سرکاری اسکولوں کے بغیر تعلیم کیسے 'عام' ہوگی؟
اصولی طور پر ایک جمہوری ریاست جمہور کے بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرتی ہے جس کے بدلے ریاست کے ساتھ وفادار رہنا عوام کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ان بنیادی حقوق میں صحت، تعلیم، نقل و حمل کی آزادی وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن اگر مؤخر الذکر دو حقوق کو یقینی بنا دیا جائے لیکن تعلیم سے پہلوتہی کی جائے، تو بھی ایک مہذب اور ترقی یافتہ معاشرہ وجود نہیں پا سکتا، اس لیے دنیا بھر میں تمام ترقی یافتہ ممالک ، یا وہ ممالک جو ترقی کرنا چاہتے ہیں، اپنی پہلی ترجیح تعلیم کو رکھتے ہیں۔ ایک جمہوری ریاست ہونے کی بناء پر پاکستان میں بھی عوام کے منتخب نمائندوں پر آئین کے تحت فرض ہے کہ وہ ریاست کے تمام باسیوں کی تعلیم کا بندوبست کریں۔ سرکار کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ پرائمری سے لے کر میٹرک تک معیاری تعلیم مفت مہیا کرے اور اس فرض منصبی کو نبھانے کے لیے سرکار اپنی نگرانی میں سرکاری اسکول قائم کرتی ہے۔
پاکستان میں وسائل اور جمہوریت کے نمائندوں کی سب سے زیادہ تعداد پنجاب میں ہے لیکن بالائی و وسطی پنجاب، اور جنوبی پنجاب کے درمیان ایک ایسی لکیر کھینچ دی گئی ہے جو بظاہر نظر نہیں آتی۔ اس تقسیم کی بنیاد لسانی ہے۔ جنوبی پنجاب کے باسیوں کا رہن سہن، معاشی زندگی، تعلیمی حالت اور پسماندگی سے لگتا ہے کہ تخت لاہور کے رکھوالوں کو پنجاب کے اس خطے کے ساتھ کوئی پرانا بیر ہے۔
ایسا کہنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ تعلیمی منصوبے صرف لاہور تک ہی محدود ہیں۔ پنجاب کی سرکار ہر سال تعلیم کے لیے جو ترقیاتی پروگرامز متعارف کرواتی ہے اور اس ضمن میں جو بجٹ مختص کرتی ہے، اس کی نمود و نمائش بذریعہ اشتہارات خوب ہوتی ہے۔ پڑھو پنجاب، بڑھو پنجاب کی تشہیری مہم کا 3 مہینے قبل افتتاح ہوا، جس کا مقصد یہ بتایا گیا کہ صوبے میں اب کوئی بچہ اسکول جانے سے محروم نہیں ہوگا، اور تعلیم اب سب کے لیے ہوگی۔
پڑھیے: قبرستان میں قائم سرکاری اسکول
لیکن محکمہ اسکولز کی بیوروکریسی نے وزیرِ اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے ساتھ جو چالاکی کی اور جس طرح دروغ گوئی کے ساتھ کام لیا ہے وہ حیران کُن ہے۔ جون میں پنجاب اسمبلی نے جو تعلیمی بجٹ منظور کیا ہے اس کی تفصیلات سے خود وزیرِ تعلیم بھی آشنا نہیں ہیں۔ اگروزیر تعلیم کی مرضی سے بجٹ بنا ہوتا یا وہ آگاہ ہوتے تو ذرا بیوروکریسی سے یہ سوال پوچھتے کہ پڑھو پنجاب، بڑھو پنجاب کی مہم نئے سرکاری اسکولز کھولے بغیر کیسے کامیاب ہوگی؟
پنجاب میں 40 لاکھ مزید بچوں کو اسکولوں میں لانے کا ہدف ہے لیکن اس کا ہدف محکمہ اسکولز نے دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پاس رکھا ہی نہیں، بلکہ نجی اسکولوں کے حوالے کر دیا ہے۔ محکمہ اسکولز ایجوکیشن نے بذریعہ مراسلہ یہ واضح کیا ہے کہ لاہور سمیت صوبے کے 36 اضلاع میں کوئی بھی نیا سرکاری اسکول محکمے کے زیرِ انتظام نہیں کھولا جائے گا، جس کا مطلب ہے کہ تعلیم عام کرنے کے لیے مکمل طور پر نجی اسکولوں پر انحصار کیا جائے گا۔
یہ دیکھنا مشکل نہیں ہے کہ پنجاب حکومت باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت سرکاری اسکولوں کو ختم کر کے اس کے متبادل نجی اسکولوں کا جال بچھانے کا ارادہ رکھتی ہے، اور اسی لیے مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران صوبے میں 6 سالوں میں 8 ہزار سے زائد سرکاری اسکولوں کو بند کر دیا گیا ہے، جبکہ اسی دوران نجی اسکولوں کو پھلنے پھولنے کے لیے بھرپور مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔
