میر کی وحشت اورپرچھائیوں کی کہانی ماہِ میر
پاکستانی سینمامیں طویل عرصے کے بعد ایک ایسی فلم دیکھنے کوملی،جس کی کہانی بہت جاندارہے۔اس کہانی کو میرتقی میر کا زندگی نامہ تونہیں کہا جاسکتا،یہ تو میر کے باطن کی بازیافت ہے۔
ان کے ہاں جمالیات کے سائے میں پنپنے والی”وحشت “کاتخلیقی اظہارہے ۔ سرمد صہبائی نے میرتقی میر کی شعریات سے ایک نیا دریچہ وا کیا ہے۔
دنیائے شعروادب میں میرتقی میر کی رومانویت پر توبات ہوتی رہی، لیکن اس رومان میں پنہاں وحشت کی کیفیت کو دریافت کرکے کہانی کہنے کا یہ ڈھب نیا ہے۔
یہی اس کہانی کی تخلیقی معراج ہے،جس کوپردہ اسکرین پر دیکھنے والے محسوس کریں گے، کیونکہ فلم میں صرف میر کے شب وروز ہی کی عکاسی نہیں کی گئی بلکہ یہ اُس عہد کی جگ بیتی بھی ہے،جس میں وہ تمام دل دھڑکتے ہوئے محسوس ہوں گے،جن کے ہاں تخلیق کا دیا روشن ہوا، پھر ان کے دل ہجر میں راکھ ہوئے اور تخلیقی وحشت جن کا سرمایہ حیات ہوئی۔
یہ کہانی میر کے رومان سے شروع ہوکر ان کی وحشت تک آتی ہے، شعروادب کا حال اور ماضی کے سراب ہم قدم ہیں، اس سفرمیں سارے شعری استعارے بھی شریک ہیں۔ مکالموں میں ادبی مباحث، ظاہری الجھنیں اورداخلی معاملات کا گلدستہ بھی ہے، کہانی کے حروف کی یہ خوشبو خاصے دنوں تک آپ کے ذہن کومعطررکھے گی۔
اس فلم کی کہانی، تخلیق اورتخلیق کارکے اضطراب کا اظہارہے، عہدِحاضر کی مصنوعی زندگی کے کرب کا بیان اور کیفیات کامجموعہ بھی ہے۔ پرچھائیوں کے تعاقب میں خودکلامی کی یہ کہانی ایک ایسی گونج ہے،جس کی بازگشت بہت دنوں تک سنائی دیتی رہے گی ۔
یہ کہانی کہیں آئینہ بنتی محسوس ہوتی ہے توکہیں پرچھائی اور پکارتوکہیں سرگوشی،آپ کو کیفیات کی یہ کہانی اسی لمحے میں لے جائے گی،جہاں سے آپ خود سے آخری مرتبہ بچھڑے تھے۔ یہی اس فلم کاسب سے بڑا طلسم ہے،جس میں دیوانگی محو رقص ہے۔
فلم کے کہانی نویس ' سرمد صہبائی ' ہیں، جنہوں نے ایک طویل عرصے کے بعد کامیاب تجربہ کرکے کلاسیکی روایت کے ادبی موضوع کو عہدِحاضر کے سینما سے جوڑا۔ سینما اور کہانی کے درمیان یہ رشتہ کافی عرصے سے منقطع تھا، ان کے لکھے ہوئے گیت اورمیرتقی میر کی غزلوں نے فلم کی کہانی میں جمالیات کے رنگ مزید گہرے کردیے، اس خوبصورت موسیقی کے تخلیق کارشاہی حسن اوراحمد جہانزیب ہیں۔
فلم کے ہدایت کارانجم شہزاد نے اپنا کام بخوبی انجام دیا، بالخصوص شہرکراچی کے فضائی مناظرنے فلم کاحسن دوبالا کردیا۔ فلم میں گرافکس،لائٹنگ اور پس پردہ موسیقی ، چاند کی خاموشی ، سمندر کا شور، شہر کی مصروفیت اورانسانوں کی تنہائی کو پردہ اسکرین پر پیش کرنے میں وہ کامیاب رہے ہیں۔
فلم کے اداکاروں میں اس کہانی کاحق جس نے ادا کیا ہے، وہ منظر صہبائی ہیں، جنہوں نے ایک ادبی نقاد ڈاکٹر کلیم احمد کا کردار نبھایا ہے۔
فلم میں میرتقی میراورعہد حاضر کے ایک نوجوان شاعر جمال کے کردار فہد مصطفی نے نبھائے، جبکہ ایمان علی نے عہد میر کی ایک طوائف اورموجودہ دور میں جمال کی محبوبہ اورکلاسیکی شاعری کی رسیا لڑکی کے کردار ادا کیے۔
صنم سعید نے ایک خودساختہ اورعوامی تعلقات کی ماہر شاعرہ کا کردار ادا کیا، پارس مسرور نے جمال کے دوست اورراشد فاروقی نے ڈاکٹر کلیم احمد کے ناشر کا کردار نبھایا، دیگراداکاروں نے بھی اپنے ذیلی کردار بخوبی نبھائے۔
