بدتمیز دل سبین
سبین اپنی زندگی میں خطرات سے کھیلتی تھیں، اور ان کی زندگی کا اختتام بھی خطرات سے کھیلتے ہوئے ہی ہوا۔
اس رات انہیں دی سیکنڈ فلور (ٹی ٹو ایف) میں بلوچستان کے مسئلے پر گفتگو سے کوئی نہیں روک سکتا تھا، کیونکہ وہ تھیں ہی اتنی بہادر۔ ان کا مقصد ہی یہی تھا کہ توجہ سے محروم لوگ، جن کے پاس اپنی آواز اٹھانے کے لیے کوئی پلیٹ فارم نہ ہو، وہ جن کی آواز، جن کی موسیقی، جن کا آرٹ ان سنا اور ان دیکھا ہو، یا جن کی جدوجہد اہمیت حاصل نہیں کر سکی ہو، یا جن لوگوں کو اعتماد کی ضرورت ہو، ان کے لیے ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جائے، جہاں سے وہ اپنی کامیابی کی منزل تک آسانی سے پہنچ سکیں۔
ہزاروں لوگ ایسے ہیں جن کے کریئرز کا آغاز سبین کی وجہ سے ممکن ہو پایا ہے۔ وہ ایسی تھیں جنہیں پسند کیے بغیر کوئی بھی نہیں رہ سکتا تھا، چاہے وہ کتنی ہی باغی طبیعت کی کیوں نہ تھیں۔ میں نے انہیں کئی بار کہا تھا کہ وہ میری ہی طرح 'بدتمیز' ہیں، اور ہم دونوں کو اس بات پر فخر تھا۔
وہ پاپ کلچر میں مقامی آرٹ کو متعارف کروانا چاہتی تھیں، ایک ایسی جگہ بنانا چاہتی تھیں، جہاں آزادانہ بحث اور اظہارِ خیال کیا جا سکے۔
انہیں ایک چیز سب سے زیادہ پسند تھی، اور وہ تھے سیاسی جلسے، چاہے وہ کسی کے بھی ہوں، کہیں بھی ہوں، کسی بھی وقت ہوں۔ مظاہروں کا جوش و جذبہ ان کے الفاظ میں ان کی لائف لائن تھا۔
ایک رات پہلے ہی وہ جناح گراؤنڈ چلنے کے لیے اصرار کر رہی تھیں۔ ان کے شدید اصرار پر میں نے انہیں کہا میں اب واٹس ایپ گروپ میں ان کو میوٹ کر رہی ہوں، کیونکہ میں این اے 246 کی خبروں سے اب تنگ آچکی تھی۔
سبین کو ایپل کی پراڈکٹس، اپنی بِلی 'جادو'، اور برطانوی اداکار ہیو لاری پسند تھے۔ وہ اور میری بہن روزانہ ہیو لاری کی کئی تصاویر کا تبادلہ کرتے تھے۔ اور مجھے یاد ہے کہ وہ کس طرح ٹی وی شوز کے بارے میں ایسے بات کرتی تھیں جیسے کہ وہ اصلی کہانیاں ہوں۔
دی سیکنڈ فلور ایسی جگہ تھی، جہاں سے واپس آنے پر انسان نت نئے خیالات سے بھرا ہوا محسوس کرتا تھا، یا کچھ کرنے کا جذبہ لے کر آتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ کری ایٹو کراچی فیسٹیول، جو کہ ٹی ٹو ایف کو باقی رکھنے کے لیے درکار فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے منعقد کیا گیا تھا، میں وہ کتنی خوش و خرم نظر آ رہی تھیں۔
رانیہ، ماروی، صنم، ٹی ٹو ایف میں ان کی باقی ٹیم، میں، اور کئی دیگر لوگ ایک اور ایونٹ 'دل پھینک' کی تیاریوں میں مصروف تھے، جو کہ لندن کے ساؤتھ بینک سینٹر کے الکیمی فیسٹیول میں 21 مئی کو منعقد ہوگا۔
اس گیلری کے لیے کراچی کو ایک نئے روپ میں پیش کرنا تھا، اور ہم سب کے پاس ہی پراجیکٹس تھے۔ میرا پراجیکٹ ایک ویڈیو انسٹالیشن تھی، جو کچھ خاص نہیں تھا، لیکن مجھے یاد ہے کہ کس طرح سبین نے اس کو مزید بہتر اور متاثر کن بنانے میں مدد دی۔ ان کا رویہ تحکمانہ کے بجائے دوستانہ تھا، اور اب جب میں اس کے بارے میں سوچتی ہوں، تو مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتی۔
ان کو میرا آخری میسیج اس رات 8:45 پر تھا۔ میں نے انہیں کہا تھا کہ میں پراجیکٹ کے ٹائٹل سے متفق ہوں۔ اس میسیج پر نیلے ٹِک نہیں ہیں، اور اب کبھی نہیں ہوں گے۔
وہ کبھی نہیں جان پائیں گی کہ میں نے انہیں ایک بڑا سا مسکراتا ہوا چہرہ بھیجا تھا، اور کہا تھا کہ میں ان کے تجویز کردہ ٹائٹل سے متفق ہوں۔
ہسپتال کی راہداری میں بھاگتے ہوئے میں نے اپنے دوستوں کو وہاں دیکھا۔ مجھے امید تھی کہ سبین بچ گئی ہوں گی، اور مسکراتے ہوئے ہم سے ملیں گی۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ مشہور ہونے کے لیے گولی کھانا ضروری ہے۔ لیکن ان کے چلے جانے نے ہمارا دل توڑ دیا۔
ڈان ڈاٹ کام کے سابق ایڈیٹر مصدق سانول میرے استاد تھے۔ ان کے جانے کا دکھ، اور اب سبین کے جانے کا دکھ، یہ میرے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔
کراچی ہمارا گھر ہے، اور اس گھر سے اب ایک اور دوست، ایک آزاد روح جا چکی ہے۔
— تصاویر بشکریہ عزیز و اقارب