• KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm
  • KHI: Asr 4:12pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:04pm
  • ISB: Asr 3:26pm Maghrib 5:04pm

جناح کے ساتھ بھی دھوکہ؟

شائع April 27, 2015
— تصویر اختر بلوچ
— تصویر اختر بلوچ
— تصویر اختر بلوچ
— تصویر اختر بلوچ

عنوان پڑھ کر آپ چونک سے گئے ہوں گے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ بانی پاکستان کے ساتھ پاکستان میں کوئی دھوکہ ہو جائے؟ لیکن ایسا ہوا ہے۔ کراچی کے ایک چوراہے پر جناح فاؤنٹین کے نام سے ایک فوارہ نصب کیا گیا تھا لیکن اب اس فوارے کا نام تبدیل کر دیا گیا ہے۔ جناح فاؤنٹین کا افتتاح 14 اگست 1997 کو کیا گیا تھا، لیکن نہ جانے کب اس کا نام تبدیل کر دیا گیا۔ اب اس کا نام سرل پاکستان لمیٹڈ (Searle Pakistan Limited) کی جانب سے مریم عبداللہ اور ارشد عبداللہ سے منسوب کیا گیا ہے۔

اِس فاؤنٹین کی کہانی آگے چل کر بیان کریں گے۔ جناح کے ساتھ یہ واحد دھوکہ نہیں ہوا۔ کچھ اور بھی ہوئے ہیں جن میں سے ایک کی کہانی معروف قانون دان بیرسٹر عزیزاللہ شیخ کی کتاب میں مذکور ہے۔ اس کتاب کے بارے میں ہمیں روزنامہ ڈان کے رپورٹر اِمتیاز علی نے بتایا تھا۔ بیرسٹرعزیز اللہ شیخ اپنی یادداشتوں اور دستاویزات پر مبنی کتاب ”Story Untold“ (ان کہی کہانی) کے صفحہ نمبر 124 پر لکھتے ہیں کہ:

”ایک دن ہم سیاسی دھوکے بازیوں پر گفتگو کر رہے تھے جو اخباروں کی شہہ سر خیاں بنی ہوئی تھیں۔ جیسے ہی میں نے موضوع کے حوالے سے گفتگو ختم کی، جسٹس طیب جی نے ایک چشم کشا کہانی اس وعدے پر بیان کی کہ میں ان کے انتقال سے قبل اس حوالے سے کوئی انکشاف نہیں کروں گا۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں رہے، تو میں یہ کہانی ان کی اپنی زبانی بیان کرنا چاہوں گا۔

”جناح اور میں ایک ہی وقت میں بمبئی میں وکالت کرتے تھے۔ اس وقت تک میری تقرری بحیثیت جج برطانوی راج کی طرف سے سندھ چیف کورٹ میں نہ ہوئی تھی۔ تقسیم ہند کا اعلان ہوا۔ جناح کی جانب سے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل ہونے کے فیصلے کا اعلان بھی ہوا۔ وائسرائے ہند لارڈ ماونٹ بیٹن صوبائی گورنروں اور چیف جسٹسز کو تقسیم کے فارمولے کے حوالے سے معلومات دینے کے لیے اجلاس منعقد کر رہے تھے۔

"اسی طرح کے اجلاس میں شرکت کے لیے میں اس وقت دِلی میں تھا۔ میں نے سوچا مجھے جناح سے ملنا چاہیے۔ وہ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ ہم نے کچھ وقت کے لیے پرانی یادوں کو تازہ کیا۔ جب میں رخصت ہونے لگا تو جناح نے مجھے کچھ دیر رکنے کے لیے کہا۔ ایک مختصر وقفے کے بعد جناح نے مجھے کہا کہ میری حلف برداری کراچی میں تم کرو گے۔ میں نے جواباً کہا کہ یہ میرے لیے باعث افتخار ہوگا۔

"ٹھیک 25 دن بعد رجسٹرار جے ڈیسا نے مجھے بتایا کہ مستقبل کے محکمہ خارجہ کے افسران عدالتی وقت کے بعد مجھ سے ملنا چاہتے ہیں۔ ان کے ہمراہ ایک درزی بھی تھا جس نے ایک گاؤن کے لیے میرا ناپ لیا جو ایسے خاص مواقع کے لیے لندن میں تیار کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد مجھے کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔ حلف برداری سے چند دن قبل غالباً یہ دس یا گیارہ اگست کی بات ہے، میں نے ڈیسا سے کہا کہ وہ اس حوالے سے معلومات حاصل کریں۔

