کرکٹ ٹیم کی میوزیکل چیئر
پاکستان کرکٹ بورڈ کی سلیکشن کمیٹی نے ایک مرتبہ پھر خود ہی اپنے اوپنرز کو کلین بولڈ کردیا ہے۔ ورلڈ کپ کے بعد قائم کی جانے والی نئی سلیکشن کمیٹی نے بھی پرانے سلیکٹرز کی طرح ٹیم میں اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ جاری رکھا۔ پہلے بنگلہ دیش کے خلاف ری بلڈنگ کا نام دے کر نئے کھلاڑیوں پر مشتمل ٹیم تشکیل دی، اور پھر زمبابوے کے خلاف اپنی ہی بنائی ہوئی ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں سات سات تبدیلیاں کر کے ستے پہ ستہ کا ری میک بنا دیا۔
پھر باری آئی ٹیسسٹ کی، جس نے پوری بنگلہ دیش سیریز میں واحد کامیابی حاصل کی لیکن ہمارے محترم سلیکٹرز اس فارمیٹ میں بھی تبدیلیوں سے باز نہ آئے اور سری لنکا کے خلاف بنائی جانے والی ٹیم میں چھ تبدیلیاں کر ڈالیں۔
اوپننگ وہ شعبہ ہے جو کسی بھی ٹیم کو فاتحانہ آغاز فراہم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن حیران کن طور پر پچھلے پانچ سال سے پاکستان میں اس شعبے پر ایک بڑا سوالیہ نشان موجود ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں ہم نے بیس کے قریب ٹیسٹ سیریز کھیلیں اور بارہ اوپننگ جوڑیاں تبدیل کیں، جس کا مطلب ہے کہ تقریباً ہر دو سیریز میں ایک اوپننگ پیئر تبدیل ہوا ہے۔
صرف محمد حفیظ اور توفیق عمر کی جوڑی زیادہ عرصے چل گئی لیکن باقی اوپنرز تو سلیکٹرز کے رحم و کرم کے منتظر ہی رہ گئے۔ کچھ اوپنرز تو ٹیم سے یوں غائب ہوئے کہ انہیں دوبارہ ٹیم میں دیکھنا مشکل ہوگیا۔ عمران فرحت، خرم منظور، یاسر حمید، اور توفیق عمر ان میں سے چند نام ہیں جبکہ اس لسٹ میں ایک نیا نام سمیع اسلم کا بھی شامل ہوگیا ہے جنہیں ایک سیریز میں چانس دینے کے بعد سلیکٹرز نے الوداع کہہ دیا۔
پڑھیے: شکست کی ذمہ دار ٹیم سلیکشن؟
ویسے پاکستان کرکٹ بورڈ میں ہونے والے فیصلوں کا جواب نہیں۔ پی سی بی میں ایک طرف تو سبحان احمد، انتخاب عالم، اور نو منتخب چیف سلیکٹر ہارون رشید تو مستقل مزاجی کے ساتھ پچھلے 20 سال سے مختلف عہدوں پر جمے ہوئے ہیں، جبکہ دوسری جانب ٹیم میں بھی کئی کرکٹرز ایسے ہیں جنہوں نے اپنی عمر کا آدھا حصہ کرکٹ ٹیم میں رہتے ہوئے گزار لیا ہے، چاہے وہ پرفارم کریں یا نہ کریں، مگر کپتان اور سلیکٹرز کا ساتھ جب تک ہے، کوئی ان کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتا۔
ان کھلاڑیوں میں محمد حفیظ کا نام سب سے اوپر ہے، جو ہر اوپننگ جوڑی کے ساتھ جمے رہے ہیں حالانکہ کچھ ادوار ایسے گزرے جس میں محمد حفیظ کے بلے سے رنز بالکل روٹھ گئے، لیکن مجال ہے کہ انہیں اپنی جگہ سے کوئی ہلا سکے۔ اس پر حفیظ کو سپورٹ کرنے والے مینیجمنٹ میں ان کے دوست احباب کہتے ہیں کہ حفیظ اپنی پرفامنس کی بناء پر ٹیم میں ہیں۔
