• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:53am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:19am Sunrise 6:46am

پاکستانی سیاست کے تین اہم ستون

شائع May 15, 2015
سیاستدان اقتدار حاصل کرنے اور اس کی مضبوطی کے لیے کئی محکموں اور افسران پر انحصار کرتے ہیں۔ — خاکہ خدا بخش ابڑو
سیاستدان اقتدار حاصل کرنے اور اس کی مضبوطی کے لیے کئی محکموں اور افسران پر انحصار کرتے ہیں۔ — خاکہ خدا بخش ابڑو

پاکستان میں ہر طرح کی برائیوں کے لیے سیاستدانوں کو ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سیاستدان اپنے اقتدار کے قائم رہنے کے لیے کئی چیزوں پر انحصار کرتے ہیں، جن میں سے سب سے زیادہ اہم ستون تین ہیں۔

یہ تین ستون ہیں کھڑپینچ، ایس ایچ او، اور پٹواری۔ آج میں آپ کو پاکستانی سیاسی ڈھانچے کے ان تین اہم ستونوں کے بارے میں بتانا چاہتا ہوں، جن کے باہمی ملاپ سے پاکستانی سیاست دان ایوانوں میں پہنچتے ہیں، اور پھر ہماری تقدیر کے فیصلے کرتے ہیں۔ تو آئیے ان تینوں بنیادی اکائیوں کی اغراض و مقاصد پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہیں۔

کھڑپینچ: یہاں کھڑپینچ سے مراد علاقے کا وہ معزز آدمی ہے جو خود کو 'چوہدری' یا 'وڈیرہ' کہلواتا ہے، اور اس کا بنیادی مقصد علاقے کے عوام پر اپنا تسلط قائم کرنا ہوتا ہے۔ وہ زبردستی شادیوں، جنازوں، اور مصالحتی کمیٹیوں کا حصہ بنتا ہے، اور وہاں اپنے من پسند فیصلے کرواتا ہے۔

گاؤں اور دیہات میں اس کا اثر و رسوخ شہر کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ تمام سرکاری محکموں، پولیس، اور پٹواریوں سے اس کا گٹھ جوڑ ہوتا ہے۔ کبھی وہ کسی غریب کی زمین دبا لیتا ہے، تو کبھی کسی کے مال مویشی۔ اس کے خلاف نہ تو کوئی مقدمہ درج ہوتا ہے، اور نہ ہی کسی شریف انسان میں اس سے جھگڑا کرنے کی ہمت ہوتی ہے۔

وہ بلاوجہ لوگوں کے مسائل میں ٹانگ اڑاتا ہے، اور ان میں سے اپنا مقصد حاصل کرتا ہے۔ علاقے کی سیاسی شخصیات سے اس کو خاص قرب حاصل ہوتا ہے، اور اسی وجہ سے اس کی الگ ہی اہمیت ہوتی ہے۔ سارا سال بدمعاشی اور غنڈہ گردی کرنے کے بعد جب الیکشن کے دن آتے ہیں، تو یہی کھڑپینچ آپ کو لوگوں سے ہمدردی کرتا نظر آتا ہے، اور علاقے کی سیاسی شخصیات کی انتخابی مہم چلانے میں بھی آگے آگے ہوتا ہے۔ سیاست دان ہر علاقے سے ایک ایسا کھڑپینچ ڈھونڈتے ہیں، اور اس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

تھانہ انچارج (ایس ایچ او): تھانہ انچارج محکمہ پولیس کی ایک بے حد اہم پوسٹ ہے۔ اس کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو ایف آئی آر ایسے کاٹ سکتا ہے کہ مظلوم ظالم اور ظالم مظلوم بن جائے۔ عام طور پر جب کوئی سیاست دان اقتدار میں آتا ہے تو سب سے پہلے وہ علاقے میں اپنی پسند کا ایس ایچ او لے کر آتا ہے، اور پھر اس کی مدد سے اپنے مخالفین کو جھوٹے مقدمات میں پھنساتا ہے، اور اپنے حامیوں کے مقدمے خارج کرواتا ہے۔

