پاکستان میں گہری رنگت جرم کیوں؟
میں وہ لڑکی ہوں جو چاہے کسی بھی کام سے بیوٹی پارلر جائے، اسے فوراً رنگ گورا کرنے والی کریمیں لگانے کے لیے پوچھا جاتا ہے۔
میں سیالکوٹ کی وہ لڑکی ہوں جسے ٹھکرا دیا گیا ہے اور جس کے رشتے نہیں آتے۔ میں وہ کزن ہوں جو چاہے کتنی ہی ذہین اور زیرک کیوں نہ ہو، اسے کبھی خوبصورت نہیں سمجھا جاتا۔
میں ایک بیماری میں مبتلا ہوں۔ یہ بیماری کالی رنگت ہے۔
میری اس بیماری کے بارے میں ہر صبح مارننگ شوز میں بات کی جاتی ہے، اور اس کے علاج کے لیے ٹوٹکے سارا دن ٹی وی پر بتائے جاتے ہیں۔
یہ بیماری اس قدر خوفزدہ کر دینے والی ہے کہ میں اب اپنے باہر نکلنے اور لوگوں سے ملنے جلنے سے بھی کتراتی ہوں کیونکہ کالے لوگوں کا مذاق اڑانا قابلِ قبول اور رنگت کی بناء پر کسی کو نیچ سمجھنا نہایت عام بات ہے۔
مجھے یقین ہے کہ وہ دن دور نہیں جب کھانے کی چیزوں پر بھی لیبل لگا ہوگا کہ دن میں یہ چیز کھائیں اور رات میں ٹیوب لائٹ کی طرح جگمگائیں، یا جڑی بوٹیوں کی ماہر کوئی عورت مجھے چاک تھمائے گی تاکہ میں اسے اپنے چہرے پر مل لوں۔
لیکن ہماری عورتوں کو اس پر بھی اعتراض ہوگا۔ 'یہ چاک کا شیڈ صحیح نہیں تھا، اور زیادہ گورا منہ چاہیے!'۔
اس سے میرے ذہن میں یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں گوری رنگت کی یہ محبت کون جگائے ہوئے ہے؟ مرد یا عورتیں؟ میری رائے ہے کہ یہ زیادہ تر عورتوں کی ہی وجہ سے ہے۔
وہی خواتین جو اپنے بیٹوں کے لیے گوری دلہنوں کی تلاش میں کئی لڑکیوں کو مسترد کر دیتی ہیں، بھول جاتی ہیں کہ وہ خود بھی اسی مرحلے سے ہو کر گزری ہیں۔ لیکن وہ ایسا اس لیے کرتی ہیں کہ ایک گوری دلہن کے بچے گورے ہوں گے اور آخرکار پاکستان بھی گورا ہوجائے گا۔
ہمارے معاشرے میں گہری رنگت والے لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ہم اچھوت ہیں۔
اس سوچ کو دفن کر دینے کے بجائے ہمارا معاشرہ اس سوچ کو مزید پروان چڑھائے جا رہا ہے۔ عورتیں بیوٹی پارلروں میں ہزاروں روپے خرچ کرتی ہیں تاکہ وہ صرف گوری نظر آئیں، پھر بھلے ہی اس سے چہرے کے خدوخال خراب نظر آئیں.
سانولی لڑکیوں کو پسند کرنے والا کوئی نہیں، اور ہم کسی سے پسندیدگی بھیک میں مانگتے بھی نہیں۔ اب وقت ہے کہ ہم اپنی خوبصورت گندمی رنگت کو اپنائیں اور ان سب کو مسترد کر دیں جو ہمیں کم تر سمجھتے ہیں۔
کمپنیاں مغرب میں رنگت گندمی مائل کرنے کی کریمیں فروخت کرتی رہیں گی اور مشرق میں گندمی رنگت کے احساسِ کمتری کا فائدہ اٹھاتی رہیں گی۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ گندمی رنگت والی لڑکیاں اٹھ کھڑی ہوں، اور رنگ گورا کرنے والی کسی بھی چیز پر اپنے پیسے لگانے بند کر دیں۔ کالونیل دور کی اس ذہنیت کو چپکے چپکے گھریلو ٹوٹکے استعمال کر کے فروغ مت دیں۔
کیا ہی اچھا ہو کہ گندمی رنگت والی لڑکیاں انہیں مسترد کرنے والوں کی آنکوھں میں آنکھیں ڈال کر کہیں:
'ہاں میں کالی ہوں، مگر آپ کی ذہنیت کالی ہے اور اس کے لیے کوئی کریم ایجاد نہیں ہوئی۔'
رنگت کی بناء پر مذاق اڑانے کی روایت کا خاتمہ کرنا اہم ہے۔ ہمیں خود اعتمادی دکھانی ہوگی اور چیزوں کو اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا۔ ایسے لوگ ہمیں کبھی قبول نہیں کریں گے، ہمیں خود اپنی جگہ بنانی پڑے گی۔
اپنی تعلیم اور لوگوں سے میل جول کے اپنے ہنر پر کام کریں، مگر اس سے بھی زیادہ اہم اپنی گندمی رنگت کو قبول کرنا ہے۔ قدرت نے آپ کے لیے اسے ہی منتخب کیا ہے۔
رنگت کے احساسِ کمتری سے بوجھل اس معاشرے کو ٹھیک کرنے کا یہی طریقہ ہے۔
تبصرے (13) بند ہیں