• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

شہباز تاثیر کیسے بازیاب ہوئے؟ تحقیقات کا حکم

شائع March 10, 2016
شہباز تاثیر کی رہائی کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کی گئی تصویر—۔
شہباز تاثیر کی رہائی کے بعد آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری کی گئی تصویر—۔

اسلام آباد: بلوچستان کے علاقے کچلاک سے 2 روز قبل شہباز تاثیر کی بازیابی کی متضاد رپورٹس آنے پر وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے تحقیقات کے احکامات جاری کر دیئے۔

چوہدری نثار نے اس حوالے سے ایک 2 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی، جو شہباز تاثیر کی بازیابی کے حوالے سے دی گئی معلومات کی تحقیقات کرے گی۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق وزیر داخلہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی جی بلوچستان نے شہباز تاثیر کی بازیابی سے متعلق آپریشن کی خبر کیوں دی جبکہ شہباز تاثیر کی بازیابی سے متعلق اصل واقعات اس کے برعکس تھے، ہمیں قوم سے سچ بولنے کی عادت ڈالنی چاہیے‘۔

خیال رہے کہ رواں ہفتے شہباز تاثیر کی بازیابی پر یہ نہیں بتایا گیا تھا کہ اغواء کار کون تھے؟ اور ان کی بازیابی کے بعد کہاں گئے؟

دوسری جانب پاکستان کے ایک اردو اخبار روزنامہ دنیا میں شائع ہونے والی نامور صحافی کامران خان کی رپورٹمیں دعویٰ کیا گیا ہے کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے صاحبزادے شہباز تاثیر کی رہائی افغان طالبان کی وجہ سے ممکن ہو سکی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ شہباز تاثیر افغانستان کے صوبہ زابل میں طالبان سے الگ ہو کر داعش کی حمایت کرنے والے گروہ کی حراست میں تھے، کئی ماہ قبل طالبان نے وہاں حملہ کیا اور داعش کے جنگجوؤں کو ہلاک کر دیا، جبکہ شہباز تاثیر اس حملے کے بعد افغان طالبان کی حراست میں آگئے، بعدازاں افغان طالبان کے ایک کمانڈر نے ان کو بلوچستان میں کچلاک کے ہوٹل پہنچایا اور چند ہزار رقم بھی دی تاکہ وہ وہاں سے اپنے گھر جا سکیں۔

اس حوالے سے افغان طالبان کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

واضح رہے کہ بلوچستان میں محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے سربراہ اعتزاز گورایا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو شہباز تاثیز کے حوالے سے بتایا تھا کہ پولیس اور انٹیلی جنس فورسز نے خفیہ اطلاع پر کچلاک کے ایک کمپاؤنڈ میں کارروائی کی جہاں سے شہباز تاثیر کو تحویل میں لیا گیا۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان انوارالحق کاکڑ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ شہباز تاثیر کی بازیابی حساس اداروں کی بڑی کامیابی ہے۔

میڈیا کے ذریعے سامنے آنی والی معلومات کے مطابق شہباز تاثیر نے کچلاک کے ایک ہوٹل میں کھانا کیا اور اس کے بعد اپنے اہل خانہ سے رابطہ کیا، جس کے بعد بعد فرنٹیئر کور (ایف سی) نے ان کو وہاں سے تحویل میں لیا۔

بعدازاں پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل(ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے ٹوئٹ کے ذریعے شہباز تاثیر کی تصایر جاری کیں اور ساتھ ہی کہا کہ وہ اب محفوظ ہیں۔

وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے تحقیقات ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب یہ رپورٹس بھی گردش کر رہی ہیں کہ شہباز تاثیر کی بازیابی کے لیے ایک کروڑ ڈالر (تقریباََ ایک ارب روپے) ادا کیے گئے۔

یہ اطلاعات بھی میڈیا کے حلقوں میں گردش کر رہی ہے کہ شہباز تاثیر پہلے ہی بازیاب ہو چکے تھے البتہ 29 فروری کو سلمان تاثیر کو قتل کرنے والے ممتاز قادری کی پھانسی کی وجہ سے ان کی بازیابی ابھی دکھائی جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ شہباز تاثیر کی بازیابی کے بعد اب تک کوئی باقاعدہ میڈیا بریفنگ نہیں کی گئی جس میں بتایا جائے کہ وہ کس طرح بازیاب ہوئے، دوسری جانب شہباز تاثیر کو میڈیا سے مکمل طور پر دور رکھا گیا ہے، جو درست معلومات سامنے نہ آنے کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔

شہباز تاثیر کو تقریباً پانچ سال قبل اگست 2011 میں لاہور کے علاقے گلبرگ سے اغواء کیا گیا تھا۔

اغواء کے دو سال بعد جولائی 2013 میں لاہور پولیس نے 4 افراد فرہاد بٹ، عثمان بسرہ، رحمت اللہ اور عبدالرحمن کو گرفتار کیا تھا جن پر ان کے اغواء میں ملوث ہونے کا الزام تھا، لیکن ان افراد کی گرفتاری کے بعد بھی شہباز تاثیر کی بازیابی ممکن نہ ہو سکی تھی۔

مارچ 2014 میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے مذاکرات میں بھی شہباز تاثیر کی رہائی کے حوالے سے حکومت نے مطالبہ کیا تھا لیکن طالبان نے اس وقت ان کی رہائی سے انکار کر دیا تھا۔

اس سے قبل قیاس آرائیاں کی جارہی تھیں کہ شہباز تاثیر کے اغوا کار سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی رہائی کا مطالبہ کررہے ہیںں، تاہم 29 فروری کو ممتاز قادری کو پھانسی دے دی گئی۔

فروری 2015 میں سابق وزیر داخلہ پنجاب شجاع خانزادہ نے انکشاف کیا تھا کہ شہباز تاثیر اور علی حیدر گیلانی افغانستان میں ہیں جبکہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے یہ معاملہ افغان حکومت کے ساتھ اٹھایا ہے۔

شجاع خانزادہ گذشتہ برس اگست میں پنجاب کے علاقے اٹک میں ایک خودکش حملے کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024