• KHI: Asr 5:02pm Maghrib 6:45pm
  • LHR: Asr 4:32pm Maghrib 6:17pm
  • ISB: Asr 4:37pm Maghrib 6:22pm
  • KHI: Asr 5:02pm Maghrib 6:45pm
  • LHR: Asr 4:32pm Maghrib 6:17pm
  • ISB: Asr 4:37pm Maghrib 6:22pm

میڈیا میں اردو زبان کا غلط استعمال

شائع April 16, 2015 اپ ڈیٹ August 4, 2015
ٹی وی چینل زبان کی درستی اور ترویج میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن خود ہی بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔
ٹی وی چینل زبان کی درستی اور ترویج میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، لیکن خود ہی بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔

یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان ہونے کے باوجود ملک میں وہ مقام حاصل نہ ہوسکا جو ہونا چاہیے تھا لیکن اس کے برعکس زبانِ غیر ہونے کے باوجود انگریزی ملک میں راج کررہی ہے۔

چلیں یہاں تک تو پھر بھی قابلِ برداشت ہے۔ لیکن قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ پاکستان میں روز بروز ترقی کرنے والا الیکٹرونک میڈیا اردو زبان کی مزید زبوں حالی کا سبب بن رہا ہے۔ زبان کے قواعد و ضوابط کے اعتبار سے اردو کا غلط استعمال الیکٹرونک میڈیا پر عام ہے جو یقیناً اہلِ زبان اور صاحبانِ علم کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے کیونکہ غلط یا غیر معیاری زبان کا فروغ پہلے ہی سے ملک میں عدم توجہ کا شکار اردو کی مزید بربادی کا باعث بن رہا ہے، حالانکہ یہی تفریحی اور خبروں کے چینل اردو زبان کے فروغ میں ایک اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔

غلط اردو کا استعمال ٹی وی ڈراموں، اشتہارات، سیاسی و معاشرتی مباحثوں، خبروں، اور صبح نشر ہونے والے مارننگ شو وغیرہ میں عام ہوچکا ہے جس کے نتیجے میں ایک انتہائی غیر معیاری اور غلط زبان وجود میں آرہی ہے۔

ٹی وی چینلوں پر سیاسی اور سماجی مسائل پر بے باک اور بے لاگ تبصرہ کرنے والے اور خبریں پڑھنے والے خواتین و حضرات کی اردو سے شرمناک حد تک ناواقفیت بھی زبان و لسان کی اس زبوں حالی کی اہم وجوہ میں سے ایک ہے، لیکن اس اعتبار سے سرکاری ٹی وی نے اپنے معیار کو تا حال بلند کر رکھا ہے۔

سرکاری ٹی وی پر باقاعدہ اردو شناس افراد کو ملازم رکھا جاتا رہا ہے، تاکہ زبان کا صحیح استعمال ہوسکے۔ میزبانوں کے انتخاب میں سرکاری ٹی وی کا معیار بالخصوص ماضی میں اتنا بلند ہوا کرتا تھا کہ قریش پور،عبیداللہ بیگ، ضیاء محی الدین، طارق عزیز، مستنصر حسین تارڑ، انور مقصود، لئیق احمد، اور فراست رضوی جیسے شاعروں، ادیبوں، دانشوروں اور صاحبانِ مطالعہ افراد کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں۔

لیکن دورِ حاضر میں نجی چینلوں پر معاملہ یکسر مختلف نظر آتا ہے۔ یہاں زبان انتہائی مظلوم نظر آتی ہے۔ تذکیر و تانیث، تلفظ اور بنیادی قواعد کی غلطیاں عام ہوچکی ہیں۔

پڑھیے: اردو ہے جس کا نام

تلفظ کے بارے میں تو صاحبانِ زبان و لسان ذرا رعایت سے کام لیتے ہیں، کیونکہ بعض افراد جن کی مادری زبان اردو کے علاوہ کوئی اور ہو تو وہ تلفظ میں تھوڑی بہت غلطیاں کرتے ہیں جو کسی حد تک مخارج کی مجبوری ہوا کرتی ہیں۔ جیسے پنجابی حضرات 'ق' کو 'ک'، اور فارسی بان 'ق' کو 'غ' پڑھتے ہیں، گجراتی بولنے والے 'س' کو 'ش' اور 'ش' کو 'س' تلفظ کرتے ہیں، بھارت میں سنسکرت بولنے والوں میں 'ج' کو 'ز' یا 'ذ' تلفظ کرنے کا عام رجحان ہے۔

