بشار الاسد کا 4 سال میں پہلا غیر ملکی دورہ
ماسکو: شام کے صدر بشار الاسد 4 سال بعد کسی غیر ملکی دورے پر روس پہنچے ہیں۔
بشار الاسد کا روس کے دارالحکومت ماسکو کا دورہ غیر اعلانیہ تھا جبکہ یہ بھی واضح نہیں کیا گیا کہ وہ کتنے دن کے دورے پر اپنے اتحادی ملک آئے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے ترجمان دیمیتری پیسکوف کا کہنا تھا کہ بشار الاسد اہم امور کے حوالے سے دورے پر روس آئے ہیں۔
دیمیتری پیسکوف نے یہ بھی کہا کہ دونوں رہنما دہشت گرد گروہوں کے خلاف جاری کارروائیوں کے حوالے سے تبادلہ خیال کریں گے۔
شام کے سرکاری ٹیلی ویژن کی رپورٹ کے مطابق بشار الاسد نے 2011 کے بعد پہلی بار کسی ملک کا دورہ کیا ہے۔
بشار الاسد منگل کے روز ماسکو پہنچے تھے، تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا کہ شام کے صدر تاحال روس میں ہیں یا ملک واپس آچکے ہیں۔
خیال رہے کہ شام میں 2011 سے خانہ جنگی کی صورتحال ہے، اس سے قبل بشار الاسد کے خلاف لڑنے والے جنگجوؤں کو امریکا کی پشت پناہی حاصل تھی، تاہم بعد ازاں داعش کے نام سے سامنے آنے والے شدت پسند گروہ نے عراق اور شام کے وسیع رقبے پر قبضہ کرکے جون 2014 میں الدولۃ الاسلامیۃ کے نام سے ریاست قائم کر لی۔
گزشتہ ماہ کے آخر میں روس نے شام میں فضائی کارروائیوں کا آغاز کیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ روسی جیٹ طیاروں نے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔
دوسری جانب امریکا نے الزام عائد کیا تھا کہ روس بشار الاسد کے خلاف سرگرم گروہوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔
واضح رہے کہ شام اور عراق میں داعش اور القاعدہ کی ذیلی شاخ النصرہ فرنٹ میں بھی لڑائی جاری ہے جبکہ النصرہ فرنٹ بشار الاسد کے خلاف بھی لڑ رہی ہے۔
روس اور امریکا میں معاہدہ
دوسری جانب امریکا اور روس میں شام کی فضائی حدود کے استعمال کے حوالے سے معاہدہ ہو گیا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اس معاہدے سے شام کی فضائی حدود میں دونوں ممالک کے جنگی طیاروں کے تصادم کے امکانات ختم ہوجائیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکا کی جانب سے دعویٰ گیا تھا کہ دونوں ممالک کے جنگی طیارے ایک ساتھ ہی شام کی فضائی حدود میں داخل ہوئے اور چند میل کے فاصلے سے قریب سے گزرگئے۔
امریکی محکمہ دفاع پینٹا گون کے ترجمان پیٹر کوک نے کہا کہ اس معاہدے کے مندرجات روس کی درخواست پر خفیہ رکھے جائیں گے البتہ دونوں ممالک میں فضائی حدود کے استعمال کے حوالے سے ہاٹ لائن قائم کی جاچکی ہے۔
پیٹر کوک نے یہ بھی کہا کہ روس اور امریکا اپنے اہداف یا خفیہ معلومات کا تبادلہ نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے طیارے ایک مخصوص فاصلہ برقرار رکھیں، تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ فاصلہ کیا ہو گا۔
دوسری جانب روسی حکام کی جانب سے بھی معاہدے کی تصدیق کی جاچکی ہے.