وہ دکان جو ہر ایک کے لیے نہیں؟
اسلام آباد : یہ پارلیمنٹ میں ایک اہم دن تھا، تحریک انصاف کے اراکین اسمبلی نو ماہ کے وقفے کے بعد ایوان میں واپس آئے تھے جبکہ مشترکہ اجلاس میں یمن کے تنازع پر گرما گرم بحث دیکھنے میں آئی۔
مگر اس وقت جب صبح کے سیشن میں پارلیمنٹرین ہلکے پھلکے جملوں کا تبادلہ کررہے تھے، پی پی پی کی ایم این اے شازیہ مری قومی اسمبلی کی لابی میں واقع سوونیر شاپ کے کلرک سے بھاؤ تاؤ میں مصروف تھیں۔
دکان میں رکھی اشیاءکو دیکھتے ہوئے شازیہ مری نے کہا " یہ پہلی بار ہے کہ میں اس دکان میں داخل ہوئی ہوں، اگرچہ یہاں موجود اشیاءکو دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی مگر مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ اس کو مزید بہتر بنایا جانا چاہئے تھا"۔
بھاری سیکیورٹی اور لاتعداد رکاوٹوں کے باعث پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت یا اس سوونیر شاپ کو دیکھنے کے لیے عام لوگوں کی آمد کبھی کبھار ہی ہوتی ہے۔
اس دکان کے کلرک نے شازیہ مری کے جانے کے بعد کہا " ہمارے بیشتر صارفین پارلیمنٹ کا دورہ کرنے والے غیرملکی مہمان، اراکین اسمبلی یا ان کے جاننے والے ہوتے ہیں"۔
کلرک نے مزید کہا " کوئی بھی اشیاءپر لگی قیمتوں کو ادا کرتے ہوئے کبھی خوش نہیں ہوتا ہے، یہ سب ہمیشہ ہی مول تول کرتے ہیں، کئی بار تو میں انہیں سپر مارکیٹ (سیکٹر ایف سکس میں) لے جانے کی پیشکش کرتا ہوں اور چیلنج کرتا ہوں کہ اگر وہ یہی اشیاءکم قیمت پر خرید سکیں تو وہ ہم سے یہ مفت لے جائیں"۔
کلرک کے بقول " مگر کوئی بھی کبھی اس پر تیار نہیں ہوا ، مگر چونکہ وہ سب بڑی شخصیات ہوتے ہیں تو اس سے میں زیادہ بحث کیسے کرسکتا ہوں"۔
یہ دکان پارلیمنٹ سیکرٹریٹ کے زیرتحت چلائی جارہی ہے اور کاؤنٹر پر موجود کلرک سرکاری ملازم ہے، اس کی ذمہ داری اسٹاک کے لیے اشیاءکا انتخاب کرنا ہے جو اس کے بقول کوئی آسان کام نہیں کیونکہ اس دکان کو نہ صرف ایوان کے اراکین بلکہ ان عوام کی بھی عکاسی کرنی ہے جن کی وہ نمائندگی کرتے ہیں۔
شازیہ مری نے دکان سے کف لنکس کا ایک ڈبہ پسند کیا تھا جن پر پارلیمنٹ کی عمارت پرنٹ تھی۔
ان کا کہنا تھا " پرنٹنگ کا معیار بہت ناقص ہے اور تخلیقی سوچ کی کمی بھی نظر آتی ہے، اس ڈبے کو دیکھیں اس میں بہت کرنے کی گنجائش ہے، ہمارے ملک کے دستکار دنیا میں سب سے بہترین ہیں مگر اس دکان میں اس کی عکاسی نہیں ہوتی"۔
شازیہ مری کے جانے کے بعد کلرک نے کہا " مجھے دکان کے بارے میں مادام کے الفاظ سے بہت تکلیف ہوئی ہے"۔
سوونیر شاپ میں دستیاب کچھ اشیاء — فوٹو شازیہ ملک |
اس کا کہنا تھا " وہ اس سے پہلے کبھی یہاں نہیں آئیں، میری خواہش ہے کہ وہ 2011 میں اس دکان کا دورہ کرتیں جب میں یہاں کا کنٹرول سنبھالا اور پھر سوچا کہ کس طرح اس کو بہتر بنایا جائے، اسپیکر صاحب اکثر یہاں آتے ہیں اور اس مقام کو بہتر بنانے کے لیے میری کوششوں کو پسند کرتے ہیں"۔