اس نے مجھے جواباً بتایا کہ پنجاب ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سر عبدالرشید قائد اعظم سے حلف لیں گے۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر تم حلف برداری کی تقریب کی تصاویر کو غور سے دیکھو تو جو گاؤن انہوں (جسٹس سر عبدالرشید) نے پہنا ہوا ہے، وہ تمہارے ناپ کا ہے۔ نوجوان اس بات کا ہمیشہ خیال رکھو کہ دغابازی کا آغاز پاکستان بننے سے قبل ہی ہو چکا تھا۔“

پڑھیے: پاکستانی تدریسی کتب میں شامل بڑے جھوٹ

یہ تو تھا جناح کے ساتھ غالباً پہلا دھوکہ۔ دوسرا اس وقت ہوا جب جناح کی 11 اگست کو کی جانے والی تقریر کو سنسر کرنے کی کوشش کی گئی۔

معروف صحافی، مورخ، اور دانشور ڈاکٹر مہدی حسن نے بتایا کہ جب 11 اگست کی تقریر اخبار کے دفتر پہنچی تو اس وقت ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین کو محکمہ اطلاعات کی جانب سے ہدایت کی گئی کہ اس تقریر کے کچھ حصے جو خصوصاً اقلیتوں کے حوالے سے تھے، وہ شائع نہ کیے جائیں۔ جب الطاف حسین نے اس معاملے کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ ہدایات سیکرٹری جنرل چوہدری محمد علی، جو بعد ازاں پاکستان کے وزیرِاعظم بنے، ان کی جانب سے جاری کی گئی تھیں۔

چوہدری محمد علی یہ سمجھتے تھے کہ جناح کی تقریر کے مذکورہ حصے دو قومی نظریے کی نفی کرتے ہیں۔ بہرحال، یہ تقریر شائع ہوئی اور آج تک سخت گیر نظریات کے حامل لوگوں کے گلے کی ہڈی بنی ہوئی ہے۔

اب بات کرتے ہیں جناح فاؤنٹین کی۔ اس فاؤنٹین سے کچھ فاصلے پر تین تختیاں لگی ہوئی ہیں، جو موٹر سائیکلوں کے درمیان گھری ہوئی ہوتی ہیں۔ ان تختیوں پر ذیل میں دی گئی عبارت درج ہے:

”قائداعظم کی شخصیت اور عظیم کاوشوں کے اعزاز میں لگایا گیا جناح فاؤنٹین پاکستانی عوام کی پہچان اور ان کے جذبہ یکجہتی کی نمائندگی کرتا ہے۔ جناح فاؤنٹین کے حصے مختلف چیزوں کی نشان دہی کرتے ہیں۔ اس فاؤنٹین میں ”چار بازو“ چاروں صوبوں کے لوگوں اور ان کی ثقافت کو بیان کرتے ہیں۔ ان کے درمیان لگا فوارہ یہاں کے لوگوں کے اتحاد کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس پورے ڈھانچے پر سے بہتا ہوا پانی ایک پختہ قوم کے قیام میں انتھک محنت کی روانی کو ظاہر کرتا ہے۔

مزید پڑھیے: دو قومی نظریہ اور ہندوستانی اقلیتیں

سبز حصے پاکستان کی ساخت اور اس کی زرعی معیشت و ثقافت کو بیان کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بہتر ماحول اور ترقی کے عزم کی بھی نشان دہی کرتے ہیں۔ جناح فاؤنٹین کا افتتاح وزیرِ اعلیٰ سندھ لیاقت علی جتوئی نے 14اگست 1997 کو کیا۔ جناح فاؤنٹین پاکستان کے جشنِ آزادی کی گولڈن جوبلی کی خوشی میں آئی سی آئی پاکستان لمیٹڈ کی جانب سے 1997 کو نصب کیا گیا۔“

جہاں تک چار میناروں کا تعلق ہے، تو اب یہ چار مینار نہیں رہے بلکہ 12 مینار ہوگئے ہیں۔ شاید نام کی تبدیلی کے ساتھ اس نقشے میں تبدیلی کی وجہ یہ ہو کہ اب پاکستان میں نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ دن بہ دن زور پکڑ رہا ہے۔ جناح کے نام سے منسوب فوارہ ایک بڑے خاندان کے نام سے تبدیل کر دیا گیا۔ نام بدلنے میں ہم پاکستانی تو ویسے ہی خاصی مہارت رکھتے ہیں لیکن کیا ہم اس حد تک بھی آگے بڑھ سکتے ہیں کہ جناح کے ہی نام سے منسوب یادگار کا نام بھی تبدیل کر دیں؟

