میرے والد معین اختر
"میں نوجوان تھا، ادھر ادھر بھٹک رہا تھا، اور مکینک کی اپنی نوکری چھوڑ دی تھی۔ مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہیے، لیکن میرے اندر ایک آواز مجھ سے کہہ رہی تھی، 'دیکھو، جو بھی کرنا، زبردست طریقے سے کرنا۔" — معین اختر
6 ستمبر 1966: ایک دبلا پتلا نوجوان لڑکا پہلی بار ایک ورائیٹی شو میں حصہ لینے کے لیے اسٹیج پر چڑھا۔ چاروں طرف سے طلبا اس پر آوازیں کس رہے تھے، لیکن اس کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات دور دور تک نہیں تھے۔ وہ دھیمے انداز میں مائیک کی جانب بڑھا، اور حاضرین سے درخواست کی کہ اسے اس کا ٹیلنٹ دکھانے کے لیے صرف 10 منٹ دیے جائیں، اور اگر اس دوران کسی کو پسند نہیں آیا، تو وہ خود اسٹیج سے اتر جائے گا۔ اس نے انتہائی پراعتماد پرفارمنس دی، اور لوگوں نے پلکیں جھپکائے بغیر دیکھا۔ حاضرین میں ساٹھ سالہ شخص بھی ویسے ہی ہنس رہا تھا جیسے کہ کوئی آٹھ سال کا بچہ۔ اور جب 10 منٹ کا مانگا گیا وقت 45 منٹ بعد ختم ہوا، تو ہال تالیوں سے گونج رہا تھا۔
11 مارچ 2011: وہی لڑکا اب ادھیڑ عمر میں ایک بار پھر اسٹیج پر چڑھا، اور حاضرین سے ویسی ہی پرجوش داد وصول کی۔ لیکن یہ اس کی آخری پرفارمنس تھی۔ 'لیجنڈ کے ساتھ ایک شام' نامی اس پروگرام کے آغاز سے پہلے اس نے حاضرین سے کہا تھا کہ وہ صرف 10 منٹ ہی پرفارم کر پائے گا، لیکن ایک بار پھر یہ 10 منٹ 45 منٹ میں ختم ہوئے، کیونکہ اس کے چاہنے والے اس کے الفاظ کے سحر میں جکڑے ہوئے تھے۔
ہر کچھ عرصے بعد اس دنیا میں ایک شخص ایسا آتا ہے، جو اپنے آس پاس موجود ہر چیز کو تبدیل کر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ دیکھنے والے بھی یہ جانتے ہیں کہ ایسے شخص کی موجودگی میں انہیں ضرور کچھ زبردست دیکھنے کو ملے گا۔
اور میرے والد معین اختر کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔
معین اختر کے لفظی معنیٰ 'مددگار ستارہ' کے ہیں۔ اور ان کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے نام کی لاج رکھی۔ دنیا میرے والد کو ایک آرٹسٹ کی حیثیت سے جانتی ہے، جبکہ میں انہیں ایک سخی شخص کے طور پر جانتا ہوں۔
یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کہ میں انہیں اپنے گھر اور انسانیت کی بے لوث خدمت کرتے دیکھتا ہوا بڑھا۔ ہر ضرورت مند شخص کے لیے وہ ایک گمنام مددگار تھے۔ ان کی کئی سخاوتیں ایسی ہیں، جن پر میں پردہ پڑا رہنا چاہتا ہوں، کیونکہ یہی ان کی خواہش تھی۔
لیکن میں ایک بات ضرور کہوں گا، کہ ان میں دوسروں کی مشکلات اور مسائل سمجھنے کی حیرت انگیز صلاحیت تھی۔ وہ لوگوں کی دلجوئی کرتے، ان کے غموں کو اپنا غم سمجھتے، اور ان کا بوجھ تقسیم کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے۔
ان کی کرشماتی اور زندگی سے بھرپور شخصیت کا الفاظ میں احاطہ کرنا ناممکن ہے۔ کھل کر مزاح کرنے والے معین اختر پرجوش، خوش مزاج، میل جول رکھنے والے، اور زندگی کی نفیس چیزوں کا مزہ لینے والے شخص تھے۔ جبکہ اپنے آپ میں خوش رہنے والے معین اختر منکسر، خاموش، تنہائی پسند، اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں خوش رہنے والے شخص تھے۔
مجھے یاد ہے کہ جب بھی وہ گھر پر نہیں ہوتے تھے تو گھر میں کیسی بے ترتیبی ہوا کرتی تھی۔ یہ بے ترتیبی شاید وہ تھی، جو ایک سادہ مزاج معین اختر سے اسٹار معین اختر تک کے سفر میں کہیں رہ گئی تھی۔