اس دکان میں اشیاءکا مجموعہ متاثر کن ہے، میدان سیاست کے شہسواروں کی تصاویر سے مزین چائے کے کپ شوکیس میں ہر جگہ سجے ہوئے ہیں۔ ایک جگہ 1990 کے الطاف حسین کی تصویر والا مگ ہے، تو دوسری جگہ عمران خان غیرمتوقع طور پر پرسکون نظر آتے ہیں، آصف علی زرداری اپنی روایتی مونچھوں کے ساتھ ہیں تو مولانا فضل الرحمان نے اپنی انگلی اٹھائی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ یہاں ایک مگ آرمی چیف کا ہے جس پر گورنمنٹ کالج لاہور کی یادگار کے سامنے لی جانے والی ایک دھندلی تصویر پرنٹ ہے۔
اور جو لوگ کسی سیاست دان کو اپنی جیب میں رکھنے کے خواہشمند ہوں تو وہ ایک کی چین لے سکتے ہیں جس پر وہ اپنی پسند کے پارٹی لیڈر کی تصور پرنٹ کرسکتے ہیں۔
ایک صارف نے توجہ دلائی " بے نظیر بھٹو کا مگ کہاں ہے"۔
اس سوال کے بعد کلرک نے خانوں اور ڈبوں کو کھنگالنا شروع کردیا اور کہا " وہ یہاں ہے، ہم نے اسے ڈسپلے میں رکھا تھا مگر یہ حال ہی میں فروخت ہوگیا"۔
اس نے دفاعی انداز میں کہا " میں تو صرف ایک سرکاری ملازم ہوں میری کسی سیاسی جماعت سے وابستگی نہیں"۔
اس کلرک کا کہنا تھا کہ وہ پاکستان بھر میں سفر کرکے بہترین پاکستانی دستکاری مصنوعات خریدتا ہے، یہاں چمڑے سے بنے ٹشو کے ڈبے ہیں، بلوچستان کی رنگا رنگ کشیدہ کاری سے سجے فوٹو فریمز، کشمیری شالیں، ہاتھوں سے رنگ کیے گئے اونٹ کی کھال سے بنے لیمپس اور ملتان کے نیلے مٹی کے ظروف، میٹل سے چمکتے دمکتے فیصل مسجد کے ماڈلز، خانہ کعبہ کی تصور سے مزئین سنگ مرمر کی پلیٹ، ہاتھوں سے بنے گئے قالین اور چمڑے کے بریف کیس، ڈائریاں اور بٹوے وغیرہ جن پر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے مونوگرام پرنٹ ہیں۔
ان سب کے علاوہ بھی متعدد اشیاءیہاں موجود ہیں جن میں سے بیشتر پر مونو گرامز پرنٹ ہیں۔
کچھ آئل پینٹنگز بھی ڈسپلے پر سجی ہوئی ہیں۔
جہاں تک دستکاری کی مصنعات کا تعلق ہے ان کی قیمتیں کافی مناسب ہیں، مثال کے طور پر قومی اسمبلی کی علامت سے سجی گلاس پلیٹ اور ایک لکڑی کے اسٹینڈ کی قیمت صرف پانچ سو روپے ہے۔ ایک مگ دو سے تین سو کے ددرمیان جبکہ ہاتھوں سے تیار کردہ لیدر فوٹو فریم چار سو روپے کا ہے۔
اگرچہ یہاں موجود مصنوعات بہت زیادہ تخلیقی نہیں اور یہاں کے اسٹاک کا خیال رکھنے والا کلرک نہیں تاہم محکمہ اسمال انڈسٹریز کے اس ملازم کی کوششیں قابل ستائش ضرور ہیں۔
تاہم اگر اس دکان کی ایک برانچ پارلیمنٹ کی عمارت کے دروازوں کے پاس کھولی جائے تو دارالحکومت آنے والے سیاح ان سوونیرز کو خرید کر گھر لے جاسکتے ہیں۔
زیادہ صارفین آنے کی صورت میں ماہرین کی خدمات حاصل کرکے تخلیقی سوونیر کی تیاری بھی ممکن ہوسکے گی۔