جناح کے ساتھ بھی دھوکہ؟
عنوان پڑھ کر آپ چونک سے گئے ہوں گے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ بانی پاکستان کے ساتھ پاکستان میں کوئی دھوکہ ہو جائے؟ لیکن ایسا ہوا ہے۔ کراچی کے ایک چوراہے پر جناح فاؤنٹین کے نام سے ایک فوارہ نصب کیا گیا تھا لیکن اب اس فوارے کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جناح فاؤنٹین کا افتتاح 14 اگست 1997 کو کیا گیا تھا، لیکن نہ جانے کب اس کا نام تبدیل کر دیا گیا۔ اب اس کا نام سرل پاکستان لمیٹڈ (Searle Pakistan Limited) کی جانب سے مریم عبداللہ اور ارشد عبداللہ سے منسوب کیا گیا ہے۔
اِس فاؤنٹین کی کہانی آگے چل کر بیان کریں گے۔ جناح کے ساتھ یہ واحد دھوکہ نہیں ہوا۔ کچھ اور بھی ہوئے ہیں جن میں سے ایک کی کہانی معروف قانون دان بیرسٹر عزیزاللہ شیخ کی کتاب میں مذکور ہے۔ اس کتاب کے بارے میں ہمیں روزنامہ ڈان کے رپورٹر اِمتیاز علی نے بتایا تھا۔ بیرسٹرعزیز اللہ شیخ اپنی یادداشتوں اور دستاویزات پر مبنی کتاب ”Story Untold“ (ان کہی کہانی) کے صفحہ نمبر 124 پر لکھتے ہیں کہ:
”ایک دن ہم سیاسی دھوکے بازیوں پر گفتگو کر رہے تھے جو اخباروں کی شہہ سر خیاں بنی ہوئی تھیں۔ جیسے ہی میں نے موضوع کے حوالے سے گفتگو ختم کی، جسٹس طیب جی نے ایک چشم کشا کہانی اس وعدے پر بیان کی کہ میں ان کے انتقال سے قبل اس حوالے سے کوئی انکشاف نہیں کروں گا۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے، تو میں یہ کہانی ان کی اپنی زبانی بیان کرنا چاہوں گا۔
”جناح اور میں ایک ہی وقت میں بمبئی میں وکالت کرتے تھے۔ اس وقت تک میری تقرری بحیثیت جج برطانوی راج کی طرف سے سندھ چیف کورٹ میں نہ ہوئی تھی۔ تقسیم ہند کا اعلان ہوا۔ جناح کی جانب سے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل ہونے کے فیصلے کا اعلان بھی ہوا۔ وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن صوبائی گورنروں اور چیف جسٹسز کو تقسیم کے فارمولے کے حوالے سے معلومات دینے کے لیے اجلاس منعقد کر رہے تھے۔
"اسی طرح کے اجلاس میں شرکت کے لیے میں اس وقت دِلی میں تھا۔ میں نے سوچا مجھے جناح سے ملنا چاہیے۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ ہم نے کچھ وقت کے لیے پرانی یادوں کو تازہ کیا۔ جب میں رخصت ہونے لگا تو جناح نے مجھے کچھ دیر رکنے کے لیے کہا۔ ایک مختصر وقفے کے بعد جناح نے مجھے کہا کہ میری حلف برداری کراچی میں تم کرو گے۔ میں نے جواباً کہا کہ یہ میرے لیے باعث افتخار ہوگا۔
"ٹھیک 25 دن بعد رجسٹرار جے ڈیسا نے مجھے بتایا کہ مستقبل کے محکمہ خارجہ کے افسران عدالتی وقت کے بعد مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ان کے ہمراہ ایک درزی بھی تھا جس نے ایک گاؤن کے لیے میرا ناپ لیا جو ایسے خاص مواقع کے لیے لندن میں تیار کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد مجھے کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔ حلف برداری سے چند دن قبل غالباً یہ دس یا گیارہ اگست کی بات ہے، میں نے ڈیسا سے کہا کہ وہ اس حوالے سے معلومات حاصل کریں۔
اس نے مجھے جواباً بتایا کہ پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر عبدالرشید قائد اعظم سے حلف لیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم حلف برداری کی تقریب کی تصاویر کو غور سے دیکھو تو جو گاؤن انہوں (جسٹس سر عبدالرشید) نے پہنا ہوا ہے، وہ تمہارے ناپ کا ہے۔ نوجوان اس بات کا ہمیشہ خیال رکھو کہ دغابازی کا آغاز پاکستان بننے سے قبل ہی ہو چکا تھا۔“
پڑھیے: پاکستانی تدریسی کتب میں شامل بڑے جھوٹ
یہ تو تھا جناح کے ساتھ غالباً پہلا دھوکہ۔ دوسرا اس وقت ہوا جب جناح کی 11 اگست کو کی جانے والی تقریر کو سنسر کرنے کی کوشش کی گئی۔
