کمسن طلبہ کی خود کشی: پستول لڑکی لائی تھی
کراچی: سندھ کے سب سے بڑے شہر میں گزشتہ روز ساتھ طالبہ کو گولی مار کر خود کشی کرنے والے میٹرک کے طالب علم کے حوالے سے ابتدائی تفتیش میں سامنے آیا ہے کہ 15 سالہ فاطمہ اپنے والد کا لائسنس یافتہ پستول گھر سے اسکول لائی تھی۔
لڑکی کا مبینہ خط |
جمشید ٹاؤن کے سپرنٹنڈنٹ پولیس اختر فاروق نے بتایا ہے کہ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے البتہ دونوں کے خاندان ان کی دوستی کو درست نہیں سمجھتے تھے۔
لڑکے کا مبینہ خط |
خیال رہے کہ 16 سالہ نوروز نے گزشتہ روز اسکول میں اپنی ہم جماعت 15 سالہ فاطمہ بشیر عرف صباء کو گولی مار کر خود کشی کر لی تھی ، خود کشی سے قبل دونوں نے خطوط بھی چھوڑے تھے کہ ان کے والدین ان کی شادی نہیں کریں گے اس لیے وہ اپنی مرضی سے خود کشی کر رہے ہیں.
ایس پی جمشید ٹاؤن اختر فاروق نے مزید بتایا کہ دونوں کم سن طلبہ نے خود کشی اچانک نہیں کی بلکہ اس کے لیے انہوں نے کئی دن میں منصوبہ بندی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ فائرنگ کے لیے استعمال ہونے والے پستول کا لائسنسن لڑکی کے والد کے نام پر ہے، پستول پولیس نے تحویل میں لے لیا ہے جبکہ لڑکی کے والد کو بھی تفتیش میں شامل کر لیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : ساتھی طالبہ کے قتل کے بعد طالبعلم کی خود کشی
پولیس کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دونوں نے خود کشی اپنی مرضی سے کی ہے کسی نے ان کو زبردستی مجبور نہیں کیا تھا۔
لڑکے نے لڑکی کو پستول لانے کا کہا تھا |
ہلاک ہونے والے دونوں طلبہ کا ایک اور خط بھی سامنے آیا ہے جس میں نوروز نے فاطمہ کو پستول لانے کا کہا تھا۔
خط میں نوروز نے فاطمہ کو لکھا ہے کہ کل آپ گن (پستول) لانا پلیز۔
ایس ایچ او سولجر بازار کے مطابق نوروز حامدی کا گھر فاطمہ کے گھر کے قریب ہی تھا، البتہ واقعہ کے بعد ان کے گھر پر کوئی بھی موجود نہیں ہے۔
پولیس آفیسر کا کہنا تھا کہ نوروز کا تعلق اسماعیلی برادری سے تھا جبکہ لڑکی کے اہلخانہ ہری پور ہزارہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
ایس ایچ او کے مطابق انہوں نے مرنے سے قبل خطوط چھوڑے ہیں جس میں وہ ایک دوسرے سے شادی کا ادارہ ظاہر کر رہے ہیں لیکن دونوں ہی بلکل مختلف کمیونٹز سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ابھی وہ بچے ہی تھے تو کیا ان کے والدین انہیں اس کی اجازت دے سکتے تھے؟۔
فاطمہ کی والدہ کا بیان : "وہ 20 منٹ تک زندہ تھی"
دوسری جانب فاطمہ جس کو گھر میں صباء کے نام سے پکارا جاتا تھا کی والدہ وحیدہ بی بی کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز اسکول جانے سے صباء کو منع کیا تھا کیونکہ اس کے سر میں درد تھا البتہ اس نے کہا کہ آج ٹیسٹ ہے اس لیے اس کو جانے دیا۔
وحیدہ بی بی کے مطابق وہ (نمروز) اور صباء ایک اور لڑکی کے ہمراہ کلاس میں موجود تھے، جب اسمبلی کی گھنٹی بجی، اس دوسری لڑکی نے بتایا کہ وہ دونوں (لڑکیاں) اسمبلی کے لیے کلاس سے جا ہی رہی تھیں، صبا اس کے پیچھے تھی جب اس نے فائر کی آواز سنی جبکہ صباء نیچے گری ہوئی تھی، وہ لڑکی فوری طور پر مدد کے لیے بھاگی تا کہ کسی کو بلا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسکول سے کسی نے بھی ان کو بیٹی کے زخمی ہونے کی اطلاع نہیں دی انہوں نے ٹی پر خبر دیکھنے کے بعد پہلے جناح اور پھر سول اسپتال جا کر معلومات حآصل کیں۔
وحیدہ بی بی کا کہنا تھا کہ وہ لڑکی جو صبا کے ساتھ موجود تھی اس نے بتایا کہ صباء کو زخمی ہونے کے بعد اساتذہ نے اٹھا کر کرسی پر بٹھایا، وہ 20 منٹ تک زندہ تھی۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت کے دوران اسکول انتظامیہ نے (لڑکی کے) والدین سے رابطہ نہیں کیا۔
نوروز کا فیس بک اکاؤنٹ |
فیس بک اکاونٹ بند
فاطمہ (صباء) کا فیس بک اکاؤنٹ |
فیس بک انتظامیہ کی جانب سے خود کشی کرنے والے 16 سالہ نوروز اور 15 سالہ فاطمہ کے فیس بک کے اکاؤنٹ بند کر دیئے گئے ہیں۔
خیال رہے کہ دو روز قبل ہی نوروز نے اپنے فیس بک اکاؤنٹ پر ہی لکھ دیا تھا کہ 'میں کل مر جاؤں گا' (tomorrow I will die) ۔
البتہ نوروز کے فیس بک اکاؤنٹ ہو 30 اگست کو ایک اور پوسٹ بھی موجود ہے جو میں لکھا گیا ہے کہ 'پہلی محبت کبھی نہیں مرتی' (First Love Never Dies)، جس کے ساتھ انہوں نے خود یہ بھی ٹائپ کیا کہ 'دھوکہ بھی فرسٹ لو (پہلی محبت) دیتا ہے۔
نوروز نے فیس بک کی پرو فائل پر بھی ایک لڑکے اور لڑکی کی اجتماعی خود کشی کی تصویر لگائی ہے جس سے اس کے ارادے کی جانب نشاندہی ہر رہی ہے۔
دوسری جانب 15 سالہ فاطمہ عرف صبا کی فیس بک آئی ڈی پر واضح طور پر تحریر ہے کہ "میں نوروز سے محبت کرتی ہوں" (I love NavRoz)
دونوں کمسن طلبہ کی فیس بک والز پر ہندوستانی اداکاروں اور اداکاراؤں کی تصاویر کی بھی بڑی تعداد موجود تھی۔
فیس بک انتظامیہ نے دونوں کے اکاؤنٹ بند کر دیئے |
تبصرے (6) بند ہیں