لیکن انتہائی افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان دنیا کی شاید وہ واحد قوم ہے جو اپنی قومی زبان کے اصول و قواعد یعنی گرامر ہی تبدیل کرنے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ اس حوالے سے چند جملے بطورِ مثال پیش خدمت ہیں، جیسے 'آپ کیا کرتے ہو'، 'آپ جاؤ گے'، 'آپ چائے پیو گے' یعنی ایک ہی جملے میں تعظیم بھی ہے اور تذلیل بھی۔ اسے اصطلاح میں شترگربہ کہتے ہیں۔

لڑکیوں کے لیے لفظ 'بیٹی' کی جگہ 'بیٹا' استعمال کرنا غلط العام تصور کیا جاتا ہے۔ بیٹیوں یا لڑکیوں کے لیے ان جملوں کا استعمال کہ 'بیٹا آپ کہاں جارہے ہو' یا 'آپ کیسے ہو' وغیرہ نہ صرف قواعد کی رُو سے غلط ہیں بلکہ ناقابلِ قبول بھی ہیں۔

اردو قواعد کی غلطیاں اتنی عام ہوچکی ہیں کہ لفظ 'عوام' کی جنس ہی تبدیل کردی گئی ہے، یعنی اس انتہائی عام لفظ کو مذکر سے مونث بنا دیا گیا ہے۔ سیاستدان اور بالخصوص الیکٹرونک میڈیا کے نمائندگان اکثر و بیشتر یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ 'عوام بیچاری مہنگائی کے بوجھ تلے دب گئی ہے'، 'عوام تو بے اختیار ہوتی ہے'، وغیرہ۔ قواعد کے اعتبار سے یہ غلطیاں سنگین تصور کی جاتی ہیں۔

کچھ غیر معیاری الفاظ عام بول چال میں استعمال ہوتے ہیں، ان الفاظ کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے۔ جیسے لفظ 'گڑبڑ' کی جگہ 'پنگے' کو استعمال کرنا، اسی طرح 'کہا' کے بجائے 'بولا'، 'مجھے' کی جگہ ' میرے کو'، 'کیا 'کی جگہ 'کرا' وغیرہ۔ ان غیر معیاری الفاظ کا استعمال الیکٹرونک میڈیا پر صحافی کثرت سے کرتے ہیں۔ اس حوالے سے صحافیوں پر زیادہ تنقید کا سبب ان کی سماجی اور پیشہ ورانہ حیثیت ہے۔

چاہے پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرونک، صحافت الفاظ کو مستحسن انداز میں برتنے کا نام ہے۔ خبروں اور مباحثوں پر مبنی مختلف پروگراموں میں جلوہ افروز ہونے والے میزبانوں (جنہیں دورِ حاضر میں اینکرپرسن کہا جاتا ہے) کی گفتگو سنی جائے یا خبر پڑھنے والوں کو سنا جائے، تو بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ زیادہ تر افراد اردو زبان کے بنیادی اصولوں سے نہ صرف ناواقف ہیں بلکہ ذخیرۂ الفاظ کی قلت کا بھی شکار ہیں۔ موزوں اور مناسب الفاظ کے انتخاب کا جوہر ہر صحافی میں ہونا چاہیے۔

مزید پڑھیے: اردو زبان کے بارے میں چند غلط تصورات

دوسری جانب الفاظ کا درست تلفظ بالخصوص الیکٹرونک شعبۂ خبر سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے لیے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اردو میں لکھی جانے والی اچھی کتب کا مطالعہ کسی بھی فرد کو زبان کے بنیادی اسرار و رموز سے آشنا کرتا ہے، مگر کتب بینی کی ثقافت ہمارے معاشرے سے ناپید ہوتی جارہی ہے، اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات بھی یقیناً اس تنزلی کا شکار ہیں۔

ہمیں چینلوں پر اکثر میزبان طویل سوالات کرتے نظر آتے ہیں جو پیشہ ورانہ مہارت کے خلاف ہے، لیکن اس کی وجوہ میں ذخیرۂ الفاظ کی کمی ہے اور یہ کمی کثرتِ مطالعہ سے دور ہوتی ہے۔

معروف اردو تاریخ دان ڈاکٹر سلیم اختر نے لفظ کی قدروقیمت کو اجاگر کرتے ہوئے اپنی کتاب 'اردوادب کی مختصرترین تاریخ' میں لکھا ہے کہ 'لفظ کی اپنی انفرادیت ہوتی ہے، لہٰذا آدمی کی مانند اس کا احترام بھی لازم ہے۔ لیکن خود غرضی کی جس فضا میں ہم سانس لے رہے ہیں اس کے باعث انصاف، اداروں اور قدروں کے ساتھ ساتھ لفظ بھی بے اعتبار ہوا، پہلے سیاستدانوں کے ہاتھوں، پھر مُلاؤں کے ہاتھوں، پھر صحافیوں اور ادیبوں کے ہاتھوں۔'