آئین کے مطابق تعلیم کی ذمہ داری ریاست کی ہے، تو کیا ریاست کے یہ جمہوری نمائندے آئین کی غداری کے مرتکب نہیں ہو رہے؟ پنجاب میں جتنے بھی تعلیمی منصوبے تشکیل پا رہے ہیں، ان کا ماسٹر مائنڈ برطانوی ماہرِ تعلیم سر مائیکل باربر ہے جسے حکومت ماہانہ 10 لاکھ روپے ادا کر رہی ہے، جبکہ وی وی آئی پی رہائش کے اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔
حکومت کی متضاد پالیسیاں بھی ذرا دیکھ لیں؛ ایک طرف نجی اسکولوں کے نصاب اور فیسوں کو دائرہ کار میں لانے کے لیے اسمبلی میں اسکولز ریگولیٹری اتھارٹی بنانے کی بحث اور حکومتی اقدامات، تو دوسری جانب نجی اسکولوں کو پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن (پیف) کے ذریعے سالانہ 9 ارب روپے کا بجٹ تھما دیا گیا ہے۔
مزید پڑھیے: ڈھائی کروڑ پاکستانی بچے اسکول نہیں جاتے
پنجاب کے محکمہ منصوبہ بندی و ترقیات نے جب بجٹ سے پہلے اپنی رپورٹ پیش کی تو بتایا گیا کہ پیف کو 15-2014 کے بجٹ میں 7 ارب 50 کروڑ روپے دیے گئے لیکن مزید مطالبے پر 2 ارب 80 کروڑ روپے اضافی دیے گئے۔ رواں تعلیمی سال کے لیے حکومت نے پیف کا بجٹ 10 ارب روپے تک کر دیا ہے۔ پیف کے طریقہء کار کے مطابق نجی اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی فیسوں کی ادائیگی ایجوکیشن واؤچر اسکیم کے تحت کر دی جاتی ہے، اور جو نجی اسکول پیف کے ساتھ الحاق شدہ ہیں، ان کے بچوں کی فیسیں بھی پیف ادا کرتی ہے۔
حکومت کی اس پالیسی سے نجی اسکولوں کے گروپس کو مزید مضبوط ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ پیف کے ساتھ پانچ سال پہلے جس مالک نے ایک نجی اسکول کا الحاق کروایا، وہ اب دس دس سکولوں کے مالک ہیں۔ میں ایسے مالکان کو بذات خود جانتا ہوں جو پیف کے فنڈز سے امیر ہوئے۔
اب ان نجی اسکولوں کی طاقت کا اندازہ یہاں سے لگائیے کہ ہر سال پانچویں اور آٹھویں جماعت کے امتحانات پنجاب ایگزامینیشن کمیشن کے تحت لیے جاتے ہیں، لیکن نجی اسکولوں کے صرف 10 فیصد طلباء ان سرکاری امتحانات میں شرکت کرتے ہیں۔ پھر بھی حکومت اور بیوروکریسی ان سکولوں کے خلاف کارروائی کرنے سے کانپتی ہے کیونکہ بہت سارے اسکولوں میں سیاستدانوں بلکہ خود بیوروکریسی کے نمائندوں کی سرمایہ کاری ہے۔
جمہور کے نمائندوں نے جمہور کے ساتھ ایسا ہاتھ کیا ہے کہ انہیں مسلم لیگ ن کے نمائندوں کو ووٹ دے کر منتخب کرنے کی سزا کئی نسلوں تک بھگتنی پڑے گی۔ محکمہ اسکولز پنجاب کی تعلیم دوستی کا اور ثبوت بھی ملاحظہ فرمائیے۔ صوبے میں جن 10 ہزار سے زائد سرکاری اسکولوں کی عمارتیں مخدوش ہیں، ان کا بجٹ 15 ارب روپے سے کم کر کے 8 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
پنجاب کے حکمران سر مائیکل باربر کے کہنے پر شعبہء تعلیم میں پہلی جماعت سے لے کر میٹرک تک جس انداز میں تجربہ کاریاں کر رہے ہیں، اس سے صوبے میں اسکول سطح کی تعلیم میں دو واضح دھڑے بن گئے ہیں۔ سرکاری اسکولوں میں اب صرف کند ذہن بچے داخلہ لیتے ہیں یا پھر ریڑھی بان اور مزدوروں کے بچے۔
تصاویر: پاکستان میں سرکاری اسکولوں کی خراب حالت
سرکاری اسکولوں کی انتہائی قابل رحم حالت کی وجہ سے متوسط اور اشرافیہ گھرانوں کے بچے تو پرائیویٹ اسکولوں میں ہی داخل ہوتے ہیں، جہاں فیسیں ادا کرتے کرتے مڈل کلاس والدین کی جیبیں ہلکی ہوجاتی ہیں۔ جنوبی پنجاب کے انتہائی پسماندہ اضلاع میں دانش اسکولز کھول لینے سے محرومیوں کا ازالہ نہیں ہوگا، بلکہ سرکاری اسکولوں کی تعداد میں اضافہ، اور ان کے معیار کو نجی اسکولوں کے معیار کے برابر لا کر ہی ان علاقوں میں تعلیم کو عام کیا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب حکومت کو پیف کو اربوں روپے کے فنڈز دینے کے بجائے مستقل طور پر سرکاری اسکولوں کو کھول کر ان کی براہ راست سرپرستی کرنی چاہیے۔ نجی اسکولوں کو دائرہ کار میں لا کر ان کے نصاب اور فیسوں کو سرکاری اسکولوں کے برابر کرنا چاہیے تاکہ ملک میں جو نئی نسل تیار ہو ان کے ذہن، اقدار، اور سوچ میں تناؤ نہ ہو بلکہ ان میں قومی ترقی کا ایک جیسا جذبہ پیدا ہوسکے۔
تبصرے (10) بند ہیں