فن کی کسوٹی پر طاہر شاہ کا 'اینجل'
کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے، امریکا میں ایک مزیدار رواج چل پڑا۔ کسی صاحب کو شوق چڑھا اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ وہ ایک پتھر پال رہے ہیں۔ لوگ مسکرائے، کھلکھلائے، بلکہ ہمارے استاد قاضی نذیر صاحب کے مطابق ہنہنائے۔ چونکہ فیشن چل پڑا تھا تو راستے کے پتھر 4،4 ڈالر میں بکنے لگے۔ فیشن کا یہ چھوٹا بھائی، جسے انگریزی میں Fad کہتے ہیں، کچھ دن دھڑا دھڑ چلا اور پھر غائب ہوگیا۔
ایک مشہور نمائش گاہ میں تصاویر کا ایک جوڑا نمائش کے لیے پیش کیا گیا جس کا کینوس کورے کاغذ کی طرح خالی تھا، لیکن آرٹسٹ کا خیال تھا کہ جو کچھ اس کے تخیل میں ہے، وہی کینوس میں غیر مرئی رنگوں میں موجود ہے۔ چنانچہ اس کورے کاغذ نے بھی شاہکار کا درجہ پایا۔ ماڈرن آرٹ ایک ایسی دنیا ہے جس میں آپ کوڑے کے ڈھیر کو ایک خاص انداز سے ترتیب دے کر یا ایک خالی کموڈ کو دیوار پر لٹکا کر بھی داد وصول کر سکتے ہیں۔
ذرا تصویر کا ایک اور رخ دیکھ لیجیے۔
ونسنٹ وان گوف کو آج مصوری کا بے تاج بادشاہ مانا جاتا ہے۔ ان کا پینٹ کیا ہوا ڈاکٹر گیشے کا پورٹریٹ کچھ عرصہ پہلے آٹھ کروڑ ڈالر میں فروخت ہوا، مگر ان کی اپنی زندگی میں صرف دو ہی تصاویر فروخت ہوئیں۔ بھوک اور ذہنی الجھنوں سے تنگ آ کر انہوں نے 37 سال کی عمر میں خود کشی کرلی۔ کافکا انگریزی ادب کے صنف طراز مصنفوں میں شمار کیے جاتے ہیں، مگر اپنی زندگی میں وہ افلاس کا شکار رہے۔ کلاسیکی موسیقی کے شہنشاہ جوہن سیباسٹیئن باک تمام عمر گمنام ہی رہے۔
بہت سے ایسے مشہور فنکار ہیں جو اپنے ادوار میں کسمپرسی میں زندہ رہے اور ان کی موت کے بعد جا کر کہیں دنیا کو ان کی قدر ہوئی۔ ان کا فن ان کے زمانے کے معیار پر پورا نہ اتر سکا لیکن بعد میں آنے والوں نے اسے سینے سے لگا کر دوام عطا کیا۔
کچھ دن پہلے طاہر شاہ نے اپنا دوسرا گانا اینجل یا فرشتہ متعارف کروایا۔ گانے کے بول، سروں کا انتخاب، لباس و انداز اور ویڈیو کی ترتیب منفرد بھی تھی اور دلچسپ بھی۔ کافی لوگوں نے اسے بطور ہنسی مذاق سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ سوشل میڈیا اور ٹی وی پر اس گانے کا مذاق اڑایا گیا، مگر کسی نے بھی گانے کی فنی حیثیت یا فنکار کی شعوری کوشش کا تجزیہ سنجیدہ انداز میں نہیں کیا۔
پڑھیے: طاہر شاہ کی 5 مثبت خصوصیات
فن یعنی آرٹ کس چیز کا نام ہے؟ کیا یہ کسی زمانے کے مروجہ معیارات پر پورا اترنے کا نام ہے؟ کیا فن یا آرٹ صرف تب ہی معیاری کہلائے گا جب اسے عوام میں مقبولیت حاصل ہوگی؟ کیا فنکار کی شناخت ان نقادوں کے الفاظ میں چھپی ہوتی ہے جو اس کے فن کو کمال کی سند عطا کرتے ہیں؟ کیا اس فن کو بھی شاہکار مانا جا سکتا ہے جسے کسی نے کبھی پسند نہ کیا ہو؟