پاکستان کے مقابلے میں بھارت کا معاشرہ زیادہ انگریزی زدہ ہے، مگر بھارتی ہندی چینلوں پر کثرت سے سنسکرت کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ انگریزی اور بالخصوص اردو کے الفاظ کے استعمال سے اجتناب برتیں۔

اس کے برعکس پاکستانی اردو چینلوں پر آدھی اردو اور آدھی انگریزی بولنے کا رواج ہے۔ تفریحی چینلوں پر جو ڈرامے نشر کیے جاتے ہیں، ان میں تو کہیں کہیں کردار کے لحاظ سے اچھی اردو سننے کو مل جاتی ہے، مگر خبروں کے چینلوں پر گفتگو کے دوران آدھی اردو اور آدھی انگریزی کا ہی سہارا لیا جاتا ہے۔

کچھ انگریزی کے الفاظ ایسے بھی ہیں جو خبروں کے چینلوں پر کثرت سے اردو میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ جیسےcategorically ،heading ، having said that ،short break ،political turmoil ،law and order ،parliament ،legislation یا legislator وغیرہ۔

معروف شاعر اور ماہرِ اردو لسانیات ساحر لکھنوی کے بقول 'بعض الفاظ اپنی اصل زبان سے دوسری زبانوں تک پہنچ کر اس کا حصہ بن جاتے ہیں، ہم اسے الفاظ کی ہجرت کہتے ہیں۔' اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ایک عمرانی عمل (social process) ہے جو از خود وقوع پذیر ہوتا ہے، مگر زبردستی ایک زبان میں دوسری زبان کے الفاظ استعمال کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے بلکہ سامعین کے لیے سمع خراشی کا بھی سبب بنتا ہے۔

اردو میں انگریزی کے الفاظ کا استعمال اس وقت زیادہ ضروری محسوس ہوتا ہے جب انگریزی لفظ کا کوئی مناسب اور جامع مترادف موجود نہ ہو۔ لیکن انگریزی لفظ categorically کا مترادف اردو میں 'دو ٹوک' ہے، جو زیادہ جامع اور زوردار لفظ ہے، مگر ہمارے چینلوں کے نمائندگان انگریزی الفاظ استعمال کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ شاید وہ انگریزی زبان سے مرعوب سامعین و ناظرین پر اپنا علمی رعب بٹھانا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھیے: میری اردو بہت خراب ہے!

کسی بھی معاشرے میں نئی نسل کے لیے اس معاشرے میں رائج زبان سیکھنے کے بہتر مواقع خاندان، اسکول اور ان کے بعد ٹی وی چینلوں سے حاصل ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے معاشرے میں اس حوالے سے خاندان اور تعلیمی ادارے کوئی واضح کردار ادا کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں، جبکہ چینلوں نے تو نئی نسل کو اچھی اردو سننے کے مواقع دینے کے بجائے زبان کو بگاڑنے کی کوشش کی ہے۔ یقیناً یہ دانستہ عمل نہیں ہے، بلکہ علم و ادب سے دوری کا نتیجہ ہے۔

اس قومی المیے کے سدھار کے لیے حکومتی سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے۔ الیکٹرونک میڈیا کے مالکان کا بھی یہ سماجی فریضہ ہے کہ وہ اپنے اداروں میں ایسے افراد کی خدمات حاصل کریں جو اردو زبان پر عبور رکھتے ہوں، تاکہ کم ازکم ان کے نمائندگان کی زبان کی اصلاح ہو سکے۔

پیمرا کو چاہیے کہ وہ تمام چینلوں کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ اپنی معاشرتی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اور عوامی دلچسپی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اردو کے فروغ کے لیے مہینے میں کم از کم ایک یا دو پروگرام لازمی نشر کریں، تاکہ نئی نسل میں معیاری اردو سننے اور سمجھنے کا ذوق پیدا ہوسکے۔