جہاں کھڑپینچ سیاست دانوں کو اقتدار میں لاتا ہے، وہاں ایس ایچ او سیاست دان کے اقتدار کو مضبوطی فراہم کرتا ہے۔ اپنے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو تھانہ انچارج کے حوالے کر دیا جاتا ہے جو اس آواز کو دبانے کا فن بخوبی جانتا ہے۔ یہاں ایس ایچ او کو اگر ایک استعارے کے طور پر لیا جائے، تو اس سے مراد وہ سب کرپٹ افسران ہیں، جو سیاست دانوں کے اشارہ پر ان کے 'قریبی دوستوں' کو قانون کے شکنجے سے بچانے کے فرائض سر انجام دیتے نظر آتے ہیں۔

پٹواری: پٹواری بھی ایس ایچ او کی طرح ایک بہت اہم پوسٹ ہے۔ ایس ایچ او کی طرح پٹواری نے جو خسرہ لکھ دیا، وہ بھی ادھر سے ادھر نہیں ہو سکتا اور یوں زمیندار ہاری اور ہاری زمیندار بن جاتا ہے۔ پٹواری اپنی چال بازیوں سے اپنے مہربانوں کو ککھ پتی سے لکھ پتی بنا دیتا ہے، اور جس شخص سے زیادتی ہوئی ہوتی ہے، وہ دیوانی مقدمے میں ایسا الجھتا ہے کہ پٹواری اپنی مدت ملازمت پوری کر کے ریٹائر بھی ہو جائے، لیکن سائل کا مقدمہ حل نہیں ہو پاتا۔

سیاست دان جہاں ایس ایچ او کو اپنا اقتدار مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، تو وہیں پٹواری ان کے لیے مال اکٹھا کرنے کا کام کرتا ہے تاکہ آئندہ آنے والے الیکشن میں پیسے کا استعمال کر کے خوب دھاندلی کی جا سکے۔ اپنی بینک کی ملازمت کے دوران مجھے پاکستانی سیاست کے اس اہم ستون کو کافی قریب سے دیکھنے کا موقع ملا کیونکہ میں اسمال اینڈ میڈیم انٹرپرائز ڈیپارٹمنٹ (SME) میں تھا اور مجھے پراپرٹی مارگیج کرنے کے لیے محکمہ مال کے افسران سے ملنا پڑتا تھا، تو اس محکمے کی چند آنکھوں دیکھی مثالیں آپ کے گوش گزار ہیں۔

ایک بار ایک غریب کسان زرعی قرضہ لینے بینک آیا۔ میں نے اسے قرضے کے لیے چند کاغذات کا بتایا، جن میں سے ایک 'فرد' تھا جو علاقے کا پٹواری بنا کر دیتا ہے۔ اس کی سرکاری فیس اس وقت غالباً 80، 90 یا اس سے بھی کم تھی۔

دو میہنے کے بعد جب وہ شخص فرد لے کر دوبارہ آیا تو میں نے پوچھا کہ اتنے عرصے بعد کیوں آئے، تو اس نے جواب دیا کہ پٹواری صاحب نے کہا ہے کہ تمہاری زمین کے خسروں میں بہت گڑبڑ ہے، اور اسے درست کرنے کے لیے کافی وقت درکار ہے لہٰذا دو مہینے پٹواری کے دفتر کے چکر کاٹتا رہا۔ ہر چکر پر وہ مجھ سے 1000 روپے لے لیتا تھا، یوں تقریباً 12000 دینے کے بعد مجھے فرد ملا۔ بعد میں پتہ چلا کہ فرد میں کوئی گڑبڑ نہیں تھی، بلکہ پٹواری نے رشوت لینے کے لیے اسے بیوقوف بنایا، اور 80 روپے کا فرد 12000 میں دیا اور وقت علیحدہ برباد کیا۔

دوسرا واقعہ بھی ایک پٹواری صاحب کا ہے جن کی ذاتی غلطی کی وجہ سے ایک صاحب کے فرد کے خسروں اور رقبہ میں فرق آ گیا۔ جب وہ شخص بینک سے قرضہ لینے آیا تو اس شخص کے کاغذات کی چھان بین کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ فرد کے خسروں اور رقبہ میں فرق ہے۔

اس درخواست گزار کو بلوا کر مذکورہ غلطی کے بارے میں مطلع کیا گیا اور اس کو پٹواری سے فرد ٹھیک کروا کر لانے کا کہا گیا۔ جب وہ شخص اس پٹواری کے پاس گیا تو پتہ چلا کہ مذکورہ پٹواری کی ٹرانسفر ہو چکی ہے، اور اس کی جگہ ایک نیا پٹواری آچکا ہے۔ اس پٹواری نے خسروں اور رقبہ کو ٹھیک کرنے کے لیے 1 لاکھ روپے رشوت طلب کی۔

اس شخص نے تحصیلدار سے لے کر ڈی سی او تک سب کو درخواست دی لیکن کوئی شنوائی نہ ہو سکی۔ سب نے اسے پٹواری کے پاس بھیجا کہ وہ ہی یہ مسئلہ حل کر سکتا ہے اور پٹواری رشوت لیے بغیر یہ مسئلہ حل کرنے کے لیے تیار نہ تھا۔

تھک ہار کر اس شخص نے قرضہ لینے کا فیصلہ ترک کر دیا اور فرد جوں کا توں رہا۔ ایک سال بعد اس شخص کو پیسوں کی پھر اشد ضرورت محسوس ہوئی، تو انہوں نے مکان بیچنے کا فیصلہ کیا لیکن اس بار بھی خسروں کی خرابی آڑے آ گئی۔

انہوں نے پٹواری کو ایک لاکھ دینے کا فیصلہ کیا۔ لیکن جیسے ہی پٹواری کو پتہ چلا کہ اس شخص کو پیسوں کی اشد ضرورت ہے، تو اس نے 5 لاکھ طلب کر لیے۔ خیر لے دے کر 3 لاکھ میں معاملہ طے ہوا، اور یوں ایک پٹواری کی غلطی کے لیے ایک شریف شہری کو 3 لاکھ ادا کرنے پڑے۔ ذہنی کوفت علیحدہ ہوئی، اور اگر اسے بروقت قرضہ مل جاتا تو شاید اس کا مکان بھی بکنے سے بچ جاتا۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس پٹواری کو اس کی سزا ملتی اور اس کی محکمانہ کارروائی ہوتی، لیکن بد قسمتی سے پٹواری بھی ایس ایچ او کی طرح سیاست دانوں کا بے حد چہیتا ہوتا ہے، اور ان کے خلاف بھی کارروائی ممکن نہیں ہوتی۔ اسسٹنٹ کمشنر اور ڈی سی او کے ماتحت ہونے کے باوجود بڑے بڑے سی ایس پی افسران ان پر ہاتھ ڈالنے سے کتراتے ہیں۔

تیسرا اور آخری واقعہ بھی محکمہ مال کے ہی ایک دفتر کا ہے، جہاں عام طور پر زمین کے انتقال کے کاغذات تیار ہوتے ہیں۔ اس موقع پر زمین خریدنے والا اور بیچنے والا دونوں پیش ہوتے ہیں۔ مجھے بھی بینک کے نام زمین مارگیج کروانے کے سلسلے میں جانا پڑتا تھا، اور وہاں کسی نہ کسی کے زمین کے کاغذات تیار ہو رہے ہوتے تھے۔

اس دفتر میں ایک ریڈر صاحب تھے، جن کی عادت تھی کہ جب بھی وہاں کوئی پلاٹ یا مکان بکتا تو اس کے کاغذات تیار کرنے کے بعد وہ دونوں پارٹیوں سے سرکاری فیس کے علاوہ 5,5 ہزار طلب کرتے، جس کا مقصد وہ دوپہر کا کھانا بتاتے تھے۔ کیونکہ یہ روایت خاصی پرانی تھی، لہٰذا دونوں پارٹیاں اسے بھی سرکاری فیس سمجھ کر بخوشی ادا کر دیتیں، اور وہ دس ہزار ریڈر صاحب کے خزانے میں جمع ہو جاتے۔

ایک دن میں نے فیصلہ کیا کہ پتہ لگاؤں کہ آخر ریڈر صاحب اس دوپہر کے کھانے میں آخر دس ہزار کا کیا کھاتے ہیں، تو پتا چلا کہ باہر کھڑی ریڑھی سے دس روپے کے چنے، اور خادمِ اعلیٰ کی دو روپے کی روٹی۔ یوں روزانہ کی سات آٹھ رجسٹریاں ہو جاتی تھیں، جس سے ریڈر صاحب کو روزانہ کا تقریباً 80,000 مل جاتا تھا، اور یہ وہ آمدن تھی جو بالکل "جائز" تھی۔ اس کے علاوہ ناجائز کام کے وہ کتنے پیسے طلب کرتے تھے، اس کے بارے میں کوئی اندازہ نہیں۔

سیاست دان پٹواریوں سے غریب لوگوں کی زمینیں ہتھیانے کا کام بھی لیتے ہیں، اور قبضہ گروپوں کی آشیرباد بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر ہم اسے بڑے تناظر میں دیکھیں، تو ہمیں یہ اندازہ ہوگا کہ ریوینو ڈیپارٹمنٹ کے بڑے افسران، تعلقہ میونسپل اتھارٹی (ٹی ایم اے) اور دیگر عوامی مسائل حل کرنے والے محکمے بھی اسی کیٹگری میں آتے ہیں۔

یوں ان تینوں کے گٹھ جوڑ سے پاکستانی سیاست خوب چمکتی ہے اور پھر جب یہ تینوں کرپشن کرتے ہیں، تو سیاست دان ان کو بچانے کے لیے سینہ سپر ہو جاتے ہیں۔

ان لوگوں کو اپنی من مانیاں کرنے کا موقع اس لیے ملتا ہے کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ سب ہی سیاستدان ان پر انحصار کرتے ہیں، اور یوں ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی اصلاحات لائی جائیں، کہ عام لوگ بھی اس طرح کے لوگوں کی چیرہ دستیوں سے محفوظ ہو سکیں۔ زمینوں کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کر کے اور پولیس کلچر میں اصلاحات لا کر عوام کو ان لوگوں کے چنگل سے آزادی دلائی جا سکتی ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی ڈالے گا کون، اور ڈالے گا بھی کیوں؟

احمد عثمان

احمد عثمان نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے آئی ٹی میں ماسٹرز کیا ہے.

وہ سیاسیات، سماجی مسائل، اور ٹیکنولاجی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: ahmad_usman100@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (8) بند ہیں

muhammad amjad May 15, 2015 04:35pm
very good mr. Ahmed
Adil Mansoor May 15, 2015 04:50pm
its painfully true = Allah raham farmay -Amen
نجیب احمد سنگھیڑہ May 15, 2015 05:31pm
اصل میں کرپشن نے معاشرہ کی جڑوں کو جکڑ رکھا ہے اور کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جس میں عوام کو بغیر رشوت اور سفارش کے کچھ ریلیف مل سکے۔ کرپشن کی وجہ تعلیم بغیر مقصد کے حاصل کرنا ہے۔ اگر تعلیم کو ہم اپنی روز مرہ زندگی میں نافذ کریں تو کرپشن ازخود ختم ہو جائے گی۔ تعلیمی سسٹم طلباء کو ایک اچھا اور ہمدرد اور انسان دوست بنانے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔
faisal May 15, 2015 06:07pm
Good 1 keep this up sir....
khalid May 15, 2015 06:33pm
aap ny sub kuch such lekha hy....magr main samjhta hoon kuch bhe theek nahi hoga....jahaan zalim hkomraan hoon whaan esa he hota hy....en hokmraano sy nejaat nahi mel skti
Hamza May 15, 2015 06:52pm
keep it up man!!
Naveed Metlo May 15, 2015 08:08pm
Great Article & Bitter Truth of our society unfortunately.
Ahmad Raza May 16, 2015 10:20am
True....

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024