• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

امریکا کا معلومات کیلئے پاکستانی میڈیا پر انحصار

شائع February 7, 2016

اسلام آباد: امریکی صدارتی امیدوار ہیلری کلنٹن کی منظر عام پر آنےوالی ای میلز میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ امریکا معلومات کے حصول کے لیے پاکستان میڈیا پر بھی انحصار کرتا ہے۔

امریکا کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے انڈر سیکریٹری جوڈیتھ ماکیل نے 2012 میں ہیلری کلنٹن کو لکھی جانے والی اپنی ایک ای میل میں پاکستانی میڈیا کو اشتعال انگیز قرار دیا تاہم یہ تجویز بھی دی کہ اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ ٹاک شوز سب سے زیادہ دیکھے جاتے ہیں۔

امریکا کی موجودہ صدارتی اُمیدوار ہیلری کلنٹن نے پاکستان میں چلنے والے پرائم ٹائم شوز کے حوالے سے روزانہ کی بنیادوں پر ایک جامع سمری رپورٹ طلب کی تھی جس کے جواب میں یہ ای میلز بھیجی گئیں.

ہیلری کلنٹن نے ان پاکستانی پروگرامز میں زیر بحث لائے جانے والے موضوعات کی تفصیلات فراہم کرنے کا کہا تھا۔

واشنگٹن میں امریکی سفارت خانے کے ملازمین اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ حکام کو روزانہ کی بنیادوں پر ای میل کے ذریعے پاکستانی میڈیا کی سمری ارسال کی جاتی رہی، امریکی صدارتی امیدوار کی حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ای میل میں سال 2009 سے 2012 کے درمیان کی جانے والی ای میلز کی کثیر تعداد شامل ہے۔

یہ ای میلز مقامی میڈیا کی ذریعے سے اسلام آباد کے ساتھ واشنگٹن کے تعلقات کی غیر معمولی ترجمانی کرتی ہیں۔ ڈان کے ساتھ اس کے پس منظر کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے موجودہ اور سابق سفارتی حکام نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں آنے والے امریکی حکام کے لیے یہاں کے صحافی اور میڈیا معلومات کے بنیادی ذرائع تھے۔

ان ٹاک شوز اور خبر کی کوریج کی سمریز 'کس نے کہا' اور 'کیا کہا گیا' پر مشتمل جامع تفصیلات پر مشتمل ہوتی اور اگر اس میں کوئی دلچسپی کا پہلو ہوتا تو واشنگٹن میں ہیلری کلنٹن اپنے معاونین کے ساتھ اس پر بات چیت کرتی تھیں۔

وڈرو ولسن سینٹر سے مائیکل کوگلیمین نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ امریکا کی نظروں میں پاکستانی میڈیا کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام آباد میں موجود امریکی سفارت خانہ ان میڈیا پروگرامز میں کی جانے والی 'ریکارڈ کی غلطیوں' پر سرکاری بیان بھی جاری کرتا رہا۔

انہوں نے کہا کہ " یہ وہ ابتدائی اقدامات تھے، جو ایسے پاکستانیوں کے لیے کیے گئے، جس کے بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس کے ذریعے سے کتنے پاکستانی متاثر ہوئے ہونگے، ان میں وہ پاکستانی بھی شامل ہیں جو امریکا کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات سے ممکنہ طور پر واقف نہیں، لیکن میڈیا دعوؤں یقین رکھتے ہیں کہ امریکا ان امکانات کو مسترد کرتا ہے'۔

مثال کے طور پر اپریل 2010 میں اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ حکام کی جانب سے کی جانے والی بیشتر ای میلز میں پاکستان کے سابق آئی ایس آئی چیف (ر) جنرل حمید گل کی جانب سے امریکا پر سابق خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے مبینہ قتل کے الزام پر مایوسی کا اظہار کیا گیا۔

ان ای میلز کے تبادلوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حمید گل کا نام ان افراد کی فہرست میں شامل تھا جن کو بے نظیر نے اس وقت کے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کو 'اپنی سیکیورٹی کو درپیش خطرات' کے طور پر نشاندہی میں شامل کیا تھا۔

ای میلز کے مطابق یہ حقائق پاکستانی میڈیا سے شیئر کیے گئے اور ان کے بھیجے جانے کے بعد ایک میڈیا گروپ نے اسے ایک گھنٹے تک نشر کیا۔

ایک سابق امریکی سفارت خانے کے ملازم کا کہنا تھا کہ 'جب بھی کوئی چیز امریکی مفادات پر اثر انداز ہوتی ہے، یا کسی بھی معاملے میں امریکا کے کردار کے حوالے سے وضاحت ضروری ہوتی ہے ، وہ (امریکی حکام) جتنا جلد ہوسکے اس کا جواب دیتے ہیں'۔

