• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:48am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

سازش کی پڑیا

شائع April 10, 2015
ہم لوگ ہمیشہ اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کے بجائے خفیہ ہاتھ تلاش کرنے میں جت جاتے ہیں۔ ایسا کب تک چلے گا؟ — فائل فوٹو
ہم لوگ ہمیشہ اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کے بجائے خفیہ ہاتھ تلاش کرنے میں جت جاتے ہیں۔ ایسا کب تک چلے گا؟ — فائل فوٹو

یہ اس زمانے کی بات ہے جب علاقوں کو تلوار کے زور پر فتح کر کے اپنی بادشاہتیں قائم کی جاتی تھیں اور ایک نئے درباری نظام کا وجود عمل میں آتا تھا جہاں ایک بادشاہ اور باقی رعایا ہوتی تھی۔ بادشاہ کا جو دل چاہتا تھا وہ قانون بناتا تھا اور اس پر عملدرآمد ہوتا تھا۔ تاریخ ماضی کی کتابوں میں ان درباروں اور بادشاہتوں کے خلاف "سازشوں" کا ذکر ہوتا آیا ہے۔

ہمارے وطن عزیز میں بسنے والے لوگوں نے پاکستان بننے سے لے کر اب تک جس لفظ پر سب سے زیادہ توجہ دی اور سب سے زیادہ تحقیق کی وہ "سازش" ہے۔ ہم نے اس لفظ پر اتنی تحقیق اور غور و فکر کیا ہے کہ کسی بھی واقعے کے پیچھے جو سازش اور سازشی عناصر کارفرما ہوتے ہیں، ہم ان کا فوری طور پر پتہ لگا لیتے ہیں۔

لفظ "سازش" ہمارے ذہنوں میں کچھ اس طرح سے پیوست ہو چکا ہے کہ اس کا ذہن سے نکلنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ یہ لفظ ہماری اصلاحی تربیت پر اس طرح سے مسلط ہو چکا ہے کہ اس سے جان چھڑانا گویا جسم سے روح علیحدہ کرنا ہے۔ آج ہم اسی لفظ کے سہارے صرف سیاست اور تجارت ہی نہیں بلکہ اپنی زندگی کا ہر کام کر رہے ہیں۔

چند روز سے یہ معمول بنا ہوا ہے کہ اسکرین پر رونما ہونے والے ہر واقعے کو "سازش" قرار دیا جا رہا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے مرکز نائن زیرو پر رینجرز کے چھاپے سے لے کر عمران خان اور عارف علوی کی مبینہ ٹیلیفون ٹیپ تک، اور وہاں سے سعودی-یمن تنازع کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارت تک ہر چیز کو ایک گھناؤنی سازش قرار دیا جا رہا ہے۔

متحدہ کے مرکز پر رینجرز کے چھاپے کے بعد متحدہ قائد سے لے کر مکمل قیادت وہاں سے ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ عناصر کی گرفتاری اور اسلحے کی برآمدگی کو اپنے خلاف سازش قرار دے رہے ہیں، باوجود الطاف حسین کے اس بیان کے کہ "اگر کسی نے غلطی کی یا غلطی ہو گئی، تو ان کو نائن زیرو، یعنی اکثریت کو مصیبت میں نہیں ڈالنا چاہیے تھا۔ دنیا بہت بڑی ہے کہیں اور چلے جاتے، میں بھی تو برطانیہ میں رہ رہا ہوں۔"

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف ٹیپ اسکینڈل کو اپنے خلاف سازش قرار دے رہی ہے۔ بجائے قوم سے اس گھناؤنی حرکت (جرم) پر معافی مانگنے کے مرکزی قیادت عجیب و غریب بیان دے رہی ہے کہ "پتہ لگایا جائے کہ گفتگو ٹیپ کس نے کی، کیونکہ فون ٹیپ کرنا آئین پاکستان کی خلاف ورزی ہے۔"

کوئی ان سے یہ پوچھے کہ "پی ٹی وی" پر حملہ کرنا، وہاں موجود ملازمین کو یرغمال بنانا، توڑ پھوڑ اور سامان چوری کر کے گھر لے جانا، ریاستی ادارے کی نشریات بند کر دینے کا اختیار آپ کو کون سا آئین دیتا ہے؟

ویسے پارلیمنٹ کا گیٹ توڑنے، پولیس پر حملے کرنے، پارلیمنٹ کا گیٹ پھلانگنے کی اجازت بھی اس ملک کا آئین نہیں دیتا۔ لیکن تحریک انصاف کی سوئی گفتگو ٹیپ کرنے والے "سازشی عناصر" پر اٹکی ہوئی ہے۔

اس کے بعد اگر ہم یمن کی صورتحال کو لیں، تو کئی اکابرین اسے یہود و نصاریٰ کی "سازش" قرار دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ ان سب "سازشوں" کو ثابت کرنے کے لیے عقل کے ایسے گھوڑے دوڑائے جاتے ہیں کہ اگر اتنی عقل پاکستان کی معیشت کے استحکام اور فلاح و بہبود میں لگائی جائے تو پاکستان ایک ترقی یافتہ ترین ملک بن جائے۔

لیکن نہیں، ہم نے تو ہر چیز کو سازش قرار دے کر اسے ثابت کرنے کی سر توڑ کوشش کرنی ہے، بجائے اس کے کہ اس معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے اور اصلاح کی جائے۔

ان تین ایشوز کے علاوہ بھی ماضی قریب کے کئی واقعات کا ذکر یہاں کیا جا سکتا ہے لیکن وہ غیر ضروری ہے۔ اوپر ذکر کیے گئے واقعات یہاں صرف اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ اگر ان تین ایشوز کو "سازش کی پڑیا" میں بند کر کے بیچنے کے بجائے ان پر غور و فکر کیا جائے، اور اصلاح کی طرف بڑھا جائے، تو اس کا فائدہ نہ صرف ان کو ہوگا، بلکہ ملک کو بھی فائدہ ہوگا اور ریاست مضبوط اور مستحکم ہوگی۔