یہ یادگار گورنر ہاؤس اور ٹرینٹی چرچ کے سنگم پر واقع ہے۔ اب اس کا نام صرف فوارہ چوک ہے۔ اس چوک سے آگے ریڈ زون کا آغاز ہوتا ہے۔ سندھ بھر سے اپنے مطالبات کی منظوری کے لیے مظاہرین بھی مظاہروں اور ریلی کا آغاز اس چوک سے کرتے ہیں۔ کسی کو سابقہ امریکی قونصلیٹ پر مظاہرہ کرنا ہو، یا وزیرِ اعلیٰ ہاؤس جانا چاہتا ہو، اس کا آغاز یہیں سے کیا جاتا ہے۔

اس چوک کے اطراف میں کنٹینرز ہمیشہ رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہنگامی صورتِ حال میں سڑک بند کرنے کے لیے یہ کنٹینرز رکھ دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں دو ”آبی توپیں“ (Water Canon) بھی کھڑی ہوتی ہیں، جو پانی کی تیز دھار سے مظاہرین کو منتشر کرتی ہیں۔ یہ توپیں اندھی ہوتی ہیں اور مرد اور عورت میں فرق نہیں کرتیں۔ پانی کی تند و تیز دھار لگنے کے بعد مرد مظاہرین جائے پناہ تلاش کرتے رہتے ہیں، اور ان کے جسم پر کپڑے کپڑے نہیں رہتے۔

کہیں ایسا تو نہیں کہ جناح فاؤنٹین کا نام اس لیے تبدیل کیا گیا ہو تاکہ اس جگہ پر اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کرنے والوں کے ساتھ یہ سب کرتے ہوئے 'جناح کے سامنے' شرمندگی نہ اٹھانی پڑے؟