خیر اس میں تو کوئی شک نہیں کیونکہ حال ہی میں انہوں نے بنگلہ دیش کے خلاف ڈبل سینچری اسکور کی ہے، لیکن ہمارا ان کے ان حامیوں سے ایک سوال ہے کہ گزشتہ پانچ سالوں سے مستقل ٹیم کا حصہ رہنے والے حفیظ آج تک نیوزی لینڈ، انگلینڈ یا جنوبی افریقہ میں کوئی سنچری کیوں نہ بنا سکے؟
صرف ایشیائی حالات میں چلنے والے حفیظ کے بلے کو باؤنسی وکٹوں پر کونسا روگ لگ جاتا ہے؟ لیکن اس میں حفیظ کا بھی قصور نہیں کیونکہ کرکٹ کا نظام چلانے والے خود قبول کرچکے ہیں کہ وہ حفیظ کا متبادل تلاش ہی نہیں کر پائے جس کا پتہ اس وقت چلا جب مشکوک باؤلنگ ایکشن کی وجہ سے انہیں حفیظ کو ڈراپ کرنا پڑا اور پھر جلد بازی میں ورلڈ کپ کے دوران کبھی ایک تو کبھی دوسرے اوپنر کو کھلاتے نظر آئے۔
پھر سوال آتا ہے کہ کیا وجہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں اوپنرز کو آزما کر پھر ڈراپ کردیا گیا۔ اگر کسی ایک کو بھی حفیظ جتنے مواقع دے دیے جاتے تو پاکستان بھی مارٹن گپٹل جیسا کوئی اوپنر تیار کرلیتا۔
مزید پڑھیے: کیا ہم صرف کرکٹ میں پیچھے ہیں؟
اب اگر یہاں صرف ایک ہی کھلاڑی پر بات ہوگی تو پڑھنے والے یہ تاثر لیں گے کہ اس بلاگ میں حفیظ نامہ لکھا جا رہا ہے، تو آگے بڑھتے ہوئے دیگر اوپنرز کے کردار پر نظر دوڑانا بہتر ہوگا۔ ویسے ہمارے اوپنرز میں احمد شہزاد بھی ان کھلاڑیوں میں سے ایک ہیں جن کی دوستیاں بڑھانے کی صلاحیت واقعی بے مثال ہے۔ یہ وہ کھلاڑی ہیں جو ہر دعوت میں اپنے ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ کم اور پی سی بی چیئرمین کے گھر والوں کے ساتھ زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے ٹیم سے باہر ہونے پر شور کچھ زیادہ ہی مچتا ہے۔
شہزاد کی خوش قسمتی ہے کہ انہیں ہوم کنڈیشنز یعنی امارات کی سرزمین پر زیادہ ٹیسٹ میچز کھیلنے کا موقع ملا، اسی لیے پرفارمنس بھی اچھی ہوئی۔ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کے بعد ٹیسٹ میں قدم جمانے والے شہزاد بھی گزشتہ دو سال سے مستقل کھیل رہے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ اپنے رویے سے وہ یہ تاثر دینے لگے کہ ان سے بہتر ٹیم میں کوئی نہیں، لیکن بد قسمتی سے ورلڈ کپ میں ان کا رویہ مصباح الحق اور وقار یونس سے برداشت نہ ہوا اور ورلڈ کپ کے بعد احمد شہزاد کو ڈسپلن درست کرنے تک کرکٹ سے دوری کا مشورہ دے دیا گیا۔
