کان کنوں کی زندگی کا سیاہ پہلو
ایک گرد آلود گول ٹوپی اور داغوں سے بھرے شلوار قمیض کا جوڑا یہ وہ سامان ہے جو ضلعی لورالائی کی تحصیل دکی مین کان کن پیچھے چھوڑ گئے ہیں، یہاں کام ایک ہفتے سے " چلے جانے والوں کی یاد" میں رکا ہوا ہے۔
جب یہاں کی کان میں دو ہفتے قبل دوپہر دو بجے کے قریب ایک دھماکہ ہوا تو سترہ سالہ اعتبار خان باہر کھڑا اس واحد شے کو ٹھیک کرنے کی کوشش کررہا تھا جو اس کی اپنی تھی یعنی ایک پاکٹ سائز ریڈیو جو وہ سوات سے نکلتے وقت اپنے ساتھ لایا تھا۔
دکی میں نئے آنے والے اعتبار خان نے ہمیں بتایا کہ یہ اپنی طرز کا پہلا واقعہ نہیں، ہمارے ارگرد کوئلے کے ڈھیر ہیں جو کہ چھوٹے گھروں میں پھٹتے رہتے ہیں۔
کان کا سیاہ خلاءجہاں دھماکہ ہوا، دیکھنے مین ایک غار کی طرح نظر آتا ہے حالانکہ وہاں درخت کی شاخیں وغیرہ بھی پھیلی ہوئی ہیں۔
اعتبار کے مطابق " کان کے اندر ہم سات افراد سے محروم ہوگئے اور ان میں سے دو لوگ وہ تھے جو کان کنوں کی مدد کے لیے گئے تھے، ان میں سے ایک اسی روز ہلاک ہوگیا جبکہ دوسرا بعد میں زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا"۔
ہم اس وقت لورالائی کے قصبے سے 45 کلومیٹر دور تھے اور یہاں ایک محتاظ تخمینے کے مطابق چھوٹی بڑی سو کانیں ہیں جو کہ ناصر، ترین اور لونی قبائل کی ملکیت ہیں۔
یہاں کے سب سے پرانے رہائشیوں میں سے ایک ترین قبائل نے دکی میں اپنی زمین اٹھارویں صدی میں مقامی افراد کو سستے داموں فروخت کردی تھی تاہم کوئلے کی دریافت کے بعد برطانوی حکومت اور ترین قبائل زمین کی واپسی کی کوشش کرنے لگے، اس کے بعد یہاں زمین کی فروخت زبانی معاہدوں پر ہونے لگی اور مقامی افراد کے ہاتھ کچھ نہ رہا، بتدریج بیشتر کانیں ترین قبیلے کی ملکیت ہوتی چلی گئیں۔
دہائیوں بعد یعنی برصغیر کی تقسیم کے وقت ناصر برادرز نے اسی علاقے میں کان کنی کا آغاز کیا اور ترین قبیلے کے ساتھ مسابقت شروع ہوگئی۔
انسپکٹر آف مائنز رشید ابڑو کے مطابق اس مسابقت نے بدصورت رخ اختیار کرلیا اور اس وقت سے یہ دونوں قبائل ایک دوسرے کے خلاف حالت جنگ میں ہے جس کے نتیجے میں انسپکشن ٹیمیں قبائلی بزرگوں کے غیض و غضب کے سامنے کمزور نظر آتی ہیں۔
انہوں نے بتایا " ایک انسپکٹر کے طور پر میرا فرض ہے کہ تجاویز پیش کروں اور مائنز ایکٹ 1923 کے تحت قوانین پر عمل کروں، مگر ہم ان قوانین پر عمل نہیں کرسکتے کیونکہ قبائلی بزرگ انہیں تسلیم نہیں کرتے اور ان کے اپنے اصول ہیں"۔
دکی کی یہ کان راحیف ترین اور آغا محمد ترین کی مشترکہ ملکیت ہے جنھیں خان محمد خان گروپ کی شریف ترین کول کمپنی کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
اگرچہ کہا جا رہا تھا کہ کان سوگ کے باعث بند ہے مگر ہمارے ساتھ کان پر آنے والے علاقے کے ایک بزرگ کا کہنا تھا کہ کان کو انسپکشن افسران نے انیس فروری کو بند کیا اور اس کے بعد یہ نہیں کھلی۔
