پاکستان کے لیے قائدِ اعظم کا وژن
11 اگست 1947 کو دستور ساز اسمبلی سے قائدِ اعظم کے خطاب کو اکثر و بیشتر عوام کے سامنے پیش کرنا ایسا تاثر دیتا ہے کہ جیسے قائدِ اعظم کے پاس پاکستان کے لیے صرف یہی وژن تھا۔
اس کے بجائے اپنے پورے سیاسی کیریئر کے دوران قائدِ اعظم نے اس بات پر بار بار زور دیا تھا کہ وہ پاکستان کو ایسی جمہوریت کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں جس میں تمام شہریوں کو بلا تفریقِ مذہب تمام حقوق حاصل ہوں۔
مارچ 1948 میں چٹاگانگ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ ہندوستان میں ان حقوق کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہی جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں نے علیحدہ ملک بنانے کے لیے جدوجہد کی۔
فروری 1948 میں ریڈیو سے خطاب کرتے ہوئے قائدِ اعظم نے واضح کیا کہ پاکستان "مذہبی پیشواؤں کے زیرِ انتظام چلنے والی ایک مذہبی ریاست نہیں ہوگی۔" انہوں نے کہا کہ غیر مسلم اقلیتوں کو بھی "دوسرے شہریوں کی طرح حقوق حاصل ہوں گے اور وہ بھی ملکی معاملات میں اپنا کردار ادا کریں گے۔"
یقینی طور پر یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ آخر کب رجعت پسند عناصر کو اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا موقع ملا، پر افغانستان میں روس کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کی شمولیت نے پچھلے 36 سال میں ان عناصر کو ضرور مضبوط کیا ہے جنہوں نے قوم کو صدمے سے دوچار کر کے معاشرے کا شیرازہ بکھیر دیا ہے۔
دہشتگردی اور مسلح بغاوت اس رجعت پسندانہ ذہنیت کا واضح ردِ عمل ہیں، جبکہ زمانہ قدیم جیسی عدم برداشت ایک وائرس کی طرح ہمارے معاشرے کے تمام حلقوں میں سرایت کر چکی ہے، ان جگہوں پر بھی جہاں اسے نہیں ہونا چاہیے، مثلاً اعلیٰ تعلیمی اداروں، ثقافتی تنظیموں اور آرٹ میں۔
تعلیم کو جو نقصان پہنچا ہے، وہ تو اپنی جگہ، مگر جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اسی چیز کا نتیجہ ہے جس کے خلاف مارچ 1948 میں قائدِ اعظم نے طلبا کو ڈھاکہ میں اپنی تقریر کے دوران خبردار کیا تھا: "اگر آپ نے کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستگی اختیار کی تو آپ خود کے ساتھ ظلم کریں گے۔ آپ کی پوری توجہ صرف اور صرف اپنی پڑھائی پر ہونی چاہیے۔"
لیکن ملک میں تعلیمی معیار اس لیے زوال کا شکار ہے کیونکہ یونیورسٹیاں اور طلبا تنطیمیں سخت گیر مذہبی نظریات رکھنے والے عناصر کے زیرِ اثر ہیں جن کی برین واشنگ اب صرف مدارس تک محدود نہیں ہے۔
کیا امید کی کوئی کرن موجود ہے؟ دیکھنا مشکل ہے۔ بااختیار لوگوں میں سے زیادہ تر کرپٹ ہیں اور قیادت کی بنیادی خصوصیات سے عاری ہیں۔
ایسا کوئی سیاستدان موجود نہیں جس میں اتنی ہمت ہو کہ وہ انتہاپسندوں کے خلاف محاذ کھڑا کر سکے اور سچ بول سکے — یہ سچ کہ ہر اشتعال انگیز تقریر اور اسٹریٹ پاور کے پیچھے موجود نفرت انگیز ذہنوں کے پاس سائنسی میدان میں کامیاب اور ترقی یافتہ قوم کے لیے وہ منصوبہ نہیں ہے جو جناح کے جمہوری ریاست کے وژن سے مطابقت رکھتا ہو جہاں "لوگ آزادی سے سانس لے سکیں اور جہاں ہم اپنی ثقافت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سماجی انصاف کے اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔"
یہ اداریہ ڈان اخبار میں 25 دسمبر 2015 کو شائع ہوا۔