کیا فن کوئی بنیادی ساخت، مقصد یا شناخت رکھتا ہے یا اپنی ذات میں خود ایک بدلتا وجود ہے؟
کہتے ہیں کہ جب شیشے کی بلور کو نازک سی ٹھیس پہنچتی ہے تو اس کی چوٹ کی جلترنگ بہت دیر تک فضا میں گونجتی رہتی ہے۔ تصوف میں اہل دل ایک خیال سناتے ہیں کہ ہر چیز اپنے اصل سے جدا ہونے پر اداس ہے۔ بانسری کے سروں میں درد اس بات کا ہے کہ وہ اپنے کھیت سے جدا ہوتی ہے، ڈال سے بچھڑی کونج کا درد اس کے رفیق سے جدائی کا ہے جبکہ بلبل کا نغمہ پھول کا مرثیہ۔ غالب نے بھی غالباً اسی لیے کہا تھا کہ "نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا۔"
سو ذات کے کچھ دکھ ایسے ہیں کہ وہ آپ کو اندر سے گھول دیتے ہیں۔ جیسے نمک کی ڈلی گرم پانی میں گھل جاتی ہے۔ دھیرے دھیرے، چپکے چپکے، مگر خود کو مٹا کر بھی پانی میں اپنا اثر چھوڑ جاتی ہے۔
ہماری خود کلامی جب تک اپنے آپ سے جاری رہتی ہے، تب تک دبی رہتی ہے۔ لیکن جب ہم اسے لکھ کر وقت کے سمندر کو سپرد کر دیتے ہیں تو یہ تحریریں کسی بوتل میں بند پیغام کی طرح دور کسی اور ساحل پر کسی اور زمانے میں کسی اور دھڑکتے دل تک پہنچ جاتی ہیں، اور پھر وہ جلترنگ جو کبھی ایک کانچ کے بلور کی چوٹ سے ابھری تھی، آفاقی موسیقی بن جاتی ہے۔
کیا طاہر شاہ کی موسیقی کسی اندرونی چوٹ کی غماز ہے یا پھر مقبول ہونے کی ایک بھونڈی کوشش؟ کیا یہ بلبل کا نغمہ ہے یا پھر لوہے پر رگڑ کھانے سے پیدا ہوتی کریہہ آواز۔ کیا ہم اس کے نقاد بن سکتے ہیں یا نہیں؟
میں نہ تو موسیقی کی سمجھ بوجھ رکھتا ہوں، نہ ہی مجھے مردانہ فیشن کے رموز و اوقاف کا پتہ ہے، اور نہ ہی شاعری کے راز ہائے دروں سے شناسائی۔ میں تو اردو میڈیم کا پڑھا ہوں، آٹھویں میں اے فار ایپل اور بی فار بال سے انگریزی شروع کی۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ہم طاہر شاہ کی فنکارانہ صلاحیتوں سے زیادہ کسی اور چیز پر ہنس رہے ہیں۔
پڑھیے: طاہر شاہ کے مداح ٹوئنکل کھنہ سے ناراض
وڈیو میں طاہر شاہ کا لباس ایک دیو مالائی نوعیت کا تھا۔ ارغوانی، نیلے اور سبز جیسے متضاد رنگ، پریوں جیسا حلیہ اور لمبے لمبے بال نظر آتے ہیں۔ لوگوں کا خیال ہے کہ فرشتے ایسا لباس نہیں پہنتے بلکہ ایسا لباس تو پریاں پہنتی ہیں، مگر کیا کسی نے کسی فرشتے یا پری سے اس معاملے میں رائے طلب کی ہے؟ کیا کوئی ایسا کیٹیلاگ موجود ہے جو پریوں اور فرشتوں کے لباس کی ساخت بیان کرے؟ کیا یہ درست نہیں ہے کہ ہر فنکار اپنی ذاتی سوچ اور اپنے تخلیل کے مطابق رنگوں کا انتخاب کرتا ہے؟
یہی لباس اگر سر ایلٹن جون پہنتے تو کیا ہم ان کا بھی مذاق اڑاتے؟ لارڈ آف دا رنگز کے ایلف اسی طرح کا لباس پہنتے ہیں تو کیا ہم نے انہیں بیسٹ کاسٹیوم ڈیزائن کا آسکر ایوارڈ دینے سے انکار کر دیا تھا؟ کیا ہماری اپنی ثقافت میں عالم لوہار اور عارف لوہار اس سے ملتے جلتے رنگ نہیں پہنتے؟ کیا بہت سارے فیشن شوز میں یا شادی بیاہ میں مرد حضرات کم از کم ایسے ہی عجیب و غریب ڈیزائنز کے رنگین لباس نہیں پہنتے؟ اس گانے میں کیا لباس کا انتخاب گانے کے مرکزی خیال کے حساب سے ٹھیک نہیں تھا؟ یا کہیں ہم اس لباس کو کسی اور وجہ سے تو کراہت انگیز نہیں کہہ رہے؟
