ہیکنگ اور بلیک میلنگ کے متاثرین کے لیے 7 رہنما نکات
پورے خطے میں برقی مواصلات استعمال کرنے میں پاکستان سب سے آگے ہے اور اس کے علاوہ پاکستان میں موبائل انٹرنیٹ سستے ترین داموں دستیاب ہے (تھری جی، فور جی LTE کے نرخ 5 ڈالر فی 10 گیگا بائٹ تک گر چکے ہیں)۔ پاکستان میں 4 کروڑ اسمارٹ فون صارفین میں سے اکثریت انٹرنیٹ کا استعمال کرتی ہے۔
ایک طرف تو یہ اچھی بات ہے مگر دوسری جانب ہمارے درمیان موجود غلط لوگوں کو تیز ترین انٹرنیٹ تک آسان رسائی بھی حاصل ہے، جس سے وہ اپنی کارروائیاں آسانی سے اور بلا خوف و خطر کر سکتے ہیں۔ اور ہمیشہ کی طرح خواتین ہی ان کارروائیوں کا سب سے زیادہ نشانہ بنتی ہیں۔
پہلے کم معاشرتی پابندیاں تھیں کہ اب پاکستانی خواتین کے لیے آن لائن دنیا بھی ایک علاقہ ممنوعہ بنتی جا رہی ہے؟ ویسے کچھ حد تک تو یہ بن بھی چکی ہے۔
غلط لوگوں کا طریقہء واردات بہت سادہ ہوتا ہے۔ وہ کئی ناموں سے آئی ڈیز بناتے ہیں جس سے وہ خواتین کی ذاتی معلومات اکٹھی کر سکیں، تاکہ انہیں انٹرنیٹ پر اور حقیقی زندگی میں ہراساں کیا جا سکے۔
کالے بازاروں کے ذریعے سستے سوفٹ ویئر اور ہارڈویئر تک بڑھتی ہوئی رسائی کسی بھی شخص کی آن لائن سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے لیے موبائل یا کمپیوٹر ہیک کرنا آسان بناتی ہے۔
سات اقدام جو آپ خود کو محفوظ رکھنے کے لیے کر سکتے ہیں۔
یہاں پر ان سات سب سے مؤثر اقدامات کا ذکر کیا جا رہا ہے جو ایک انٹرنیٹ صارف کو استعمال کرنے چاہیئں تاکہ 1: ذاتی معلومات کے ذریعے بلیک میلنگ سے بچا جا سکے۔ 2: اگر انٹرنیٹ پر ہراساں کیا جا رہا ہو تو مناسب اقدامات کر سکیں۔
1: مضبوط پاس ورڈ منتخب کریں اور انہیں باقاعدگی سے تبدیل کریں
پاس ورڈز کی مضبوطی اہمیت رکھتی ہے، اسے کبھی نظرانداز نہ کریں۔ اس کے علاوہ اپنے تمام آن لائن پلیٹ فارمز پر دوہری ویریفکیشن آن کر دیں (فیس بک، جی میل اور ٹوئٹر پر یہ فیچر موجود ہے)۔ یہ ایک اہم حفاظتی اقدام ہے اور اگر کسی ہیکر کو آپ کا پاس ورڈ مل بھی گیا، تب بھی وہ آپ کا اکاؤنٹ نہیں کھول سکے گا کیونکہ پاس ورڈ ڈالنے پر ایک حفاظتی کوڈ آپ کے موبائل پر بھیجا جائے گا جو ہیکر کو معلوم نہیں ہوگا۔
جیسے ہی آپ کو محسوس ہو کہ آپ کا اکاؤنٹ کسی نے استعمال کیا ہے، فوراً اپنے تمام اکاؤنٹس کے پاس ورڈ تبدیل کر دیں، نہ کہ صرف ایک کے۔ ورنہ کسی ہیکر کے لیے ایک پاس ورڈ معلوم ہونے کی صورت میں دوسرے اکاؤنٹس کے پاس ورڈ کا اندازہ لگانا بہت آسان ہے۔ آپ اسے تمام اکاؤنٹس کے پاس ورڈ ایک دوسرے سے مختلف رکھ کر بھی یقینی بنا سکتے ہیں۔
2: فوراً حکام کو آگاہ کریں