معروف صحافی، مورخ، اور دانشور ڈاکٹر مہدی حسن نے بتایا کہ جب 11 اگست کی تقریر اخبار کے دفتر پہنچی تو اس وقت ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کو محکمہ اطلاعات کی جانب سے ہدایت کی گئی کہ اس تقریر کے کچھ حصے جو خصوصاً اقلیتوں کے حوالے سے تھے، وہ شائع نہ کیے جائیں۔ جب الطاف حسین نے اس معاملے کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ ہدایات سیکرٹری جنرل چوہدری محمد علی، جو بعد ازاں پاکستان کے وزیرِاعظم بنے، ان کی جانب سے جاری کی گئی تھیں۔
چوہدری محمد علی یہ سمجھتے تھے کہ جناح کی تقریر کے مذکورہ حصے دو قومی نظریے کی نفی کرتے ہیں۔ بہرحال، یہ تقریر شائع ہوئی اور آج تک سخت گیر نظریات کے حامل لوگوں کے گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہے۔
اب بات کرتے ہیں جناح فاؤنٹین کی۔ اس فاؤنٹین سے کچھ فاصلے پر تین تختیاں لگی ہوئی ہیں، جو موٹر سائیکلوں کے درمیان گھری ہوئی ہوتی ہیں۔ ان تختیوں پر ذیل میں دی گئی عبارت درج ہے:
”قائداعظم کی شخصیت اور عظیم کاوشوں کے اعزاز میں لگایا گیا جناح فاؤنٹین پاکستانی عوام کی پہچان اور ان کے جذبہ یکجہتی کی نمائندگی کرتا ہے۔ جناح فاؤنٹین کے حصے مختلف چیزوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اس فاؤنٹین میں ”چار بازو“ چاروں صوبوں کے لوگوں اور ان کی ثقافت کو بیان کرتے ہیں۔ ان کے درمیان لگا فوارہ یہاں کے لوگوں کے اتحاد کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس پورے ڈھانچے پر سے بہتا ہوا پانی ایک پختہ قوم کے قیام میں انتھک محنت کی روانی کو ظاہر کرتا ہے۔
مزید پڑھیے: دو قومی نظریہ اور ہندوستانی اقلیتیں
سبز حصے پاکستان کی ساخت اور اس کی زرعی معیشت و ثقافت کو بیان کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بہتر ماحول اور ترقی کے عزم کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ جناح فاؤنٹین کا افتتاح وزیرِ اعلیٰ سندھ لیاقت علی جتوئی نے 14اگست 1997 کو کیا۔ جناح فاؤنٹین پاکستان کے جشنِ آزادی کی گولڈن جوبلی کی خوشی میں آئی سی آئی پاکستان لمیٹڈ کی جانب سے 1997 کو نصب کیا گیا۔“
جہاں تک چار میناروں کا تعلق ہے، تو اب یہ چار مینار نہیں رہے بلکہ 12 مینار ہوگئے ہیں۔ شاید نام کی تبدیلی کے ساتھ اس نقشے میں تبدیلی کی وجہ یہ ہو کہ اب پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ دن بہ دن زور پکڑ رہا ہے۔ جناح کے نام سے منسوب فوارہ ایک بڑے خاندان کے نام سے تبدیل کر دیا گیا۔ نام بدلنے میں ہم پاکستانی تو ویسے ہی خاصی مہارت رکھتے ہیں لیکن کیا ہم اس حد تک بھی آگے بڑھ سکتے ہیں کہ جناح کے ہی نام سے منسوب یادگار کا نام بھی تبدیل کر دیں؟
یہ یادگار گورنر ہاؤس اور ٹرینٹی چرچ کے سنگم پر واقع ہے۔ اب اس کا نام صرف فوارہ چوک ہے۔ اس چوک سے آگے ریڈ زون کا آغاز ہوتا ہے۔ سندھ بھر سے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے مظاہرین بھی مظاہروں اور ریلی کا آغاز اس چوک سے کرتے ہیں۔ کسی کو سابقہ امریکی قونصلیٹ پر مظاہرہ کرنا ہو، یا وزیرِ اعلیٰ ہاؤس جانا چاہتا ہو، اس کا آغاز یہیں سے کیا جاتا ہے۔
اس چوک کے اطراف میں کنٹینرز ہمیشہ رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہنگامی صورتِ حال میں سڑک بند کرنے کے لیے یہ کنٹینرز رکھ دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں دو ”آبی توپیں“ (Water Canon) بھی کھڑی ہوتی ہیں، جو پانی کی تیز دھار سے مظاہرین کو منتشر کرتی ہیں۔ یہ توپیں اندھی ہوتی ہیں اور مرد اور عورت میں فرق نہیں کرتیں۔ پانی کی تند و تیز دھار لگنے کے بعد مرد مظاہرین جائے پناہ تلاش کرتے رہتے ہیں، اور ان کے جسم پر کپڑے کپڑے نہیں رہتے۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ جناح فاؤنٹین کا نام اس لیے تبدیل کیا گیا ہو تاکہ اس جگہ پر اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کرنے والوں کے ساتھ یہ سب کرتے ہوئے 'جناح کے سامنے' شرمندگی نہ اٹھانی پڑے؟
— تمام تصاویر بشکریہ اختر بلوچ
تبصرے (19) بند ہیں