اور بار بار ان کا یہ سفر دیکھنا ایک متاثر کن تجربہ تھا۔ گھر میں وہ ایک خاموش اور سنجیدہ شخص تھے، جو بغیر استری کے کپڑوں میں ملبوس، دال چاول کھا رہے ہوتے۔ اورگھر سے باہر نکلتے ہی ان کی چال، اور ان کے بات چیت کا انداز بدل جاتا تھا۔ اگر میچنگ کی جرابیں نہ ہوتیں، تو سوٹ نہیں پہنا جاتا تھا۔ جب بھی وہ گھر سے باہر نکلتے، تو وہ ابو نہیں رہتے، بلکہ مشہور آرٹسٹ معین اختر بن جاتے تھے۔
میرا کمرہ ان کے ساتھ والا ہی تھا، اور میں انہیں روزانہ ہی دیکھا کرتا تھا، لیکن اس کے باوجود ان کی شخصیت ایک میں ایک خوشگوار سی پراسراریت تھی۔ اسٹیج کی طرح گھر میں بھی وہ سب کی توجہ کا مرکز بنے رہتے تھے۔
جب بھی کوئی اجنبی شخص دنیا کے کسی دوسرے کونے سے ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کس طرح میرے والد نے اس کی زندگی ہمیشہ کے لیے تبدیل کر دی، تو ہمیں بہت اچھا لگتا ہے۔ مجھے اس بات پر خوشی ہے کہ میں نے ان کی اچھائیاں خود اپنے سامنے دیکھی ہیں۔
بھلے ہی وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں، لیکن ان کی مسحور کن خوشبو اب بھی ہمارے گھر میں باقی ہے۔ ان کی ہنسی اب بھی ہمارے گھر میں گونجتی ہے، اور ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ نبھاتی ہے۔
شہرت کی بلندیوں تک پہنچنے کے لیے بہت ہمت، محنت، اور کئی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ میرے والد کے لیے بھی معاملہ کچھ مختلف نہیں تھا۔
میرے دادا محمد ابراہیم کو جب معلوم ہوا تھا کہ میرے والد ایکٹنگ میں کریئر بنانا چاہ رہے ہیں، تو انہوں نے انہیں بیلٹ سے پیٹا تھا۔ اس زمانے میں اس کام کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا، اور اس طرح کی مار پیٹ عام تھی۔
35 سال بعد جب میرے والد ایک ایسے شو میں پرفارم کرنے جا رہے تھے جہاں پر ملک کے صدر جنرل پرویز مشرف کو بھی ہونا تھا، تو میرے دادا نے ان سے کہا کہ وہ بھی ساتھ چلنا چاہتے ہیں۔
میرے والد نے کہا "بابا، وہاں سکیورٹی پروٹوکول ہے۔ صدر کی سکیورٹی کو ہفتوں پہلے بتانا پڑتا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ ممکن ہو پائے گا یا نہیں۔"
دادا نے کہا، "تمہیں کون روکے گا؟"
پھر میرے دادا میرے والد کے ساتھ شو دیکھنے گئے۔ میں اس لمحے وہاں پر نہیں تھا، لیکن میں تصور کر سکتا ہوں کہ میرے دادا کو کیا محسوس ہوا ہوگا جب صدرِ پاکستان اپنی سیٹ سے کھڑے ہو کر میرے دادا سے ملے، اور انہیں کہا کہ "آپ کا بیٹا اس قوم کا اثاثہ ہے۔"
اپنی ہارٹ سرجری کے صرف 20 دن بعد کینسر کے شکار بچوں کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے کے لیے شو کرنا ہو، یا ساتھیوں کے واجبات وقت پر ادا کرنے کے لیے اپنی گاڑی بیچنا ہو۔ اجنبیوں کی مدد کرنے کے لیے دوسروں سے پیسے ادھار لینے ہوں، یا چھت پر ستاروں سے باتیں کرتے ہوئے راتیں گزار دینی ہوں۔ نئے آنے والوں کو موقع دینے کے لیے خود کو پیچھے کرنا ہو، یا گرم گرم آنسوؤں کو بھرپور ہنسی سے تبدیل کر دینا ہو، معین اختر کی کہانی ایک عظیم کہانی ہے۔
جب مجھ سے پوچھا گیا تھا کہ کیا میں یہ بلاگ لکھنا چاہوں گا یا نہیں، تو شروع میں میں نے ان سے اپنے تعلق کے بارے میں سوچا۔ پھر مجھے یاد آیا کہ میری اور کئی دیگر لوگوں کے چہروں پر موجود مسکراہٹوں میں وہ زندہ ہیں۔ مر کر بھی زندہ رہنا شاید اسے ہی کہتے ہیں۔
تبصرے (83) بند ہیں