• KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm
  • KHI: Zuhr 12:31pm Asr 4:13pm
  • LHR: Zuhr 12:02pm Asr 3:27pm
  • ISB: Zuhr 12:07pm Asr 3:27pm

کیا دو لاکھ روپے میں تباہ شدہ گھر بن جائے گا؟

شائع November 11, 2015
26 اکتوبر 2015 کو آنے والے زلزلے کے بعد پشاور کے مکین اپنے تباہ شدہ گھر کا ملبہ ہٹا رہے ہیں۔ فوٹو رائٹرز
26 اکتوبر 2015 کو آنے والے زلزلے کے بعد پشاور کے مکین اپنے تباہ شدہ گھر کا ملبہ ہٹا رہے ہیں۔ فوٹو رائٹرز

قدرتی آفات کی روک تھام انسان کے بس کی بات نہیں، ہاں یہ کوشش ضرور کی جا سکتی ہے کہ پہلی بار اگر ایک علاقہ قدرتی آفت سے تباہی کا شکار ہوجائے تو آئندہ اس سے بچنے کے لیے حتی الامکان احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں، جس سے جانی و مالی نقصانات کم ہونے میں مدد ملے۔

10 سال قبل اسی مہینے میں 8 اکتوبر کو شمالی علاقوں سمیت ملک بھر میں زلزلے نے تباہی مچائی تھی اور اس کے متاثرین آج بھی امداد کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ اس وقت پرویز مشرف کی حکومت تھی اور زلزلہ متاثرین کی ہر ممکن مدد کے لیے اقدامات اٹھانے کی یقین دہانیاں کروائی گئی تھیں لیکن اب تک ہم دیکھ رہے ہیں کہ 2005 کے ہولناک زلزلے کے متاثرین آج بھی خوار ہو رہے ہیں۔ اس وقت زلزلہ متاثرین کے لیے عالمی برادری سے جو امداد ملی تھی، اگر پرویز مشرف کی کابینہ اور پھر آصف زرداری کی حکومت اس کو ایمانداری سے متاثرین تک پہنچاتی، تو یقیناً ان کی قسمت بدل جاتی۔

حالیہ زلزلے کی شدت ریکٹر اسکیل پر آٹھ اعشاریہ ایک تھی جو اس سے پہلے کبھی نہیں رہی تاہم فاصلے اور بہت گہرائی میں ہونے کے باعث اس کی تباہی پاکستان کے لیے اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی کہ اس کی شدت۔ قوم کو شکر ادا کرنا چاہیے کہ اتنی ریکارڈ ساز شدت کے باوجود زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ مگر میں چاہوں بھی تو 26 اکتوبر کے زلزلے کا ذکر کرتے کرتے 10سال قبل آنے والے زلزلے کی تباہ کاریوں کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔

اس وقت انجینئر امیر مقام پرویز مشرف کے دائیں بائیں بیٹھ کر زلزلہ متاثرین کی حالت زار دیکھ کر ویسے ہی ”دکھی“ تھے جیسے وزیراعظم نواز شریف کے ہمراہ شانگلہ کے دورے کے دوران ان کے ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے۔ اس دوران وزیراعظم کو دی جانے والی ایک افسر (شاید ڈپٹی کمشنرشانگلہ) کی بریفنگ لائیو ٹیلی کاسٹ کی جا رہی تھی۔

نقشوں کے ذریعے وزیراعظم کو زلزلے کی تمام تر تباہ کاریوں پر بریفنگ اور امدادی کاموں کی تفصیل سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ زلزلے کے دوران جن لوگوں کے گھر مکمل تباہ ہوئے ان کو ایک لاکھ روپے بطور امداد دیے جا رہے ہیں۔

وزیراعظم نے پوچھا کہ کیا ایک لاکھ روپے سے متاثرہ شخص کا گھر آباد ہو پائے گا؟ اس دوران مذکورہ افسر کے ایک ماتحت نے آگے بڑھ کر اپنے افسر کی لاج رکھتے ہوئے اپنی دلیل وزیراعظم کے سامنے رکھتے ہوئے بتایا کہ اس علاقے میں مکانات پتھروں سے تعمیر کیے جاتے ہیں۔ متاثرہ لوگوں کے پاس اپنے گھر کے ملبے کے پتھر پہلے سے موجود ہیں دیگر ضروری سامان کی فراہمی کے لیے ایک لاکھ روپے بڑی رقم ہے اور یہ ایک تباہ شدہ گھر کی دوبارہ تعمیر کے لیے کافی ہے۔

