کراچی کا میئر : ایم کیو ایم کا راستہ ہموار
کراچی: سندھ کے دارالحکومت کراچی کے 6 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ نے اکثریت حاصل کر لی جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور جماعت اسلامی (جے آئی) کے اتحاد، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر جماعتوں کے مقابلے میں کراچی کے میئر کے لیے ایم کیو ایم کا راستہ ہموار ہوگیا۔
کراچی کی 209 یونین کونسلز ضلع وسطی کی 51 یوسیز، غربی کی 46، کورنگی کی 37، شرقی اور جنوبی کی 31 جبکہ ملیر کی 13 یوسیز کے لئے ایم کیو ایم، پی ٹی آئی، جے آئی، پی پی پی اور ن لیگ کے اُمیدواروں میدان میں موجود تھے۔
واضح رہے کہ بلدیاتی انتخابات میں 105 سے زائد یوسیز میں کامیابی حاصل کرنے والی جماعت کا نامزد اُمیدوار میئر مقرر ہو سکے گا۔
بلدیاتی انتخابات کے اختتام پر 180 یوسیز سے حاصل ہونے والے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق ایم کیو ایم نے 130 نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے پہلے اور پی پی 23 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر ہے جبکہ پی ٹی آٗئی 3، ن لیگ 4 اور جے آئی 3 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکی۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے واحد ایم این اے ڈاکٹر عارف علوی نے گذشتہ روز رات 11 بجکر 15 منٹ پر اپنے ٹوئیٹ میں کہا ہے کہ ’ایم کیو ایم نے کراچی کی بیشتر یوسیز پر کامیابی حاصل کی ہے اور میں ان کو اس پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔‘
مزید پڑھیں: کراچی: جماعت اسلامی، پی ٹی آئی قائدین کو شکست، متحدہ آگے
خیال رہے کہ کراچی کے 6 اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی کراچی کے صدر نجمی عالم، پی ٹی آئی کراچی کے صدر علی زیدی اور جماعت اسلامی کراچی کے سربراہ نعیم الرحمٰن یونین کمیٹیز کے چیئرمین کی نشستوں پر بلترتیب کلفٹن، سولجر بازار اور نارتھ ناظم آباد سے شکست سے دوچار ہوئے۔
پی پی پی نے تسلیم کیا ہے کہ ان کے اُمیدوار نجمی عالم کو پی ٹی آئی-جے آئی اتحاد سے شکست ہوئی.
پی ٹی آٗئی کراچی کے صدر علی زیدی کو سولجر بازار کی یوسی نمبر 16 میں ایم کیو ایم کے اُمیدوار کے مقابلے میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
ادھر جے آٗئی کے ترجمان نے تصدیق کی کہ جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کو ایم کیو ایم کے اُمیدوار کے مقابلے میں شکست سامنا کرنا پڑا ۔
ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر لائنز ایریا کے علاقے سے چیئرمین کی نشست پر کامیاب قرار پائے۔
الیکشن کمیشن پر تنقید
کراچی میں بلدیاتی الیکشن میں پولنگ کے دوران مختلف سیاسی جماعتوں کے اُمیدواروں نے مخالفین پر جعال سازی کے الزامات لگائے ہیں اور اُمیدواروں کی اکثریت کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے انتظامات ناکافی تھے۔
ادھر الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے سیکیورٹی کے بہترین انتظامات کئے گئے تھے، جن میں کراچی کے حساس پولنگ اسٹیشنوں پر رینجرز کی تعیناتی بھی شامل تھی۔
کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے دوران متعدد علاقوں میں سیاسی کارکنوں میں تصادم بھی ہوا تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاعات سامنے نہیں آئیں۔
الیکشن کے دوران ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی اور دھاندلی کے الزامات میں 15 افراد کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم -الطاف گروپ) کی جانب سے مہاجر قومی موومنٹ (ایم کیو ایم - آفاق گروپ) کو لانڈھی میں دھاندلی کا ذمہ دار قرار دیا گیا ہے اور ایم کیو ایم رہنما نے صوبائی الیکشن کمشنر سے 7 یوسیز میں پولنگ روکنے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
اسی طرح پی ٹی آئی اور جے آئی اتحاد نے دعویٰ کیا کہ صوبائی الیکشن کمیشن متعدد ایسے اقدامات کا ذمہ دار ہے جس کے باعث ایم کیو ایم کو فائدہ حاصل ہوا۔
جماعت کاسلامی کے رہنما نعیم الرحمٰن اور پی ٹی آئی کے رہنما علی زیدی نے ایم کیو ایم کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اس پر الزام لگایا کہ وہ بڑے پیمانے پر دھاندلی اور پولنگ اسٹیشنوں پر قبضے میں ملوث ہے۔
انھوں نے رینجرز کو پولنگ اسٹیشنوں کے اندر تعینات نہ کئے جانے کی مزمت کی اور پیراملڑی فورسز کو اختیارات کے باوجود پولنگ اسٹیشن میں کارروائی سے گریز کرنے پر سوالات اٹھائے۔
پی ٹی آئی کے رہنما علی زیدی کا کہنا تھا کہ ’میں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچ سکتا کہ الیکشن کمیشن اس سب کا ذمہ دار ہے۔ ایم کیو ایم کے کارکنان کی الیکشن کے دوران دھاندلی کو روکنے کے لئے مؤثر سیکیورٹی انتظامات موجود نہیں تھے۔‘
انھوں نے ایم کیو ایم کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس میں سیکٹروں بھتہ خور اور ٹارگٹ کلر موجود ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آپ لوگوں (ایم کیو ایم) کو خود پر شرم آنی چاہیے اور ان کو بھی جنھوں نے ایم کیو ایم کو ووٹ دیئے ہیں۔‘
جے آئی رہنما کا کہنا تھا کہ الیکشن فراڈ اور اس میں بے قاعدگیوں کے حوالے سے 47 درخواستیں دی گئی تاہم الیکشن کمیشن کی جانب سے کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
انھوں ںے کہا کہ پی ٹی آئی اور جے آئی کے اتحاد کی جانب سے رینجرز کی پولنگ بوتھ کے باہر تعیناتی کے مطالبے توجہ نہیں دی گئی ہے۔
کراچی کے بلدیاتی انتخابات
کراچی میں ایک میٹروپولیٹن کارپوریشن اور 6 اضلاع شرقی، غربی، وسطی، جنوبی، ملیر اور کورنگی کی ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز کے لیے تقریباً ساڑھے 5 ہزار امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے۔
شہر قائد میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں 70 لاکھ 80 ہزار سے زائد ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔
خیال رہے کہ کراچی کے 5 اضلاع سے 52 امیدوار بغیر مقابلہ منتخب ہوچکے ہیں۔
چھ اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے لیے 4 ہزار 141 پولنگ اسٹیشنز قائم کیے گئے ہیں، جن میں سے 234 کو نارمل، 2 ہزار 116 کو حساس جبکہ ایک ہزار 791 کو انتہائی حساس قرار دیا گیا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے رینجرز اور فوجی اہلکاروں کو کسی بھی پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے کا اختیار حاصل تھا۔
انتخابات کے دوران قیام امن کے لیے شہر میں فوج کی 10 کمپنیاں، رینجرز کے 7 ہزار 400 اہلکار اور پولیس کے 35 ہزار سے زائد اہلکار تعینات تھے.
یہ خبر 6 دسمبر 2015 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی
آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