فلم میں پس پردہ صداکاری نے بھی فلم اورناظرین کے درمیان رابطہ بحال کرنے میں اپناکمال دکھایا، مگر یہاں بھی سب سے بہتر صداکاری منظر صہبائی کی، ان کی آواز کے زیروبم نے شاعری کو توانا لہجہ دیا۔
پوری فلم میں انگریزی سب ٹائٹل بھی شامل کیے گئے ،البتہ فارسی کلام کی صداکاری میں ان ٹائٹلز کی کمی محسوس ہوئی۔
فلم میں میر تقی میر کے علاوہ جن تخلیق کاروں کی کتابیں فلم کے سیٹ کی زینت بنتی دکھائی دیں،ان میں سعادت حسن منٹو، جون ایلیا سمیت دیگر شعراء اورادیب شامل ہیں، اسی طرح ایک فرانسیسی شاعر کی کتاب بھی کہانی کے کرداروں کا موضوع بنی۔
منظر صہبائی نے شاید اپنی زندگی کی سب سے اعلیٰ اداکاری اس فلم میں کردکھائی ہے۔ وحشت اور تخلیق کار کے داخلی کرب کو ادا کرنا تقریباً ناممکن بات لگتی ہے، مگر حیرت انگیز طور پر وہ اسے کرگزرے، جس کے لیے جتنی بھی تعریف کی جائے، وہ کم ہے، اگر بات صرف اس فلم کی حد تک کی جائے تو ادبی نقاد ایک شاعر پر بھاری ہوگیا، ظاہر ہے میں صرف اداکاری کے زمرے میں یہ با ت کررہا ہوں ،فہد مصطفی نے عہد حاضرکے نوجوان شاعر کا کردار تو نبھالیا، مگرعہد میر میں وہ پیچھے رہ گئے۔
نواب صاحب کے کردار میں علی خان اورطوائف کے کردار میں ایمان علی نے یکسانیت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا، نئی شاعرہ کے طورپر صنم سعید اس فلم کا مردہ گھوڑا تھیں، جس میں پہلے منظر سے آخری منظر تک جان نہ تھی، مکالمہ پڑھنے اور اس کو ادا کرنے میں بہت فرق ہوتاہے، وہی فرق ان کی اداکاری پر حاوی رہا۔
مصنوعی، بوجھل اوربناوٹی اداکاری میں ان تینوں نے اپنا اپنا حصہ خوب ڈالا۔ پارس مسرور نے ایک کھلنڈرے لڑکے اورشاعر کے دوست ہونے کا کردار بخوبی نبھایا۔ راشد فاروقی کواندازہ نہیں ،آج کا ناشر کسی کے پیچھے نہیں ہوتا،سب اس کے پیچھے ہوتے ہیں۔
ظاہر سی بات ہے ، اس عنصر کی باریکی کے لیے کہانی نویس ذمے دار ہیں۔ اس فلم میں صرف ایمان علی کے ظاہری مگر خاموش حسن نے کہیں کہیں کام دکھایا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود پاکستانی سینما میں اس فلم کا اضافہ اہم ہے، کیونکہ شعروادب کے موضوعات پر ایسی فلمیں بنتی رہنی چاہیے، ریاضت سے بتدریج ہنرنکھرتا ہے۔
فلم نمائش کے لیے پیش کردی گئی ہے چونکہ فلم کاموضوع اردو شاعری کے ”خدائے سخن“میرتقی میرکی ذات اورداخلی احساسات ہیں۔ عہدحاضر کے وہ نوجوان جن کی رغبت شاعری میں ہے،وہ بھی اس میں موضوع بحث ہیں،تو اس لحاظ سے جنہیں شعروادب میں کسی بھی حوالے سے دلچسپی ہے اوران کا یہ ذوق گہرائی میں ہے ،توان کو یہ فلم بہت لطف دے گی،شاید اداکاری کی وجہ سے نہیں ،اپنی کہانی اور مکالموں، صداکاری اورخودکلامی کی وجہ سے۔
جن فلم بینوں کو شعروادب سے کوئی لینا دینا نہیں، ان کے لیے اس فلم میں کچھ نہیں ۔ کلاسیکی موسیقی کوپسند کرنے والوں کے دل میں اس فلم کی موسیقی گھر کرلے گی۔
وہ نوجوان نسل جو خواب دیکھتی ہے، وہ بزرگ جن کے ذہن میں ماضی کی محبتوں کے مزار ہیں، انہیں بھی ضرور یہ فلم دیکھنی چاہیے۔
ایک جملے میں کہاجائے تو یہ فلم عہد حاضر کی تیز زندگی کی وحشت میں ایک راحت بھرا لمحہ ہے، جس کی چھاﺅں میں کچھ دیر رُک کر سستایا جاسکتا ہے۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
بلاگر فری لانس کالم نگار اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔
ان سے ان کے ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔
تبصرے (4) بند ہیں