سچ کو کیسے ہرایا گیا؟
درحقیقت
جھوٹ کے دربار میں بحث و مباحثہ کر کے سچ کو ہرانے کی کوششیں جاری تھیں۔ جھوٹ کے دربار میں فریب، مکر، بے ایمانی، بے رحمی، اور دولت نام کے پانچ رتن تھے۔ فریب، مکر، بے ایمانی اور بے رحمی سچ سے ہار چکے تھے۔ اب دولت کی باری تھی، سو وہ اتری۔
سچ نے دولت کی چمک کو دیکھا اور دلکش سا دیکھتا ہی رہ گیا اور اس بیچ بحث و مباحثہ کا طے شدہ وقت ختم ہوگیا۔ دولت جیت چکی تھی۔
تب سے اکثر ایسا ہوتا ہے کہ دولت کو دیکھ کر سچ کی زبان بند ہوجاتی ہے۔
شناخت
بس اسٹینڈ سے اپنی منزل تک پہنچنے کے لیے میں سات روپے سواری کے حساب سے آٹومیں بیٹھا، تبھی ایک تنگ حال سی بڑھیا بھی وہیں جانے کے لیے آٹو ڈرائیور سے باتیں کرنے لگی۔ وہ آٹو رکشہ ڈرائیور سے کہہ رہی تھی کہ اس کے پاس صرف پانچ روپے ہی ہیں، وہ اتنے میں ہی اسے لے چلے، لیکن آٹو ڈرائیور نہیں مانا اور آس پاس دوسری سواریاں کھوجنے چلا گیا۔
مجھے بڑھیا کی حالت پر ترس آیا اور میں نے اسے نزدیک بلا کر کہا: ”اماں یہ دو روپے رکھو اور آٹو میں بیٹھ جاؤ۔“ میرے ایسا کہنے پر وہ بڑھیا میرے ایک دم نزدیک آ کر پراسرار انداز میں کہنے لگی: ”بیٹا یہ آٹو والے بدمعاش ہوتے ہیں۔ من مانا کرایہ وصول کرتے ہیں۔ ان لوگوں سے اسی طرح نپٹا جاتا ہے۔ میرے پاس تو کافی پیسے ہیں، اگر وہ پانچ روپے میں نہیں مانا تو میں بس سے چلی جاؤں گی۔“
ایسا کہہ کر وہ چلی گئی۔ اتنے میں آٹو ڈرائیور بھی واپس آگیا۔ چونکہ اسے اور سواری نہیں ملی تھی، سو وہ مجھ اکیلے کو ہی لے چلا۔
ڈرائیور کا بڑھیا کے بارے میں زاویہ نگاہ جاننے کے لیے میں نے اس سے کہا: ”یار اس بڑھیا کو بھی بٹھا لینا تھا۔“ بڑھیا کا ذکر ہوتے ہی اس نے برا سا منھ بنایا اور کہا: ”صاحب جی، یہاں لوگ روپے تو بہت رکھے ہوئے ہوتے ہیں لیکن ہمارے سامنے غریبی کا رونا روتے ہیں۔ پکا یہ بڑھیا بھی انہی میں سے رہی ہوگی۔“
اب میں سوچنے لگا کہ لوگوں میں لوگوں کی شناخت کرنے کا فن کیسے خود ہی ڈیولپ ہو جاتا ہے۔
حمایتی
اس جگہ پر ایڈمنسٹریٹیو سروس کی تیاریوں کے لیے گروپ ڈسکشن رکھی گئی تھی۔ حصہ لینے والوں میں ناکام امیدوار بھی تھے۔ مذاکرے کے دوران زیادہ تر ناکام امیدواروں نے اپنی سلیکشن نہ ہونے کی وجہ کرپشن کا چلنا بتایا۔ کچھ نے امتحان سسٹم پر انگلی اٹھائی۔ کچھ ایک نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ انٹرویو کمیٹی نے ہم سے کھلے عام روپے مانگے۔
