پاکستان: داعش 61 کالعدم تنظیموں میں شامل
اسلام آباد: وفاقی حکومت کی جانب سے کئی ماہ تک داعش کی پاکستان میں موجودگی سے انکار کے بعد بالآخر یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ شدت پسند تنظیم 61 کالعدم تنظیموں میں شامل ہے۔
وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ بلیغ الرحمٰن نے سینیٹ کو آگاہ کیا کہ الدولۃ السلامیہ (جسے داعش کے نام سے جانا جاتاہے) کو رواں برس 15 جولائی کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔
گزشتہ ڈھائی سال میں وفاقی حکومت کی جانب سے کالعدم تنظیموں کی فہرست میں ہونے والا یہ واحد اضافہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں :خفیہ ایجنسیز پر کالعدم تنظیموں کی حمایت کا الزام
انہوں نے بتایا کہ الخیر ٹرسٹ اور الرشید ٹرسٹ کا نام اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قرارداد کے بعد سے اس فہرست میں شامل ہے جبکہ جماعت الدعوۃ کو 2005 میں اس فہرست کا حصہ بنایا گیا۔
سینیٹ میں پیش کی گئی فہرست کے مطابق لشکر جھنگوی اور سپاہ محمد پاکستان کو 14 اگست 2001 کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں : کالعدم تنظیموں کی کوریج نہ کرنے کا حکم
جیش محمد، لشکر طیبہ، سپاہ صحابہ پاکستان، تحریک اسلامی، تحریک نفاذ شریعت محمدی کو 14 جنوری 2002 کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا۔
تحریکِ جعفریہ پاکستان کو بھی 28 جنوری، 2002 میں کالعدم تنظیم قرار دیا گیا تھا، جبکہ القاعدہ کو اس فہرست میں 17 مارچ 2003 کو شامل گیا۔
یہ بھی پڑھیں : صرف 'پرتشدد کالعدم تنظیموں' کے خلاف کارروائی
15 نومبر 2003 کو ملت اسلامیہ پاکستان، خدام الاسلام اور اسلامی تحریک پاکستان پر پابندی لگائی گئی۔
5 روز بعد ہی 20 نومبر 2003 کو 3 مزید تنظیموں حزب التحریر، جمعیت الانصار اور جمعیت الفرقان کو کالعدم تنظیموں میں شامل کیا گیا۔
جبکہ خیر الناس انٹرنیشنل ٹرسٹ پر 27 اکتوبر 2004 میں پابندی عائد کی گئی۔
مزید پڑھیں : کالعدم تنظیموں کی فہرست اقوام متحدہ کی فہرست سےمماثل بنانےکافیصلہ
بلوچستان لبریشن آرمی کو 7 اپریل 2006 میں کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا. اسی سال 21 اگست کو فرقہ وارنہ تنظیم اسلامک اسٹوڈنٹس موومنٹ پاکستان پر پابندی لگائی گئی۔
2 سال کے وقفے کے بعد مزید 4 تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا جن میں لشکر اسلام، انصار الاسلام اور حاجی نامدار گروپ کو 30 جون 2008 اور تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کو 25 اگست 2008 کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا گیا۔
بلوچستان کی 5 عسکریت پسند تنظیموں بلوچ ری پبلکن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ، لشکر بلوچستان، بلوچستان لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ اور بلوچستان مسلح دفاع تنظیم پر 8 ستمبر 2010 کو پابندی عائد کی گئی۔
گلگت کی 3 تنظیموں شیعہ طلبہ ایکشن کمیٹی، مرکزِ سبیل آرگنائزیشن اور تنظیم نوجوانان اہلسنت کے ساتھ ساتھ کراچی کی پیپلز امن کمیٹی (لیاری) کو 10 اکتوبر 2011 کو کالعدم قرار دیا گیا۔
سپاہ صحابہ کی جگہ وجود میں آنے والی تنظیم اہلسنت والجماعت پر 15 فروری 2012 کو پابندی لگائی گئی، اسی سال 6 مارچ کو الحرمین فاؤنڈیشن اور رابطہ ٹرسٹ کو بھی کالعدم قرار دیا گیا، 2012 میں 24 اپریل کو گلگت بلتستان کی 2 تنظیموں انجمن امامیہ اور مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو فہرست میں شامل کیا گیا۔
5 جون 2012 کو تنظیم اہلسنت والجماعت (گلگت بلتستان) جبکہ 4 اگست 2012 کو تحریک نفاذ امن، تحفظ حدود اللہ، اسلام مجاہدین، جیش اسلام، بلوچستان بنیاد پرست آرمی، بلوچستان واجہ لبریشن آرمی اور بلوچستان لبریشن آرمی کو کالعدم قرار دیا گیا۔
2013 میں کالعدم تنظیموں کی فہرست میں بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا، 13 مارچ کو اس میں گلگت بلتستان کی تنظیم خانہ حکمت کو شامل کیا گیا جبکہ 15 مارچ کو تحریک طالبان سوات، تحریک طالبان مہمند، تحریک طالبان باجوڑ، طارق گیدڑ گروپ، عبداللہ عزام بریگیڈ، ایسٹ ترکمانستان موومنٹ، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، اسلامک جہاد یونین، 313 بریگیڈ، امر بالمعروف ونہی عن المنکر (حاجی نامدار گروپ) ، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد)، یونائیٹڈ بلوچ آرمی اور جئے سندھ متحدہ محاذ پر پابندی لگائی گئی۔
مارچ 2013 کے بعد فہرست میں کسی بھی قسم کی تبدیلی نہیں ہوئی تھی البتہ 2015 میں 15 جولائی کو اس میں داعش کا اضافہ ہوا۔
یہ خبر 19 دسمبر 2015 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔
تبصرے (1) بند ہیں