موسیقی سروں کے تال میل کا نام ہے لیکن کس کو کون سا میلاپ پسند آ جائے، کیا کہا جا سکتا ہے؟ جب راک اینڈ رول اور ہپ ہاپ کا آغاز ہوا تو بہت سارے لوگوں کو یہ شور شرابا نظرآیا۔ کلاسیکی موسیقی کی تانیں بہت سارے لوگوں کو ناگوار گزرتی ہیں۔ ایلوس پریسلے کا مذاق اڑایا گیا، ٹوپاک شکور کو طعنے دیے گیے، کرٹ کوبین سے نفرت کی گئی۔ آج بھی ہولی وڈ اور بولی وڈ کی بہت ساری موسیقی ایسی ہے جو طرز اور لے میں اس گانے جیسی ہی ہے۔ کیا وجہ ہے کہ وہ مقبول عام ہوئی اور یہ خوار و زبوں؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ اصل مسئلہ موسیقی کے ساتھ بھی نہیں ہے؟
جسٹن بیبر، سیلینا گومز اور ٹیلر سوئفٹ کے گانوں کی شاعری سنیے۔ پاپ اور ہپ ہاپ گلوکاری میں سوائے منشیات، اسلحے، بد کردار مرد و خواتین اور پیسے کی ریل پیل کے کچھ اور نظر نہیں آئے گا۔ بولی وڈ کے مشہور عام گانوں میں جن شیلاؤں اور منیوں کی جوانیوں اور بدنامیوں کا ذکر ہے، طاہر شاہ کا گانا کیا شاعری کے کسی بھی معیار پر ان سے زیادہ گرا ہوا ہے؟ کیا یہ شاعری میڈم نورجہاں کے اپنے گائے ہوئے بہت سارے ذو معنی گانوں سے بہتر نہیں ہے؟ کیا الفاظ کا روح سے تعلق دائمی ہے یا ہر انسان اپنے اپنے مطلب کے ناطے خود تلاشتا ہے؟
میرا یہ خیال ہے کہ مسئلہ شاعری، موسیقی، لباس یا ویڈیو کا نہیں، مسئلہ انگریزی کا ہے۔
لباس، موسیقی، شاعری سب چل جاتی اگر انگریزی اچھی ہوتی. انگریزی اچھی نہ بھی ہوتی، تو کم از کم لہجہ اچھا ہوتا۔ ٹھیٹھ گوروں والا یا افریقی امریکیوں والا۔ آریائی نسل جب برصغیر میں آئی تو سنسکرت اور ویدوں کو دراوڑ نسل کے لیے حرام قرار دیا۔ مصر میں، میسوپوٹیمیا میں عوام کی زبان اور حکمرانوں کی زبان میں ایک طبقاتی تقسیم رہی۔ جب انگریز آئے تو زبان پر پابندی عائد نہ کی، لیکن تلفظ، لہجے اور مہارت کی سیج پر ایک ایسا سماج قائم ہوا جہاں آقاؤں کی زبان کا فرفر بولنا قابلیت، تہذیب اور معیار کی نشانی کہلایا۔
پڑھیے: انگلش کے بغیر آپ مستحق نہیں
اگر طاہر شاہ کی صرف انگریزی اچھی ہوتی، یا اگر اس کا لہجہ ہی بہتر ہوتا، تو شاید نقادوں کی ایک قطار اسے ماڈرن آرٹ اور surrealism کی ایک شاخ سے تشبیہ دیتی. شاید ہمیں بھی اس کے رنگوں میں وہ قوس قزح نظر آتی جو ایپل کے پرانے لوگو میں نظر آیا کرتی تھی۔
شاید رنگ برنگے پَر لگا کر، مور کہلوانے کے شوقین اس کوّے پر ہمیں اس لیے ہنسی آ رہی ہے کیونکہ اندر سے ہم سب بھی کوّے ہی ہیں، مگر خود کو مور کہلوانا چاہتے ہیں۔
تبصرے (6) بند ہیں