'افغانستان آئی ایس کی محفوظ پناہ گاہ بن جائے گا'
واشنگٹن: سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) کے ایک سابق سینئر اہلکار نے خبردار کیا ہے کہ مغربی افواج کے انخلاء اور ان کی توجہ دوسری جانب مبذول ہونے کے بعد خطرہ ہے کہ افغانستان دوبارہ انتہاپسندوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بن جائے گا۔
اسلام آباد میں سی آئی اے کے سابق اسٹیشن چیف اور ایک نئی کتاب کے مصنف رابرٹ گرینیئر نے کہا اب عراق اور شام میں جنگ چھڑجانے کے بعد یہ ملک اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں کے لیے ایک پناہ گاہ بن سکتا ہے۔
’’قندھار میں 88 دن ‘‘ کے عنوان کے تحت انہوں نے گیارہ ستمبر کے بعد 2001ء کے دوران افغانستان میں طالبان حکومت کا تختہ الٹنے میں مدد دینے کے دلخراش تجربات پر مبنی یادداشتیں قلمبند کی ہیں۔
رابرٹ گرینیئر نے نیو امریکا تھنک ٹینک کے زیراہتمام منعقدہ ایک تقریب کے موقع پر کہا ’’میں یہ کہوں گا کہ اگر مستقبل میں افغانستان کے محفوظ پناہ گاہ بن جانے کا کسی قسم کا خطرہ ہے تو یہ ممکن ہے اور یہاں تک کہ یہ 9/11 سے پہلے کی حالت پر چلا جائے گا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اگر ان سے پناہ کی درخواست کی گئی تو افغان طالبان، پاکستانی طالبان یا اسلامک اسٹیٹ کی طرز کے دیگر انتہاپسندوں میں اپنے اتحادیوں کو انکار نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’پاکستان کے اندر ان کے گروپس موجود ہیں، جو اسلام آباد حکومت پر حملے کر رہے ہیں۔ وہ ان سے دوری اختیار نہیں کریں گے۔‘‘
رابرٹ گرینیئر کے مطابق طالبان جس شرط پر چیزوں کو دیکھتے ہیں، اور جس سوال پر فیصلہ کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ ’’کیا یہ اسلام کے ساتھ مخلص ہے یا نہیں؟‘‘ ’’اور سرحد پار جو لوگ ان کے نظریاتی اتحادی ہیں، وہ ان سے پیٹھ نہیں پھیریں گے۔‘‘
انہوں نے کہا ’’اگر ایک مربتہ دوبارہ اس خطے میں ان کا کوئی اہم رکن واپس آیا تو مجھے یقین نہیں ہے کہ وہ ان بین الاقوامی دہشت گردوں سے بے رخی اختیار کریں گے، اس لیے میں خوفزدہ ہوں کہ اگر ان کی قسمت نے ساتھ دیا تو وہ اس خطے کو بدترین موڑ پر لے آئیں گے۔‘‘
طالبان چیف کا ہدف
رابرٹ گرینیئر کی کتاب میں بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح 2001ء کے دوران ’’تیس منٹوں‘‘ میں امریکی جہازوں نے طالبان رہنما ملّا عمر کو نشانہ بنانے کا موقع کھودیا تھا، اور کسی طرح امریکیوں کے بم حملے میں نادانستگی میں حامد کرزئی ہلاکت کے قریب پہنچ گئے تھے۔
اس کے علاوہ انہوں نے طالبان کے دوسرے نمبر کے رہنما کے ساتھ 9/11 کے بعد کے دنوں میں مذاکرات ایک سودے کے آخری مرحلے پر آکر ختم ہوگئے تھے، جس میں رابرٹ نے اپنے ہم منصب کے ساتھ ملّا عمر کو توڑنے اور ایک بغاوت کروانے کی کوشش کی تھی۔ یہ کوشش ناکام ہوگئی تھی۔
سی آئی اے کے سابق افسر نے کہا کہ انہیں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی کوششوں پر شبہ تھا کہ وہ کامیابی سے ہمکنار ہوں گی، اس لیے کہ یہ باغی اب بھی یقین رکھتے ہیں کہ وہ حکومت کا تختہ پلٹ سکتے ہیں اور کابل پر دوبارہ برسرِ اقتدار آسکتے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ گروپ سیاسی حکمرانی یا پارلیمانی سیاست میں حصہ لینے کے قابل نہیں تھا۔
رابرٹ گرینیئر جنہیں 2006ء میں سی آئی اے چھوڑنے سے پہلے کئی دیگر سینئر عہدوں پر بھی ترقی ملی، کہتے ہیں کہ ان کی کتاب یہ داستان سناتی ہے کہ امریکا کس طرح تیزی سے جنگ جیتتا چلا گیا تھا، جسے اس نے 2001ء میں اپنی پہلی امریکن افغان جنگ قرار دیا تھا، اور کس طرح دوسری امریکن افغان جنگ میں کامیابی حاصل نہیں کی تھی۔ اس کتاب کا اختتام اس انتباہ کے ساتھ ہوتا ہے، کہ جب ہم دوبارہ تیسری امریکن افغان جنگ میں حصہ لیں تو کس طرح ماضی کی غلطیوں پر نظرثانی کی جاسکتی ہے۔
دو برس میں انخلاء کی وجہ سے امریکا کی قیادت میں ایک مختصر فوج افغانستان میں رہ جائے گی، چنانچہ رابرٹ کہتے ہیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ امریکا اور دیگر مغربی حکومتیں اپنے فوجیوں کے کابل چھوڑنے کے بعد افغان حکومت کو ترک کردیں گی اور مالی مدد فراہم کرنے میں ناکام رہیں گی۔
اپنی کتاب میں انہوں نے طالبان باغیوں کے خلاف جنگ کی ایک دہائی سے زیادہ عرصے کی وراثت کا ایک انتہائی ڈراؤنا نکتہ نظر پیش کیا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’’اربوں ڈالرز کے خرچ اور جانوں کے نقصان کے ساتھ اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ ہمارے جانے کے بعد یہ سب طویل عرصے تک باقی نہیں رہے گا۔‘‘