا حکم فرمایا گیا تھا۔ پانامہ لیکس زدہ حکمرانوں میں کوئی ہے جسے اسلامی تاریخ سے کچھ آگاہی ہو ؟ لاہور کراچی میں درخت کاٹنے کا کوئی نوٹس لے گا ؟؟
Javed May 08, 2016 11:01am
پاکستان کے بڑے شہروں کی آبادی بے ہنگم طریقے سے بڑھ رہی ہے۔ سفری سہولتیں مہیا کرنا حکومت کی اولین زمے داری ہے اور یہ کام long overdue ہے ۔ اب جب حکومت عوامی فلاح کے منصوبے بنا رہی ہے تو اس پر بھی کچھ لوگوں کو اعتراض ہے۔ ظاہر ہے کہ جب بسیں چلیں گی تو وہ ہوا میں تو نہیں اڑ سکتیں۔ ان کیلئے سڑکیں کشادہ کرنے کی ضرورت ہو گی اور راستے میں آنے والے درخت کاٹنے پڑیں گے اور گھر گرانے ہوں گے۔ جو درخت کٹیں گے ان کے بدلے مں کسی اور جگہ پر زیادہ درخت لگائے جائیں گے۔ جو گھر گرائے جائیں گے ان کے مالکان کو ان کا معاوضہ دیا جائے گا۔ اگر آپ کے پاس اس مس‏‏لہ کا کوئ بہتر حل ہے تو وہ بھی بتائیں۔ کیا کوئ ایسا طریقہ ہے کہ بسیں بھی چلیں اور کوئ گھر ،کوئ درخت کوئ دوکان نہ گرانی پڑے؟ اگر آپ کے پاس ایسا کوئ جادوئ طریقہ ہے توبرائے مہربانی ہمیں بھی بتائیں۔
Saleem Siddiqi May 09, 2016 06:31pm
@Javed محترم جاوید صاحب جو آپ فرما رہے ہیں غور کریں وہی تو لکھاری بھی اپنی تحریر میں لکھ رہے ہیں وہ اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ گرین بس سروس شہریوں کو سفری سہولت کا بہترین اور تیز ترین ذریعہ ثابت ہونگی اور یہ شہریوں کا بنیادی حق ہونے کے ساتھ حکومت کا فرض بھی ہے ۔ لیکن جاوید صاحب آپ خود ہی کہہ رہے ہیں کہ جو درخت کاٹے جائیں گے ان کے بدلے درخت لگائے جائینگے یہی مطالبہ تو اس تحریر میں کیا گیا ہے اور ہم تمام شہری بھی یہی چاہتے ہیں لیکن اب تک متبادل درخت نہیں لگائے گئے ہیں دوسری بات گرین بیلٹ پر لگے درخت کہیں اور منتقل بھی کیئے جاسکتے ہیں لیکن ایسا بھی اب تک نہیں کیا گیا جبکہ منصوبہ شروع ہونے سے پہلے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ درختوں کو منتقل کرکے کہیں اور پلانٹ کردیا جائے گا ۔جاوید صاحب بسیں تو ہوا میں نہیں اڑیں گی یہ درست فرمایا لیکن صاحب جب درخت ہی نہیں ہونگے تو یہ ہوائیں بھی میسر نہیں ہونگی ۔ میں نے مکمل تحریر پڑھی اور اس کا نچوڑ یہی ہے کہ ترقیاتی منصوبے بہت اچھی بات ہے لیکن بقول آپ کے اور لکھاری کے جو درخت کاٹیں اتنی تعداد میں لگائیں بھی تو۔۔۔

کارٹون

کارٹون : 5 نومبر 2024
کارٹون : 4 نومبر 2024