سید جعفر عسکری

سید جعفر عسکری انگریزی اور اردو دونوں زبانوں سے منسلک ایک پیشہ ور صحافی اور کالم نگار ہیں۔ ادبی اور سماجی حلقوں میں ان کی پہچان نہ صرف صحافی، بلکہ ایک شاعر کی حیثیت سے بھی ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: AskariJAFAR@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (18) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Apr 16, 2015 09:13pm
میں جو بولا تو کہا کہ یہ آواز۔اسی خانہ خراب کی سی ہے۔ میر :عسکری صاحب یہ مسئلہ اٹھانے کا شکریہ۔ جہاں تک شتر گربہ یاعوامی گفتگو کی بات ہے اس کا ہم کچھ نہیں کر سکتے کہ یہ تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہے۔ جہاں تک ٹی وی کی بات ہے تو باہر کے ملکوں میں اگر پروگرام کرنے والے کی زبان و لہجہ درست نہیں ہے تو اسے ملازمت مل ہی نہیں سکتی۔ ہمارے ہاں لگتا ہے کہ بھرتی کرنے والا خود نا اہل ہے، یا مالکان خود انتخاب کر رہے ہیں۔ انگریزی کے الفاظ و جملے بولنے کی نفسیات غالباً یہ ہے کہ اس سے آدمی پڑھا لکھا لگتا ہے۔ اب آپ دیکھیے تو ہمارے ٹی وی پروگراموں کے آدھے سے زیادہ نام انگریزی میں ہیں، اور تو اور انور مقصود کے پروگراموں کے نام بھی آدھے انگریزی میں ہیں۔ عسکری صاحب نے جو سب سے اچھی بات کہی ہے وہ یہ ہے کہ ہمارے اسکولوں کو بچوں میں اردو کتابوں کے پڑھنے کے رجحان کو فروغ دینا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ بچوں کے لیے اردو کتابیں لکھنے والوں کے انعامی مقابلے منعقد کرے۔ 'دو ٹوک' کی طرح ہمارے پاس 'ڈرون' سے زیادہ بہتر لفظ 'بھنورا' موجود ہے۔ اس سلسلے میں نوجوان والدین منظم طور پر آگے آئیں، بچوں کے مستقبل کا سوچیں۔
نجیب احمد سنگھیڑہ Apr 16, 2015 10:12pm
سطحی سوچ کا اظہار کیا گیا ہے بلاگ میں۔ اردو سے اندھی محبت کے نشے میں سرشار رہتے ہوئے بہت سے نکات کو دوران قلم گھمائی سوچا ہی نہیں گیا۔ زبان میں ارتقاء، ٹیکنالوجی کی بھرمار خاص کر دنیائے انٹرنیٹ، جدیدیت اور روایت پسندی، گلوبلائزیشن، مادری زبان اور قومی زبان میں فرق، ملکی اور غیرملکی زبان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے کئی نکات ہیں جن پر اگر لکھنے سے پہلے غور و غوض کیا جاتا تو بلاگ کا لب لباب سراسر ہذا بلاگ کے الٹ نکلتا۔ مرزا غالب کی اردو ہی کیا اردو ہے؟ یو پی سی پی کی اردو ہی کیا اردو ہے؟ جناب اعلٰی یہ پاکستان ہے کوئی لکھنو اور دھلی نہیں۔ زمینی اور ثقافتی حقائق کے ساتھ ساتھ پاکستانی اور غیرپاکستانی اصطلاحات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے تھا۔
Muhammad Anwar Apr 16, 2015 10:52pm
@یمین الاسلام زبیری ، آپ دونوں صاحبان کا بہت بہت شکریہ۔ اگر آپ جیسے صاحبان علم دو چار قدم آگے بڑھ کر مہجور و مظلوم اردو کو دلاسہ دینے کا بیڑا اُٹھائیں ، اور ہاں تسلسل شرط ہے محنت اور عزم مصمم کیساتھ تو انشاء اللہ اُمید ہے کہ ہم جیسے بے زبان مخلوق کو بھی آپ کا سا تھ دینا پڑیگا۔ بس ایک مہم کی ضرورت ہے ۔ قومی مایوسی جی ہاں بحثیت مجموعی قومی نفسیات پر مسلط انگریزی رعب کو دور کرنا ہوگا۔ انگریزی اس دور میں وقت کی اہم ترین ضرورت ہے اس کی اہمیت سے نہ تو انکار کی گنجائش ہے اور نہ ہمیں خُدا واسطے کا بیر ہے انگریزی سے ،پر قومی زبان کو یوں انگریزی زدہ کرنا بھی پست و مایوس ذہنیت کی عکاس ہے ۔ کا ش یہ سیاہ کار اردو زبان سے مکمل مسلح ہوتا تو آج ہی سے مہم شروع کرتا ،لیکن اپنا تو حال یہ ہے کہ املاء و انشاء تذکیر و تانیث کی بظاہر معمولی لیکن دراصل سنگین غلطیوں کا ارتکاب ہر دوسرے تیسرے لفظ کے بعد ہو رہا ہے ۔ اگر چہ ان غلطیوں کو جن کو بقلم خود بار بار دہرا رہا ہوں ،ظاہرا جرم قابل دست اندازی پولیس نہیں ہے لیکن ایک جونئیر ترین صحافی کے طور پر خجالت محسوس کر رہاہوں
Read All Comments

کارٹون

کارٹون : 24 مارچ 2025
کارٹون : 23 مارچ 2025