ہمارے ساتھ موجود مقامی افراد میں سے بیشتر سوات اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے کان کن تھے اور ان کا کہنا تھا کہ یہاں حالات کبھی بہتر نہیں ہوئے حالانکہ چھوٹی نوعیت کے میتھین گیس کے دھماکے برسوں سے ہورہے ہیں۔
اعتبار یاد کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ایک یا دو برس قبل ایسے ہی واقعے میں بارہ کان کن اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے تھے۔
ایک بزرگ کان کن گل نصیر کے مطابق "ہمارے ارگرد مختلف دنیا ہے جس کے اصول کان کنوں نے طے کیے ہیں اور مالکان نے کچھ نہیں کیا"۔
گل نصیر دو سال پہلے اس کام سے ریٹائر ہوگئے تھے اور ان کا کہنا ہے کہ سوات کے رہائشی دکی کو اس لیے چنتے ہیں کیونکہ یہاں سخت کام کے باوجود اجرت اچھی ہے، جبکہ جنوبی افغانستان کے باسی ہوا دار کانوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں اجرت کم ملتی ہے۔
اس سانحے سے ایک ماہ پہلے کان کے منیجر نے چار سے پانچ ماہ تک کان کنی نہ کرنے کا مشور دیا تھا تاہم اعتبار بتاتا ہے " جیسے ہی وہ منیجر گیا، ہمیں کان کے اندر جانے کا کہا گیا"۔
تاہم مالک راحیف ترین کا کہنا ہے کہ وہ کان میں ہوا کے اخراجات کے مقامات کی تعمیر کررہے ہیں اور دعویٰ کیا ہے کہ " ان کا کسی اور سے بھی زیادہ بڑا نقصان ہوا ہے"۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ دھماکہ " خدا کا قہر" تھا کیونکہ وینٹی لیشن کا مناسب انتظام تھا۔
ایک سابق صوبائی وزیر اور کوئلے کی کان کے مالک سردار حیدر خان ناصر کے مطابق یہ واقعہ کان کنوں کی بدترین حالت کا ایک افسوسناک اعادہ ہے " ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں جو ان کے حقوق کے لیے کھڑے نہیں ہوئے"۔
دو سال قبل سردار حیدر خان کانوں کے مالک کی ایک ٹیم کا حصہ تھے جس نے ایک فرنٹیئر کور کے ساتھ ایک معاہدے کے منصوبے کو تیار کیا تھا۔
چونکہ لوکل گورنمنٹ کا وجود نہیں تھا تو فیصلہ کیا گیا کہ دو سو بیس روپے تین محکموں میں تقسیم کیے جائیں گے، ایف سی کو دو سو روپے ملیں گے، جبکہ محکمہ کان کنی اور ضلعی حکومت کے حصے میں دس، دس روپے آئیں گے۔
یہ معاہدہ سیکیورٹی کو یقینی بنانے، تعمیری اداروں کی فراہمی ارگرد کے علاقے میں طبی سہولیات فراہم کرنے کے لیے تھا مگر اس پر اب تک عملدرآمد نہیں ہوا۔
سردار حیدر بتاتے ہیں " جب ہم ایف سی کے نو منتخب لیفٹننٹ جنرل ناصر خان جنجوعہ سے ملیں تو انہوں نے بتایا کہ ایف سی دکی کی متعدد کانوں سے سیکیورٹی فیس کے طور پر بارہ لاکھ روپے روزانہ کما رہی ہے، مگر ہم بھی اس واقعے کے ذم ہدار ہیں کیونکہ ہم ایسے معاملات کو جب ہی اوپر لاتے ہیں جب کچھ بڑا ہوجاتا ہے، ورنہ ہم دولت اور ان وسائل میں مگن رہتے ہیں جو ہم استعمال کررہے ہوتے ہیں"۔