سانحہ بلدیہ ٹاﺅن کی نئی تحقیقات شروع
کراچی : ایک چار رکنی ٹیم نے کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاﺅن میں فیکٹری میں آتشزدگی کے واقعے کی نئی تحقیقات کا آغاز کردیا ہے اور اس نے روزانہ کی بنیاد پر پولیس کی پہلی تحقیقاتی رپورٹ کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے جس میں سات ہزار کے لگ بھگ دستاویزات شامل ہیں۔
اس نئی تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی ایڈیشنل انسپکٹر جنرل آف سندھ پولیس خادم حسین بھٹی کررہے ہیں جنھوں نے سب سے پہلے اس کیس کے تحقیقاتی افسر سب انسپکٹر جہانزیب کو طلب کیا جس کے بعد پہلا اجلاس ہوا۔
اس اجلاس کے حوالے سے میڈیا کو جاری مختصر بیان میں کہا گیا ہے " سانحہ بلدیہ کے سابق تحقیقاتی آفیسر سب انسپکٹر جہانزیب کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے اور کیس کی تفصیلات سے آگاہ کیا، اے آئی جی کرائم برانچ کادم حسین بھٹی، ڈی آئی جی مشتاق مہر، رینجرز کے کرنل سجاد بشیر اور ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر الطاف حسین پر مشتمل کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ روزانہ کی بنیاد پر اجلاس کیے جائیں گے تاکہ دوبارہ تحقیقات کا یہ عمل جلد از جلد مکمل کرلیا جائے"۔
محکمہ داخلہ سندھ نے گزشتہ ہفتے اس سانحے کی نئی تحقیقات کے لیے نئی ٹیم کو تشکیل دیا تھا تاکہ تمام پہلوﺅں کو جانچا جاسکے۔
حکام نے کمیٹی کے پہلے اجلاس کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا ، اس کے ساتھ ساتھ تحقیقاتی ٹیم کے مینڈیٹ کے بارے میں بھی کچھ نہیں بتایا گیا۔
تاہم پہلے اجلاس کی تفصیلات سے واقف ذرائع نے بتایا ہے کہ سابق تحقیقاتی افسر کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کا جائزہ لینا ہی اب تک چار رکنی کمیٹی کا اہم ترین مقصد ہے۔
ذرائع نے بتایا " پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ سات ہزار دستاویزات پر مشتمل ہے"۔
ان کا مزید کہنا تھا " ان دستاویزات میں فیکٹری مالک، بچنے والے ورکرز، فائر فائٹرز اور علاقے کے لوگوں کے بیانات بھی شامل ہیں، جبکہ تصاویر، فوٹیج، شواہد، عدالتی کارروائی کا ریکارڈ اور دیگر جو ہر تحقیقاتی رپورٹ میں معمول کا حصہ ہوتے ہیں"۔
ذرائع کے مطابق نئی کمیٹی پہلے سابقہ تحقیقاتی رپورٹ میں سامنے آنے والے حقائق کو جانے گی جس کے بعد وہ اپنے کام کا آغاز کرے گی۔
ذرائع نے بتایا کہ تحقیقاتی رپورٹ کے معائنے کے بعد کمیٹی جائے حادثہ کا دورہ کرے گی، سابقہ تحقیقاتی ٹیم کے اراکین، بچ جانے والے فیکٹری ورکرز، عینی شاہدین کے بیانات ریکارڈ کرے گی اور شواہد کے فارنزک تجزئیے سمیت ہر ممکن پہلو کو اختیار کرے گی تاکہ آتشزدگی کی وجہ کو سامنے لایا جاسکے۔
ستمبر 2012 میں پیش آنے والا یہ سانحہ رواں ماہ کے شروع میں اس وقت شہ سرخیوں کا حصہ بنا جب رینجرز کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی ایک رپورٹ سندھ ہائیکورٹ میں جمع کرائی گئی جس میں مشتبہ ملزم رضوان قریشی نے اس آتشزدگی کا الزام متحدہ قومی موومنٹ پر عائد کیا جس میں 258 ورکرز اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے تھے۔
اگرچہ ہائیکورٹ نے حکم دیا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی سچائی اور تعلق کا تعین مناسب فورم میں ہوگا اور ٹرائل کورٹ سانحہ بلدیہ کیس کا فیصلہ ایک سال میں کرے گی، تاہم ملزم کے بیان نے سیاسی اور حکومتی صفوں کے اندر ہلچل اور شدید ردعمل ضرور پیدا کیا۔
اس کے بعد وزارت داخلہ نے چھ افراد کے نام ای سی ایل میں تفتیش کاروں کی سفارشات پر ڈال دیئے جن میں سے پانچ نام جے آئی ٹی رپورٹ میں بھی رپورٹ ہوئے تھے اور انہیں ایم کیو ایم کے سنیئر اراکین قرار دیا گیا تھا۔
ذرائع نے بتایا " تحقیقاتی ٹیم کا پہلا اجلاس درحقیقت تحقیقات کے انداز کو طے کرنے کے لیے ہوا اور اس مقصد کے لیے سابقہ رپورٹ میں سامنے آنے والے حقاق اور غلطیوں کا جائزہ لینے کا فیصلہ ہوا، اس تحقیقات کو مکمل ہونے میں وقت لگے گا کیونکہ یہ ڈھائی سو سے زائد زندگیوں کا معاملہ ہے جس کے لیے انتہائی احتیاط اور حساسیت کو اپنانے کی ضرورت ہے"۔
تبصرے (1) بند ہیں