'لاپتہ نوجوان' کا معاملہ،عدالتی مداخلت کی اپیل
اسلام آباد: سپریم کورٹ میں دائر ایک پٹیشن کے ذریعے لاپتہ طالب علم کی تلاش کے لیے مداخلت کرنے اور سیکیورٹی فورسز کے موقف میں اس کے 'زندہ یا مردہ' ہونے کے حوالے سے متضاد بیانات کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ اکسان محبوب کو لاپتہ کرکے پہلے سیکیورٹی فورسز کے ساتھ 'مقابلے میں ہلاک کرنے' کا دعویٰ کیا گیا پھر اس کے پُر اسرار طور زندہ ہوجانے اور بعد ازاں دہشت گردی کے الزام میں فوجی عدالت سے سزائے موت سنائے جانے کا اعلان کیا گیا۔
لاپتہ افراد کے کیسز کی پیروی کرنے والے وکیل، ایڈووکیٹ انعام الرحیم نے سپریم کورٹ میں مزکورہ پٹیشن دائر کی۔
پٹیشن کے مطابق سیکیورٹی ایجنسیز کی جانب سے شہریوں کو اٹھانے کے اقدامات کی جانچ پڑتال کی جائے، جو کہ شہریوں میں بد اعتمادی، بے چینی اور خوف کی فضاء پیدا کررہے ہیں۔
مزید پڑھیں: قبائلی نوجوان کی سزائے موت پشاورہائیکورٹ میں چیلنج
وکیل کا دعویٰ ہے کہ متاثرہ اکسان محبوب کو 14 جولائی 2014 میں لاپتہ کیے جانے سے قبل اس کا بہترین تعلیمی ریکارڈ موجود ہے اور اس کے والدین اس کے بارے میں باوجود متعدد کوششوں کے معلومات حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
18 جولائی 2014 کو اکسان محبوب کے والدین پر میڈیا میں آنے والی رپورٹس کے ذریعے انکشاف ہوا تھا کہ ان کے بیٹے کو ایک مبینہ القاعدہ دہشت گرد کے ساتھ رائے ونڈ میں ایک مقابلے میں کے دوران ہلاک کردیا گیا ہے۔
جس کے بعد پولیس نے ان کے گھر پر چھاپا بھی مارا لیکن یہاں سے کوئی مشتبہ چیز برآمد نہیں ہوئی۔ واقع کے بعد اکسان محبوب کے والدین نے اپنے بیٹے کی لاش حاصل کرنے کے لیے متعدد بار درخواستیں دیں۔
ابتدائی طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے لاش دینے سے انکار کیا تاہم بعد میں اکسان محبوب کے والدین کو یقین دہانی کرادی گئی کہ مطلوبہ قانونی کارروائی کے بعد لاش ان کے حوالے کردی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف نے 9 دہشت گردوں کی پھانسی کی توثیق کردی
تاہم اکسان محبوب کے والدین کی جانب سے ایک اخبار میں اپنے بیٹے کے زندہ ہونے اور اس کے ملٹری انٹیلی جنس کی حراست میں ہونے کی خبروں کے بعد 22 جولائی 2014 کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اپنا موقف تبدیل کرلیا۔
اس کے بعد اکسان کے والدین نے حکام سے دوبارہ رابطہ کیا تاکہ وہ اپنے بیٹے سے ملاقات کر سکیں تاہم انھیں اس بات کی اجازت نہیں دی گئی۔
یکم جنوری 2016 کو انھیں ایک اور دھجکا لگا جب انھیں فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی جاری پریس ریلیز سے یہ معلوم ہوا کہ ان کے بیٹے کو فوجی عدالت نے 'قانون نافذ کرنے والے اداروں پر آتشی اسلحہ سے حملہ کرنے اور متعدد اہلکاروں کو زخمی اور ہلاک' کرنے کے الزام میں سزائے موت سنادی ہے۔
آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا تھا کہ 'اس نے مجسٹریٹ اور ٹرائل کورٹ کے سامنے اپنے جرم کا اعتراف کیا۔ اس کو 4 الزامات کے تحت سزائے موت سنائی گئی'۔ یہ بھی اعلان کیا گیا تھا کہ پاک فوج کے سربراہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اس کی سزائے موت کی توثیق کردی ہے۔
مزید پڑھیں: صابر شاہ کیس: فوجی عدالت کا فیصلہ چیلنج
پٹیشن کے مطابق اکسان محبوب کی والدہ مسرت بی بی ںے جنرلز ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) سے بھی اپنے بیٹے کی موجودگی کے مقام سے آگاہی کی اپیل کی تھی تاہم اس سے کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔
پٹیشن میں زور دیا گیا ہے کہ اکسان محبوب کے معاملے میں سیکورٹی ایجنسیوں کا متضاد موقف، ان کی جانب سے بدنیتی کا اظہار کرتا ہے۔
پٹیشن میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ اکسان محبوب کی گرفتاری سے لے کر اس کو سزائے موت سنائے جانے تک کا عمل غلط اور من گھڑت ہے، اور پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) 1952، اور آئین کے آرٹیکل 4،9،10 اور 10 اے کی خلاف ورزی ہے۔
اس میں مزید کہا گیا کہ اکسان محبوب نے نومبر 2011 میں ضلع اوکاڑہ میں میٹرک کے امتحانات میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی اور انٹر کے امتحانات میں 859 نمبروں کے ساتھ 'اے' گریڈ حاصل کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالت سے سزا،سپریم کورٹ میں پہلی اپیل دائر
اکسان محبوب کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی جانب سے جاری ہونے والا میرٹ سرٹیفیکیٹ بھی پیش کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ایک غریب خاندان سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اسے انتھک محنت کے بعد مستحق طلبہ کے لیے پنجاب ایجوکیشنل انڈومنٹ پروگرام کیلئے منتخب کیا گیا تھا۔
متاثرہ نوجوان کو لاہور یونیورسٹی میں داخلے کے لیے اسکالر شپ بھی دی گئی تھی جہاں اس نے بی ایس آنر ڈگری کے پروگرام کے پہلے دو سیمسٹرز میں 80 فیصد سے زائد نمبرز حاصل کیے تھے۔
یہ خبر 17جنوری 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں.