تعصب کی عینک اتار پھینکیں
جب سے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کا اعلان ہوا ہے، عجب تماشہ شروع ہو گیا ہے۔ سب اپنے اپنے ذہن کے مطابق مطالبات و تشریحات میں مصروف ہیں۔
پہلا مسئلہ ہی یہی ہے کہ ہر کوئی اسے ایک ایسی سڑک سمجھ رہا ہے، جو جہاں سے گزرے گی، خود بخود ترقی شروع کردے گی۔ لوگوں کے اذہانِِ عالیہ میں یہی بات ہے کہ اگر یہ ‘سڑک’ اس کے صوبے، شہر، محلے اور گلی سے گزرے گی، تو اس خطے کی قسمت ہی بدل جائے گی، چنانچہ ہر کوئی اس سے اپنے علاقے کی ترقی کی امیدیں لگائے ہوئے ہے۔
انٹرنیٹ پر موجود نقشے بتاتے ہیں کہ موٹروے روٹ گوادر، تربت، آواران، کراچی، حیدرآباد، رتوڈیرو، راجن پور، جامپور، ڈیرہ غازی خان، ملتان، لاہور، پشاور، حویلیاں، اور ایبٹ آباد سے ہوتا ہوا گزرے گا، جبکہ ہائی وے قریبی شہروں کو مین روٹ سے منسلک کریں گے، اور پھر چین سے وسط ایشیا تک روٹ جائے گا۔
— گرافک بشکریہ pmln.us |
دنیا اس منصوبے کو گیم چینجر کہہ رہی ہے، لیکن ہمارے سیاستدانوں اور صحافیوں نے لسانی اور علاقائی تعصب کو ہوا دینے کے ساتھ ساتھ مفاد پرست و سفارشی تجزیہ نگاری بھی شروع کر رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعصب کی عینک لگا کر ہمیں گوادر، تربت، کوئٹہ پاکستان سے باہر؛ حیدرآباد اور رتو ڈیرو پنجاب میں، اور ڈیرہ غازی خان، راجن پور، اور ملتان بھی تخت لاہور کا حصہ دکھائی دے رہے ہیں۔
کئی دن سے اس کے روٹ پر شور و غوغا ہو رہا ہے۔ تقریباً ہر جماعت ہی کسی نہ کسی نقطے پر اس سے نالاں نظر آ رہی ہے، اور مطالبے کر رہی ہے کہ روٹ ان کی مرضی کے مطابق تشکیل دیا جائے۔
چھوٹی چھوٹی صوبائی جماعتوں سے گلا نہیں لیکن کچھ ہی دن پہلے ہی ایک قومی جماعت کے لیڈر بھی ایک ٹی وی پروگرام میں اصرار کرتے رہے کہ اقتصادی راہداری کا روٹ ان کے شہر میانوالی سے گزرنا چاہیے۔ یہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ قومی سوچ ہوتی ہے؟ صرف آبائی حلقہ ہی قومی مسئلہ؟
پڑھیے: چین کی نئی شاہراہِ ریشم: پاکستان کا فائدہ کتنا؟
ایک معزز صحافی نے تو انتہا کر دی۔ ان کےایک دوست میانوالی میں رہتے ہیں۔ وہاں کی پسماندگی کا واحد حل کوریڈور روٹ کا وہاں سے گزرنا بتا دیا۔ موصوف فرماتے ہیں کہ میانوالی اور جنوبی پنجاب کو محروم رکھا گیا۔ شاید بھول گئے ہوں گے کہ راجن پور، جامپور، ڈیرہ غازی خان، خانیوال، وہاڑی، اور ملتان مجوزہ موٹروے پر آتے ہیں اور جنوبی پنجاب کا حصہ ہی ہیں۔
اب ہمیں عقل کے دریچے کھول لینے چاہیئں۔ یہ ایک سڑک نہیں، بلکہ اکنامک روٹ اور ہب بننے جا رہا ہے۔ یہ روٹ چھوٹے بڑے ٹکڑوں میں تمام صوبوں سے گزرے گا، اور تمام صوبے اٹھارہویں ترمیم کے بعد کافی خود مختار بھی ہیں۔ تمام صوبائی حکومتوں سے گزارش ہے کہ اسے متنازع بنانے کے بجائے اس بات پر توجہ دیں کہ اس روٹ کی بدولت کیسے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر صوبائی حکومتیں سرمایہ کاروں کی توجہ مبذول کروانے کے لیے دیہی علاقوں سے مین روٹ تک لنک روڈ بنا سکتے ہیں، ٹیکس فری انڈسٹریل زون بنا سکتے ہیں، اپنی صلاحیتیں استعمال کرتے ہوئے سستی بجلی بنا کر سرمایہ کاروں کو بجلی کی سبسڈی دے سکتے ہیں۔
سب سے اہم افرادی قوت ہے۔ اگر صوبے وقت سے پہلے تیاری کرلیں، اور اپنی عوام کو فنی تربیت فراہم کریں، تو یقیناً آنے والا وقت صوبے کی عوام کے لیے بہتر روزگار لائے گا۔
— گرافک بشکریہ WSJ |
مڑ کر ذرا پچھلے دس سال دیکھیں، تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ دہشتگردی، بے انتہا کرپشن، بجلی کا شدید بحران، ملک کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ، دہشتگردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے باوجود بین الاقوامی طور پر تنہائی، انٹرنیشنل کرکٹ سے لے کر سرمایہ کاروں تک کا سکیورٹی پر عدم اعتماد، کیا نہیں ہوا ہمارے ملک کے ساتھ۔
پڑھیے: 'روٹ کی تبدیلی کسی صورت قبول نہیں'
اگر اس حکومت نے حالات قدرے بہتر کر ہی لیے ہیں، اور سرمایہ کاری کا رخ پاکستان کی طرف ہو ہی گیا ہے، تو اس موقع کو غنیمت جانیں، اور جو کام ہمارے ذمہ ہیں، وہ کریں۔ ضرورت صرف تعصب کی عینک اتارنے کی ہے اور پھر ہمیں پاکستان نظر آنا شروع ہو جائے گا۔
آصف علی زرداری صاحب کا یہ اعلان کہ اس پروجیکٹ کو متنازع نہیں ہونے دیا جائے گا، اور موجودہ حکومت کے ساتھ مل کر اسے آگے بڑھایا جائے گا، خوش آئند ہے۔ موجودہ دور میں اسی قومی سوچ کی شدید ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ذاتی بغض و عناد میں ملکی نقصان کر بیٹھیں۔ آئیے مل کر ایک دوسرے کے ساتھ چل کر ملکی ترقی کی بنیاد رکھیں۔۔
تبصرے (13) بند ہیں