پی آئی اے کی نجکاری
مجوزہ نجکاری کے خلاف پی آئی اے کی یونینز کی ہڑتال ناکام بنانے کے لیے لازمی سروس ایکٹ 1952 کا نفاذ بوکھلاہٹ میں اٹھایا گیا ایک قدم ہے۔ ہڑتالی ملازمین اور سکیورٹی اہلکاروں کے درمیان ایئرپورٹ پر ہونے والی جھڑپ، جس میں دو ملازمین افسوسناک طور پر ہلاک ہوئے، نے تمام حکومتی منصوبوں کو ناکام کر دیا ہے۔
اس بات کا اعادہ بھی ضروری ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں کی جانب سے ایئرپورٹ کی حدود میں، جہاں طیاروں کی آمد و رفت جاری ہوتی ہے، مبینہ ہوائی فائرنگ کرنا انتہائی بے وقوفی تھی — یہ نہایت خطرناک ہے اور ذمہ داروں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے۔
مگر حالیہ واقعات کے بعد اب یہ پورا معاملہ انا کی جنگ میں تبدیل ہوچکا ہے جس میں عام طور پر وہی فریق فتحیاب ہوتا ہے جس میں زبردست عزم ہو، اور اس معاملے میں یہ یونینز ہوں گی۔
نجکاری کے معاملے میں شروع سے لے کر آخر تک بدانتظامی کے اشارے موجود تھے۔ کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ ایئرلائن کے لیے 'اسٹریٹجک سرمایہ کار' تلاش کرنے کی پوری مشق کس کی زیرِ نگرانی جاری ہے۔ کیا یہ مشیرِ ہوابازی تھے یا وزیرِ نجکاری؟ وزیرِ خزانہ کی جانب سے لگاتار، اور بسا اوقات بلاضرورت مشوروں نے بھی حالات کو سلجھانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔
سب ہی نے آزادانہ طور پر تمام طرح کے وعدے عوام سطح پر کیے، بشمول ملازمین کو یقین دہانی کے، کہ نجکاری کے دوران کسی بھی ملازم کی نوکری نہیں جائے گی۔ جب ایئرلائن کو کارپوریشن میں تبدیل کرنے کا آرڈیننس سینیٹ میں مسترد ہوا تھا تو اس وقت قومی اسمبلی میں تین مختلف کمیٹیاں پی آئی اے کے معاملات دیکھ رہی تھیں۔ جب سپریم کورٹ نے مشیرِ ہوابازی کو کوئی بھی فیصلہ آزادانہ طور پر لینے سے روک دیا، تو انہوں نے وزیرِ اعظم کو اپنا استعفیٰ بھیج دیا جو کہ منظور نہیں کیا گیا، جس سے مشیرِ ہوابازی کے کردار کے بارے میں مزید الجھن پیدا ہوئی۔
جب حکومت کی اپنی مقرر کردہ دسمبر کے اختتام کی ڈیڈلائن قریب آنے لگی تو معاملات ہاتھ سے باہر جاتے محسوس ہوئے۔ اس کے جواب میں حکومت نے سڑکوں پر ہونے والے احتجاج سے سکیورٹی اداروں کی مدد سے نمٹنے کا فیصلہ کیا۔ نتیجتاً دو لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور یونین کو اپنی تشہیر کرنے کے لیے دو 'شہید' مل چکے ہیں اور یہ اب پہلے سے زیادہ مضبوط ہے۔ کیا یہی حکومت کا 'بہترین' منصوبہ تھا؟
اس بات میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ پی آئی اے شدید مشکلات کا شکار ہے اور اس کا مجموعی خسارہ 300 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ یہ خسارہ توانائی کے شعبے میں موجود گردشی قرضوں جتنا ہی ہے۔
کچھ حلقوں کو اس بات پر بھی شک ہے کہ پی آئی کے انتظامی معاملات میں نجی شعبے کی مدد کے بغیر بھی نمایاں بہتری آ سکتی ہے۔ مگر اس مقصد کے حصول کے لیے حکومت نے جو راستہ اپنایا ہے، وہ جلدباز، بے ڈھنگا، اور رعونت پر مبنی ہے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کبھی بھی مخالفین کے ساتھ بیٹھنے اور کسی متنازع مقصد کے حصول پر اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لیے مشہور نہیں رہی ہے۔ اور جس طرح یہ پی آئی اے کے مسئلے سے نمٹ رہی ہے، اس سے اس تاثر کو صرف تقویت ہی ملتی ہے۔
یہ اداریہ ڈان اخبار میں 03 فروری 2016 کو شائع ہوا.