مثال کے طور پر اگر متحدہ قومی موومنٹ اس چھاپے کے بعد اپنی صفوں میں چھپے دہشتگردوں اور جرائم پیشہ عناصر کو خود ہی نکال باہر کرتی، ان کی سرپرستی کرنے والوں کی بھی سرزنش ہوتی، اور پھر ساتھ ساتھ ان سے لاتعلقی کی جاتی تو یقیناً متحدہ قومی موومنٹ کی باقی صاف ستھری قیادت کی ساکھ بحال ہوتی اور اسے ایک اچھا فعل سمجھا جاتا۔ اس کے علاوہ دہشتگردوں سے لاتعلقی سے کراچی کی عوام بھی خود کو محفوظ سمجھتی، تو یقیناً ملکی معیشت مضبوط ہوتی اور ملک مستحکم ہوتا۔

لیکن جب رینجرز نے متحدہ کے اندر موجود سماج دشمن عناصر کو خود پکڑا، تو متحدہ نے ان سے لاتعلقی کا اظہار کیا جو کہ ایک مستحسن قدم ہے، لیکن تھوڑا پہلے اور خود سے ہونا چاہیے تھا۔ اب بھی ہونا تو یہ چاہیے کہ متحدہ خود اپنی صفوں کی چھان بین کرے، اور سازش کا رونا رونے کے بجائے کھلے ذہن سے دیکھے کہ کیا واقعی اس کے اندر ایسے لوگ تو نہیں آگئے جس کی وجہ سے اس پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔

اسی طرح تحریک انصاف جو کہ پاکستان میں نوجوانوں اور تعلیم یافتہ لوگوں کی جماعت تصور کی جاتی ہے، اس کے رہنما بھی نہ اس ٹیپ کو جھوٹا قرار دے پا رہے ہیں اور نہ ہی سچا مان رہے ہیں۔ عمران خان ایک بار پہلے بھی قوم سے معافی مانگ چکے ہیں۔ اگر ان سے غلطی ہوئی ہے، تو وہ ایک بار پھر قوم سے معافی مانگ لیں۔ لیکن اب معافی ممکن نہیں کیوں کہ اب وہ پہلے سے بہت زیادہ معروف ہیں اور معافی کو شاید توہین سمجھتے ہیں۔ ویسے ایسا کرنے سے شاید ان کی ساکھ بحال ہو جائے اور تحریک کے جو کارکن اس وقت شش و پنج میں مبتلا ہیں، وہ کوئی فیصلہ کر سکیں۔

اب ذرا یمن کی طرف بڑھتے ہیں ہمارے کچھ صاحبان مسئلہ یمن کو یہود و نصاریٰ کی سازش قرار دے رہے ہیں، بجائے اس کے کہ معاملے کی تہہ تک پہنچا جائے اور سوچ سمجھ کہ کوئی فیصلہ یا رائے دی جائے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جس طرح ہمارے ملک میں ہم ہر مسئلے کو امریکا کی "سازش" قرار دیتے ہیں اور اس کے تانے بانے امریکا سے جوڑ دیتے ہیں۔

مسلم امّہ کا اگر لحاظ ہے تو یمن میں بسنے والے بھی اس کا حصہ ہیں۔ ضرورت تو اس بات کی ہے کہ حکومت وقت کو سعودیہ کی فوجی مدد کے بجائے ثالثی کا کردار ادا کر کے جنگ کے بجائے دونوں کو مذاکرات کی ٹیبل پر لا کر مسئلے کا حل نکلنا چاہیے اور اپنی فوج اور خود کو گندا ہونے سے بچانا چاہیے۔

ویسے ایک بات آج تک میری سمجھ میں نہیں آئی کہ بینظیر بھٹو شہید کا سانحہ ہو یا گستاخانہ کارٹون و فلم کا، اسے جمہوریت کے خلاف اور اسلام کے خلاف سازش تو بڑے زور و شور سے قرار دیا جاتا ہے، لیکن ان کے خلاف ہونے والے احتجاج میں احتجاجیوں کا سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانا بھی کوئی سازش ہوتی ہے یا ہماری اپنی غلطی؟ کبھی ایک گھڑی کے لیے سوچا جائے کہ یہ سرکاری املاک کس کے پیسے سے بنی ہیں تو قصہ ہی صاف ہو جائے۔

مگر ہم نے تو "سازش" ہی ڈھونڈھنی ہے اور سازش کی آڑ میں اپنے جائز ناجائز مقاصد حاصل کرنے ہیں۔ عوام کو سازش کے نام پر بیوقوف بنانا ہے اور ہمدردیاں حاصل کرنی ہے۔ جب تک اس لفظ سے ہمارا پیچھا نہیں چھوٹے گا اس وقت تک نہ ہی تو کوئی پارٹی کوئی گروپ یا کوئی ادارہ ترقی کر پائے گا اور نے ہی ملک بہتری کے راستے پر گامزن ہوگا۔

تنویر آرائیں

لکھاری اینکر پرسن اور تجزیہ کار کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں، اور ان دنوں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پرtanvirarain@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

Malik USA Apr 10, 2015 08:14pm
Good article. I wish politician should take care of ordinary people. Long time back the politician were spent their time in reading the headlines. Definitely now a days it is not possible, now they have advisers. We the ordinary Pakistani could wish only they have good adviser. Because now the whole Pakistan is running by advisors

کارٹون

کارٹون : 21 نومبر 2024
کارٹون : 20 نومبر 2024