ایک بار جب آپ پاس ورڈ تبدیل کر چکیں، تو اپنے اکاؤنٹ کے ہیک ہونے کی اطلاع متعلقہ ویب سائٹ کو دیں۔ اگر آپ اپنے اکاؤنٹ کا کنٹرول واپس حاصل کرنے میں ناکام ہیں، تو یہ اور بھی زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔ تمام بڑی ویب سائٹس عام طور پر فوراً جواب دیتی ہیں۔
3: اپنے خاندان اور دوستوں کو آگاہ کریں
رپورٹ کرنے کے بعد اس ویب سائٹ کو آپ سے رابطہ کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔ اس وقت تک آپ اپنے دوستوں اور گھر والوں سے رابطہ کریں اور انہیں اس کی اطلاع دیں، تاکہ وہ آپ کے ہیک شدہ اکاؤنٹ سے کوئی رابطہ نہ کریں۔
اپنے گھر والوں، والدین اور سرپرستوں کو آگاہ کرنا بہت ضروری ہے، خاص طور پر اگر آپ محسوس کرتے ہوں کہ بعد میں معاملہ خراب ہو سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ چیزیں غلط موڑ لیں، اپنے گھر والوں کا اعتماد حاصل کر لینا چاہیے۔
4: بلیک میلرز کے مطالبات نہ مانیں
اگر کوئی شخص ہراساں کرنے کے بعد بلیک میلنگ پر اتر آئے، اور آپ کی ذاتی معلومات ڈیلیٹ کرنے کے بدلے آپ سے رقم کا تقاضہ کرے، تو اس کے مطالبات تسلیم نہ کریں۔ اس کے آگے مت جھکیں، کیونکہ اس بات کا کافی امکان ہے کہ وہ آپ کو ایک بار پھر بلیک میل کرنے کی کوشش کرے گا اور آپ کبھی بھی اس بات کو یقینی نہیں بنا سکتے کہ آپ سے رقم لے کر وہ آپ کا ڈیٹا ڈیلیٹ کرے گا بھی یا نہیں۔
5: ہراساں کیے جانے کی اطلاع ایف آئی اے کو دیں — وہ انتہائی فعال ہیں
اگر آپ کو کوئی انٹرنیٹ پر ہراساں یا بلیک میل کر رہا ہو، تو وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے نیشنل رسپانس سینٹر فار سائبر کرائم (NR3C) کو اطلاع دیں۔ آپ کو انہیں اپنی تفصیلات فراہم کرنی ہوں گی کیونکہ NR3C واضح وجوہات کی بناء پر گمنام شکایتوں پر کارروائی نہیں کرتا۔
مجرم کے خلاف باقاعدہ درخواست کا اندراج انتہائی ضروری ہے۔ ایف آئی اے کا یہ NR3C ڈپارٹمنٹ بہت فعال ہے اور سائبر کرائمز کی شکایتوں پر فوری کارروائی کرتا ہے، اور آپ کی مدد کے لیے سب سے کارگر ادارہ یہی ثابت ہوگا۔ [ایف آئی اے کی ہیلپ لائن: 9911]
5.1: اگر آپ بچے ہیں، تو آپ اپنے سرپرست سے کہہ کر شکایت درج کروا سکتے ہیں۔ اور اگر آپ اپنے گھر والوں کو بیچ میں نہیں لانا چاہتے، تو اپنے دوستوں یا اساتذہ سے کہیں کہ وہ اس سلسلے میں آپ کی مدد کریں۔
5.2: یاد رکھیں کہ جرم کی اطلاع دینا نہ صرف مستقبل میں آپ کو مزید ہراساں کیے جانے سے بچائے گا، بلکہ یہ اس بات کو بھی یقینی بنائے گا کہ دوسرے بھی اس تلخ تجربے سے نہ گزریں جس سے آپ گزرے ہیں۔
5.3: آپ سائبر کرائم کی اطلاع یا تو ان کا آن لائن فارم پر کر کے دے سکتے ہیں، یا تمام ضروری معلومات بمعہ ثبوت (بلیک میلر کے پیغامات کے اسکرین شاٹس) اس ای میل ایڈریس پر بھیج سکتے ہیں: [email protected]