اس کا کہنا تھا لیکن، کیونکہ کہ بہت سے عہدیداروں کو پاکستان کے حوالے سے سیاق وسباق جاننا ضروری نہیں تو اس لیے وہ پاکستانی میڈیا کی کوریج اور مسائل پر مقامی نظریات جاننے کیلئے صحافیوں سے انٹرویوز پر انحصار کرتے تھے۔

اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے ترجمان کرسٹوفر اسنائپس نے ڈان کو بتایا کہ ' پاکستان کو سمجھنے کیلئے سب سے بہترین طریقہ کار مختلف طریقوں اور زبانوں میں نشر ہونے والی خبروں کو پڑھنا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ تمام امریکی سفارت خانے ملک کی مقامی زبانوں کے میڈیا پر نظر رکھتے ہیں تاکہ 'حالات حاضرہ سے واقف رہا جاسکے'۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 'انگریزی زبان سے زیادہ اردو زبان میں اخبارات شائع ہوتے ہیں اور بیشتر ٹیلی ویژن انگریری کے بجائے اردو میں نشریات پیش کرتے ہیں: ہم اردو اخبارات اور نشریات کا انگریزی کی نشریات سے موازنہ کرتے ہیں'۔

لیکن ای میلز میں کیا جانے والا تجزیہ صرف ثقافتی تناظر سے بڑھ کر گہرا ہے۔

2 مئی 2011 کو پاکستانی میڈیا کی جانب سے کیا جانے والا تجزیہ — اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں ہلاکت — میں یہ بات مشاہدہ میں آئی کہ 'کسی بھی پاکستانی میڈیا گروپ نے اسامہ بن لادن کے ساتھ ہمدردی کا اظہار نہیں کیا'، تاہم دو ٹی وی شوز کے میزبانوں کی جانب سے اسامہ بن لادن کو شہید قرار دیا گیا۔

رپورٹ میں پاکستانی میڈیا کی جانب سے اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد حملے میں موت کی زیادہ کوریج کا ذکر بھی کیا گیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا ہے کہ 'کوریج کی ٹیون نسبتا مثبت رہی'۔

ای میل کی جانے والی سمریز میں یہاں کے اخبارات کی خبریں اور کالمز، اخبارات کے سرکولیشن کی تعداد، قارئین کی تعداد اور دیگر متعلقہ اہم امور کی نشاندہی بھی کی جاتی رہی۔

میڈیا پر تجزیاتی رپورٹس کو مرتب کرنے والے سابق امریکی سفارتی ملازم کا کہنا تھا کہ "یہ سرکاری عہدیداروں کو اس بات کے سمجھنے میں مدد فراہم کرتی تھی کہ کس کو اہمیت دی جانی چاہئے اور کس کو نظر انداز کردینا چاہیے۔ بعض ایسے کالم نگار یا میزبان تھے جو رائے بنانے میں رہنمائی کرتے تھے، ان کو دیکھنے اور پیروی کرنے والوں کی تعداد بھی زیادہ تھی اور وہ ان میں سے تھے جن تک رسائی حاصل کی گئی۔ ہر ایک کو اہمیت دینا لازمی نہیں'۔

مائیکل کوگلیمین کا کہنا تھا کہ تاہم حالیہ دنوں میں امریکیوں کی دلچسپی پاکستان میں سوشل میڈیا پر مرکوز ہوگئی ہے، خاص طور پر اس کی معنی خیز طریقہ کار پر: انگریزی بولنے والے شہری علاقوں کے میڈل اور اَپر کلاس کی جانب سے استعمال ہونے والے ٹیک-سروے کے طریقہ کار پر۔

'اس بات پر یقین رکھتے ہو کہ واشنگٹن، پاکستانی عسکریت پسندوں گروپوں کی جانب سے سوشل میڈیا کے استعمال پر نظر رکھے ہوئے ہیں — یہاں اکثر امریکا کی جانب سے وسطی ایشیا کی دہشت گرد تنظیم داعش کی مثال دی جاتی ہے، جیسا کہ امریکا سوشل میڈیا کو عسکریت پسندوں کی جانب سے بھرتیوں کا اہم ذریعہ قرار دیتا ہے'۔

یہ خبر 7 فروری 2016 کو ڈان اخبار میں شایع ہوئی


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

تبصرے (1) بند ہیں

avarah toofan Feb 07, 2016 10:35am
sadkey ja is masumiyet par

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024