— تمام تصاویر بشکریہ اختر بلوچ

اختر بلوچ

اختر بلوچ سینئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (19) بند ہیں

محمد عادل عزیز Apr 27, 2015 05:40pm
افسوس صد افسوس۔ یہ دھوکا ہم نے جناح کو نہیں خود کو دیا ہے۔
عقیل رانا Apr 27, 2015 06:15pm
بھائی اختر بلوچ کی تحقیق ،تحقیق تو ہے ہی، ساتھ ساتھ تفتیش بھی ہے جو وہ کسی ادارے کے لیے نہیں محض اپنی اور اپنے دوستوں کی تسکین کےلیے کرتے ہیں کہ بات کی تو جائے، کبھی نہ کبھی کسی نا کسی کو شرم بھی آہی جائے گی اور اپنی اقدار کو مٹانے کا اور اسے اپنی مرضی کا نام دینے کے یہ عمل رک ہی جائے گا عقیل رانا
dawar Apr 27, 2015 06:20pm
Thank you Akhtar sb. It is an unfortunate to a nation which wiuld never become nation under different cultures.
Malik USA Apr 27, 2015 09:36pm
Excellent Akhtar Saheb as usual. And so pathetic, what we are doing with our real leader.
Asiya Apr 28, 2015 12:18am
Very unfortunate & an eye opener article by Baloch Sb.
Asiya Apr 28, 2015 12:29am
This nation is so disrespectful to its founder
وقار محمد خان Apr 28, 2015 08:53am
اختر بھائی تحریر اعلیٰ ہے، اگر وضاحت ہوتی کہ محترمہ مریم عبداللہ اور جناب ارشد عبداللہ کون ہیں؟ تو بلاگ کا مزہ دوبالا ہو جاتا۔
dr ghulam rasool Apr 28, 2015 10:29am
asal haqqeqat chupa le hy k quaid-e-azam ko kis ny qatal keya aur aaj un ki nasal kahan hy? kaheen aaj wo humary sahib sardar to nhe?
نعمت خان Apr 28, 2015 12:44pm
بہت اعلیٰ اختربلوچ صاحب! ویسے یہ بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ بابائے قوم نے اپنی قوم کے ساتھ کوئی دھوکہ تو نہیں کیا؟ کیوں کہ 11 سو جگہ پر اسلامی پاکستانی، اسلام کی تجربہ گاہ کی بات کرنے کے بعد 11 اگست کو کچھ اور کہہ گئے اور دائیں بازوں کو یہ ثابت کرنے کے کام پر لگادیا کہ آیا پاکستان کو اسلامی یا سیکولر ہونا چاہیے تھا۔ اور وقار محمد خان کچھ تحقیق خود بھی کرلیا کرو۔ یقین مانیے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
HUSSAIN JEE Apr 28, 2015 01:01pm
jis mulk main apne qaied ko dhoka dia jaey, usey qatal kardiya jaey,us qoum ko esay hi behroopye millenge, jo 68 salon se aik hi bat kartey hen awam ki khidmat awam in leaderon ki khidmat se zinda laash ban chukey hen or leader awam ki khidmat karte karte arab pati,kharab pati ban gaey hen.phir bhi awam ki khidmat ka dawa(ALLAH is qoum ko ba kirdar khidmadgar ab to ata kardey. (Aameen)
YAMIN Apr 28, 2015 02:14pm
This is the EPITOME of a DEGENERATED NATION.Pakistan as a country is negating its roots and identity.LEADERS and the LEAD are dumb driven cattle in a journey of self-destruction.
Nasreen Apr 28, 2015 03:56pm
Excellent ... You gave alot of knowledge.
Jawed Ali Khan. Apr 28, 2015 07:37pm
It was a musical fountain,constructed during Ayub Khan rule also in front of my eyes when i was apprentice in Pakistan Garage(Jaffer chamber) one way lead to(Haveluck road)president house,the other to Angle road, the other side of Victoria road sittuated ,Rex cinema,jaffer chamber,holly Trinity church,Army mess hall,Hotel Metropole etc.
Imtiaz Ali Azad Apr 28, 2015 11:27pm
we had been kept under the democratic, dictatorial cum hypocritical umbrella of brown British it distorted the history.
یمین الاسلام زبیری Apr 29, 2015 04:41am
اختر صاحب کی ایک اوراچھی تحریر۔ فوارے پر کراچی ہی کی ایک پارٹی کا پرچم بھی نہایت بھدے انداز میں لہرارہا ہے۔ اسے ہٹنا چاہیے کہ اچھی قومیں اپنی تعمیرات کو صاف ستھرا رکھتی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اختر صاحب کی کوشش سے شائد کسی کے کان پر جوں رینگ جائے۔
یمین الاسلام زبیری Apr 29, 2015 04:51am
ا@نعمت خان صاحب، اگر اتنی ہی بات ہے جتنی آپ نے کی ہے تو جناح نے کسی کو دھوکہ نہیں دیا۔ انہوں نے اگریہ کہا کہ اسلامی تجربہ ہوگا تو کوئی غلط نہیں کہا، مقصد یہ تھا کہ یہاں کے ۹۰ فیصد مسلمان ساری دنیا کو دکھا دیں گےکہ اسلام میں انصاف ہی انصاف ہے، اور اپنے غیر مذہب بھائیوں کے ساتھ رواداری کیوں کر نبھائی جاتی ہے۔ دائیں بازو والے جناح کے کارنامے کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے کے لیے مختلف باتیں بناتے ہیں، ان کی جناح سے مخالفت کا حال سب کو معلوم ہے
نعمت خان Apr 29, 2015 02:14pm
@یمین الاسلام زبیری میں نے دائیں بائیں بازوں لکھنا تھا غلطی سے صرف دائیں لکھ گیا۔ یقین مانیے مجھے دائیں بائیں، شیعہ، سنی، بریلوی، دیوبندی سب سے چڑ ہے۔ پاکستان کے اسلامی اور غیر اسلامی ہونے پر بحث سے زیادہ اہم بحث یہ ہے کہ یہ ریاست اپنے شہریوں کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں کیوں ناکام ہوا ہے۔ امن کیسے قائم ہوسکتا ہے اور عام آدمی کو ریلیف کیسے مل سکتا ہے۔
Yusuf Awan Apr 29, 2015 02:37pm
@Yameem ul islam sahab! Minorities can get their right only in a true Islamic state otherwise they'll always be mistreated, like now.
یمین الاسلام زبیری Apr 30, 2015 03:43am
@نعمت خان میں آپ کے ساتھ ہوں

کارٹون

کارٹون : 22 دسمبر 2024
کارٹون : 21 دسمبر 2024