5.4: یہ یاد رکھنا بھی اہم ہے کہ دھمکی آمیز فون کالز NR3C کے دائرہ کار میں نہیں آتیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے آپ کو اپنے قریبی پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کروانی ہوگی۔
6: اگر آپ کا کوئی دوست شکار ہے، تو اس کی مدد کریں
بلیک میلنگ کا نشانہ بننے والوں کے قریبی لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے شخص کی مدد کریں، کیونکہ زیادہ تر لوگوں کو آن لائن ہراساں کیے جانے کے تکلیف دہ مرحلے کے دوران اپنے گھر سے مدد نہیں ملتی۔
متاثرہ شخص کے لیے: اگر آپ بلیک میلنگ کے بارے میں اپنے گھر والوں کو اعتماد میں نہیں لے سکتے، تو اپنے دوستوں یا کسی بھی قریبی شخص سے رابطہ کریں۔ آپ کو کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ملے گا جو آپ کی درست رہنمائی کرے گا اور آپ کو مدد فراہم کرے گا۔
7: کوشش کریں کہ مجرم کا اتا پتہ معلوم ہو سکے
گھر والوں اور دوستوں کو کوشش کرنی چاہیے کہ متاثرہ شخص ایسے کسی بھی یونیورسٹی، کالج، دفتر یا کسی اور ادارے کی مدد حاصل کر سکے، جہاں سے مجرم کا تعلق ہونے کا شبہ ہے۔ کیونکہ متاثرہ شخص ایسی صورتحال میں عام طور پر خوفزدہ ہوتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دوست اور گھر والے قدم بڑھائیں اور سرکاری اداروں اور ان اداروں کو اطلاع دیں جہاں ہیکر کام کرتا ہے، اگر معلوم ہو تو۔
اگر آپ کو مزید کسی رہنمائی کی ضرورت ہو، تو آپ کبھی بھی 'ہمارا انٹرنیٹ' نامی ویب سائٹ وزٹ کر سکتے ہیں۔ اس میں انٹرنیٹ پر ہراساں کیے جانے سے نمٹنے کے لیے تفصیلی ہدایات موجود ہیں۔
ہمارا انٹرنیٹ ایک پاکستانی غیر سرکاری ادارے ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کا حصہ ہے جس کا مقصد پاکستانی خواتین کو آن لائن بلیک میلنگ سے بچانا اور محفوظ انٹرنیٹ اور موبائل ٹیکنالوجیز کے استعمال کو فروغ دینا ہے۔
پاکستان میں پہلے ہی بہت کم خواتین انٹرنیٹ پر موجود ہیں، اور اس طرح کے معاملات رپورٹ ہونے پر امکان رہتا ہے کہ ان کے گھر والے ان کی انٹرنیٹ تک رسائی پر مزید پابندیاں عائد کر دیں گے۔
انٹرنیٹ تک رسائی خواتین کے لیے نہایت اہم ہے، نہ صرف پاکستان میں، بلکہ دنیا بھر میں، تاکہ وہ اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں، اور تعلیمی اور معاشی مواقع سے فائدہ اٹھا سکیں۔
اس لیے اگر ہم آن لائن جرائم اور ہراساں کیے جانے یا بلیک میلنگ کو آغاز میں ہی ختم کرنا چاہتے ہیں، تو ہمیں مضبوط بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