جس افسر کی جانب سے وزیراعظم کو بریفنگ دی گئی، فرض کریں کہ اس کا اپنا گھر زلزلے میں تباہ ہو جاتا تو کیا وہ بھی محض ایک لاکھ روپے کا مستحق ٹھہرتا؟ یہ قابل ستائش بات ہے کہ وزیراعظم نے انتظامیہ کی جانب سے متاثرین کے لیے ایک لاکھ روپے مختص کرنے کی سفارش مسترد کر کے فی گھر یہ رقم 2 لاکھ روپے کرنے کا اعلان کیا جس سے بڑی حد تک متاثرین کا مداوا ہو سکے گا۔ مگر 2005 کے زلزلے میں پرویز مشرف نے تباہ شدہ گھروں کی تعمیر کے لیے ایک لاکھ 80ہزار روپے کا اعلان کیا تھا۔ مہنگائی کے حساب سے یہ رقم کم از کم دگنی کی جانی چاہیے تھی۔

پہاڑی علاقوں سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ وہاں کا سخت موسم اور دشوار گزار راستے مشکلات میں مزید اضافہ کرتے ہیں اور حالیہ زلزلے کے بعد اب شانگلہ، چترال، اپر اور لوئر دیر سمیت قرب و جوار کے دیگر علاقوں میں متاثرین کو کس قدر مشکلات کا سامنا ہوگا، یہ صرف اور صرف متاثرین ہی جانتے ہوں گے، ہم سب ملک کے دیگر میدانی علاقوں میں بیٹھ کر کبھی ان کی مشکلات کا صحیح طریقے سے اندازہ نہیں لگا سکتے۔

شانگلہ کے پہاڑوں میں رہائش پذیر خوددار لوگ اس سے قبل بھی سیلاب اور زلزلے میں کئی قیامتوں کو جھیل چکے ہیں لیکن انہوں نے کبھی شکایت کی اور نہ احتجاج ریکارڈ کیا۔ پہاڑوں کے ان مکینوں کا دل بھی پہاڑ جیسا ہے۔ یہ سادہ دل اور سادہ مزاج لوگ اپنے دکھوں کی مارکیٹنگ کرنا جانتے ہیں اور نہ ہی اپنے آنسو کو ہتھیار بنانے کے فن سے یہ واقف ہیں۔ روکھی سوکھی پر برسوں سے گزارہ کرتے آئے ہیں، وہ بھی نہ ملے تو ان کو بھوکے پیٹ سونے کی عادت سی ہو گئی ہے۔

یہ کسی نہ کسی طریقے سے اپنی جھونپڑیاں بنالیں گے لیکن نہ کبھی حکومتی امداد کے پیچھے بھاگیں گے اور نہ حب الوطنی کے جذبے سے دستبردار ہوں گے۔ یہی ان کی خود داری ہے اور اسی حوصلے نے ان کو دشوار گزارراستوں اورپہاڑوں میں رہنے کیلئے پہاڑ جیسا حوصلہ دیا ہے۔ یقینآ ان کو اگر اب بھی حکومتی امداد نہ ملی تو وہ خود اپنے محل نما جھونپڑوں کو تعمیر کر لیں گے۔ جہاں تک امداد کی بات ہے تو یہ کسی کی جیب سے نہیں دی جا رہی بلکہ یہ سرکاری خزانے سے دی جائے گی اور یہ پیسہ بھی عوام کے ٹیکسوں کا ہی ہے جو ایسی آفتوں میں انہی پر استعمال ہونا چاہیے۔

دوسری جانب امریکا اور اقوام متحدہ سمیت دیگر ممالک نے حالیہ زلزلے میں جانی و مالی نقصان پر پاکستانی حکومت سے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متاثرین کے لیے ہر قسم کی امداد کی پیشکش کی جسے وفاقی حکومت نے شکریے کے ساتھ مسترد کر دیا ہے، جو خودداری کی ایک اعلیٰ مثال ہے اور اب یہ روایت برقرار رکھنی چاہیے۔

وفاقی حکومت سے گزارش ہے کہ وہ صرف زلزلہ زدگان کے لیے بیرونی امداد مسترد نہ کرے بلکہ تمام تر ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے غیر ملکی قرضوں سے بھی نجات حاصل کرنے کے لیے لائحہ عمل طے کرے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا واقعی حکومت اپنے وعدوں اور دعووں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حقیقی اقدامات کرتی ہے یا نہیں۔ یہ تو آنے وقت ہی بتائے گا، لیکن اگر واقعی حکومت یہ کام کر گئی تو یقیناً ن لیگ کا نام ملکی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا.

ارشد اقبال

ارشد اقبال پشتو نیوز چینل خیبر نیوز اسلام آباد میں سب ایڈیٹر ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Pakistan Nov 11, 2015 02:35pm
Allah Hu Akbar... You are right.. only those people can understand their problems who are living in such hilly areas. I myself is belonging to AJK I very well know that what are the problems in constructing a house in such areas. First thing is transportation of equipment (which normally doesn't require in big cities) for a house which is on hill. This is only one issue that should be catered...

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024