وہ کافی دیر تک یہ بکواس سنتا رہا۔ وہ خود بھی دوبار ناکام ہوچکا تھا، پر اسے اس طرح کا کوئی تجربہ نہیں ہوا تھا۔ جب ان کی بکواس اس کے لیے ناقابل برداشت ہوگئی تو وہ غصے سے کھڑا ہوگیا اور بولا: ”بند کرو اپنی یہ بکواس۔ اپنی کمزوری کو چھپانے کے لیے اس طرح کی گمراہ کن باتیں بند کرو۔ تم لوگ ہی سسٹم کی ایسی منفی تصویر کھینچتے ہو اور نئے خون کو نا امید کرتے ہو۔“
اس کی اس بات پر ہال میں سکتے کا عالم چھا گیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد کسی کونے سے آواز آئی: ”مارو سالے کو…… بڑا سرکار کا حمایتی بنتا ہے۔“ اور اس کے بعد اس کی پٹائی شروع ہوگئی۔
نجات
نعیم کے چھوٹے بھائی انیس کو بچپن سے ہی دماغ سمیت آدھے شریر میں لقوہ/پیرالائسس مار گیا تھا۔ کچھ اور بڑے ہونے پر اسے مرگی کے دورے بھی پڑنے لگے۔ فطرت کے قاعدے سے اس کا شریر بڑھتا رہا، پر لقوہ والے آدھے حصے میں احساسات غیر موجود رہے۔ ماں باپ جب تک زندہ رہے، اس کے روزمرہ کے معمولات کو سنبھالے رکھا۔
ان کے مرنے کے بعد نعیم کی بیوی شبانہ کو اس کی دیکھ بھال کرنی پڑتی۔ وہ کھجتی، جھینکتی ہوئی کام کرتی اور روز شام کو اپنے شوہر سے اپنے دیور کی شکایت کرتی۔ اس پر نعیم اپنے بھائی کو لاتوں گھونسوں سے مارا کرتا۔ اپنی کھیج وہ اس طرح دکھایا کرتا۔ آخرکار اپاہج انیس کی موت ہوگئی۔ ماتم پرسی کے لیے آئے لوگ نعیم سے کہتے: ”اب ہونی کو کون ٹال سکتا ہے بھلا۔ ویسے ایک طرح سے اچھا ہی ہوا جو اسے اس تکلیف بھری زندگی سے نجات مل گئی۔“
"اسے نجات ملے یا نہ ملے، پر مجھے تو اس سے نجات مل ہی گئی" سوچ کر اس کے لبوں پر ٹیڑھی مسکراہٹ تیرنے لگتی۔
سمجھوتہ
کھیت میں کام کرتے ہوئے اس آدمی نے اچانک دیکھا کہ ایک بھالو سامنے کھڑا ہے۔ دونوں کی نظریں ملیں۔ تبھی انہیں شیر کی دھاڑ سنائی دی، اور وہ ایک سمجھوتے کے تحت درخت پر چڑھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد شیر بھی اسی درخت کے نیچے آکر بیٹھ گیا۔
اوپر بیٹھے بھالو نے فلسفی کے سے انداز میں اس آدمی سے کہا: ”یہ کیسا عجیب مذاق ہے کہ ہم دونوں دشمن سمجھوتہ کر کے ایک ہی جگہ پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ سچ میں، قدرت بھی کیسے کیسے کھیل دکھاتی ہے۔“
”انسان نے کبھی کوئی سمجھوتہ نہیں کیا، اور قدرت بھی کوئی کھیل نہیں دکھاتی۔ کھیل تو انسان دکھاتا ہے" کہتے ہوئے اس آدمی نے ایک ڈال کس کر پکڑ لی اور اپنی پوری طاقت سے لات مار کر لاپرواہ بیٹھے بھالو کو نیچے گرا دیا۔“
یہ آلوک کمار ساتپوتے کے افسانچوں کی دوسری قسط ہے۔ پچھلے افسانچے پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
تبصرے (1) بند ہیں