یہ بات الگ ہے کہ یہ سزا صرف ایک سیریز تک عائد رہی اور پھر سب احمد شہزاد کے ڈسپلن سے مطمئن ہوگئے، اور پھر ہوا یوں کہ زمبابوے کے خلاف ون ڈے سیریز میں احمد شہزاد کو پیچھے کے دروازے سے ٹیم میں ان کرلیا گیا اور تینوں ون ڈے میچز میں موقع نہ ملنے کے باوجود سری لنکا ٹیسٹ کی انٹری ٹکٹ بھی تھما دی گئی۔ حیرت اس بات کی ہے کہ ڈسپلن درست نہ ہونے کی سزا تو بے چارے عمر اکمل کو بھی دی گئی لیکن عمر اکمل پی سی بی کی سینیئر مینیجمنٹ سے اچھے تعلقات استوار نہ کر پائے، یہی وجہ ہے کہ ان کے ساتھی احمد شہزاد آگے نکل گئے، اور وہ اب تک سزا کاٹ رہے ہیں۔
سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں کم بیک کرنے والے ایک اور اوپنر شان مسعود نیوزی لینڈ کے خلاف خراب پرفامنس پر بنگلہ دیش کے خلاف ٹیسٹ اسکواڈ سے ڈراپ ہوگئے تھے، لیکن اب یہ سمجھ نہیں آتا کہ اس ایک مہینے میں سلیکٹرز کو ان کی کون سی پرفامنس بھا گئی کہ دوبارہ ٹیسٹ ٹیم کے دروزے ان کے لیے کھول دیے گئے، اور پاکستان کرکٹ کے ابھرتے ہوئے کھلاڑی بابر اعظم گزشتہ ٹیسٹ اسکواڈ میں نام لکھوانے اور ڈیبیو پر ون ڈے نصف سنچری بنانے کے باوجود سلیکٹرز کی گڈ بک میں شامل نہ ہوسکے۔
جانیے: کرکٹ ورلڈکپ 2015 کے دلچسپ اعدادوشمار
عقل و فہم رکھنے والے زیرک کرکٹ مبصرین بھی موسم کی طرح بدلتے سلیکٹرز کا بدلتا موڈ سمجھنے سے قاصر ہیں جنہوں نے پچھلے پانچ سالوں میں تیرہواں اوپننگ کامبی نیشن سری لنکا کے خلاف آزمانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان حالات میں کرکٹ سے محبت اور ملک میں انٹرنیشنل ٹیموں کے پاکستان آمد کے حوالے سے تسلسل کے خواہاں پاکستانی شائقین اپنے پسندیدہ کھلاڑیوں کی پرفارمنس میں بھی مستقل مزاجی چاہتے ہے، جو پاکستان کرکٹ کو ایک بار پھر دنیائے کرکٹ پر راج کرتے دیکھنا چاہتے ہیں لیکن آخر کب تک پاکستان کرکٹ کے بدلتے حالات اور فیصلوں کو قبول کرتے رہیں گے۔
یہاں ایک فرد کو آئی سی سی کی صدارت کے لیے نامزد کیا جاتا ہے، اور پھر صدارت سے ایک مہینہ قبل دوسرا نام دے دیا جاتا ہے، ایک سال میں تین چیئرمین تبدیل ہوتے ہیں، ایک کوچ خراب کارکردگی پر ٹیم سے استعفیٰ دیتا ہے اور پھر بڑے ٹورنامنٹ سے قبل دوبارہ عہدہ سنبھال لیتا ہے، کبھی ایک ہی کرکٹر کو کئی عہدے ایک ساتھ دے دیے جاتے ہیں تو ایک ہی لمحے میں برطرف بھی کردیا جاتا ہے، حد تو یہ ہے کہ صرف ایک سیریز کھلا کر ایک ساتھ سات کھلاڑی تبدیل کردیے جاتے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ پی سی بی کی باگ ڈور سنبھالنے والے عہدیداران کرکٹ کے دیوانے عوام کے جذبات کی قدر کرتے ہوئے اپنے فیصلوں میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور مستقل بنیادوں پر فیصلوں کے ساتھ ساتھ ان پر عملدرآمد یقینی بنائیں، ورنہ ہم ہمیشہ کی طرح صرف تبدیلی کا نعرہ لگاتے رہ جائیں گے اور پاکستان کرکٹ ٹیم صرف دوسری ٹیموں کو جتوانے کے لیے ہی جانی جائے گی۔
تبصرے (1) بند ہیں