افغانستان: اعلی افسر سمیت 8 اہلکار ہلاک
کابل: افغانستان کے صوبے تخار میں سڑک کنارے نصب بم حملے میں اعلیٰ سیکیورٹی افسر سمیت 8 اہلکار ہلاک ہو گئے۔
افغانستان کے نشریاتی ادارے خاما پریس کی رپورٹ کے مطابق صوبہ تخار میں قندوز ہائی وے کے کمانڈر کے قافلے پر سڑک کنارے نصب بم سے حملہ کیا گیا۔
حملے میں پولیس کمانڈر اور ان کے 7 محافظ ہلاک ہوئے۔
اس حملے کی ذمہ داری فوری طور پر کسی بھی گروہ نے قبول نہیں کی تاہم اس طرح کی کارروائیاں عام طورپر طالبان کی جانب سے کی جاتی رہی ہیں۔
واضح رہے افغانستان کا شمال مشرقی صوبہ تخار دیگر صوبوں کے مقابلے میں پرتشدد کارروائیوں کا زیادہ شکار ہے۔
اسی صوبے میں طالبان سمیت دیگر گروہ متعدد بار سیکیورٹی اداروں کو نشانہ بنا چکے ہیں۔
خیال رہے کہ 2 روز قبل افغان طالبان نے موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف بڑے آپریشن کا اعلان کیا تھا، اس آپریشن کو طالبان کی جانب سے 'عمری آپریشن' کا نام دیا گیا۔
افغانستان کے کئی دیہی اضلاع پر طالبان کا قبضہ ہے جبکہ گزشتہ سال انہوں نے جنوبی شہر قندوز پر بھی 3 روز تک قبضہ جمائے رکھا تھا۔
یہ بھی پڑھیں : طالبان کا افغانستان میں نئے حملوں کا اعلان
ایک اور خبر رساں ادارے طلوع نیوز کے مطابق افغان آرمی چیف جنرل قدم شاہ شمیم کا کہنا ہے طالبان کی جانب سے موسم بہار کی آمد پر نئے آپریشن کا اعلان صرف پروپیگنڈا ہے، جسے کئی بیرونی ممالک کی حمایت حاصل ہے۔
جنرل قدم شاہ شمیم نے دعویٰ کیا کہ طالبان کا آپریشن مکمل طور پر ناکام ہوگا اور ان کو ملک کے کسی بھی خطے پر قبضہ کرنے میں کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔
خاما پریس کی ایک اور رپورٹ کے مطابق افغان وزارت دفاع کی جانب سے جاری ایک بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ صوبہ جوزجان، کنڑ، بغلان بادغیس، بدخشاں، ہلمند اور سرپل میں سیکیورٹی اداروں کے آپریشن میں طالبان کے 110 عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا گیا جبکہ کارروائی میں 124 جنگجو زخمی بھی ہوئے، ہلاک اور زخمیوں میں صوبائی گورنر اور اہم کمانڈر سمیت 4 غیر ملکی شدت پسند شامل ہیں۔
وزارت دفاع کی جانب سے یہ واضح نہیں کیا گیا کہ 7 مختلف صوبوں میں کارروائیوں میں کتنے سیکیورٹی اہلکار زخمی یا ہلاک ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق صوبہ جوزجان میں طالبان کے کمانڈر قاری نور اللہ اور 4 غیر ملکیوں سمیت 21عسکریت پسند ہلاک ہوئے جبکہ صوبائی گورنر قاری حافظ اللہ کارروائی میں زخمی ہوئے۔
مزید پڑھیں : طالبان پانچویں بڑے افغان شہر پر قابض
صوبہ کنڑ میں 23 عسکریت پسند ہلاک اور 40 زخمی، صوبہ بغلان میں 9 عسکریت پسند ہلاک اور 8زخمی، صوبہ باغدیس میں 14 عسکریت پسند ہلاک اور 10 زخمی، بدخشاں میں 13 عسکریت پسند ہلاک اور 3زخمی ہوئے۔
محکمہ دفاع کے مطابق غزنی، پکتیکا، میدان، وردک، قندھار۔ زابل، سرپل اور ہلمند میں بھی 30 طالبان ہلاک کیے گئے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال افغانستان میں شدت پسندی کے واقعات میں 11 ہزار سے زائد شہری ہلاک و زخمی ہوئے تھے۔
یاد رہے کہ ملا عمر کی ہلاکت کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد گزشتہ ایک سال سے افغان طالبان کی قیادت ملا عمر کے نائب ملا اختر منصور کر رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں : نئے امیر کی قیادت میں افغان طالبان کا پہلا بڑا حملہ
ملا اختر منصور کے امیر بننے کے بعد طالبان میں اختلافات پھوٹ پڑے اور وہ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوگئے، تاہم گزشتہ ماہ طالبان کی جانب سے اعلان کیا گیا کہ یہ اختلافات ختم ہو گئے ہیں اور مخالف دھڑے کے رہنماؤں کو بھی طالبان کی شوریٰ شامل کر لیا گیا ہے۔
طالبان کے کئی چھوٹے گروہ شام اور عراق کے بعد افغانستان میں قدم جمانے والی دہشت گرد تنظیم داعش میں بھی شامل ہوچکے ہیں۔
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
تبصرے (2) بند ہیں