سکیورٹی: ہے لیکن نہیں ہے
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں کے ساتھ ایک جنگل لگتا تھا جہاں بھانت بھانت کے جانور پائے جاتے تھے اور نظامِ حکومت جمہوری ہونے کی وجہ سے گیڈروں کی اجارہ داری تھی۔ ایک دن ایک گیدڑ راستہ بھول کر گاؤں میں گھس گیا۔ جب اس نے لہلہاتے سر سبز کھیت دیکھے تو اس نے اپنی بساط کے مطابق نقصان کیا اور واپس بھاگ گیا۔
گاؤں والوں نے شروع شروع میں تو اہمیت نہ دی کہ ایک دو گیدڑ اگر آتے جاتے بھی ہیں تو کوئی بات نہیں۔ مگر پھر کچھ ہی دنوں میں گیدڑ جتھوں کی صورت میں آتے اور نقصان کر کے واپسی کی راہ لیتے۔ جب یہ واقعات تسلسل سے ہونے لگے تو گاؤں والوں کو ہوش آیا اور چند سیانے اکٹھے ہوئے اور پہلے مرحلے پر طے پایا کہ افہام و تفہیم سے معاملات حل کیے جائیں۔ کافی دن تک ملاقاتوں کا سلسلہ چلتا رہا اور آخر یہ طے پایا کہ ہمسائیوں سے لڑائی جھگڑے کرنا کم عقلی ہوگی، تو کیوں نہ ایک مخصوص رقبہ ان کے لیے کاشت کر کے مختص کر دیا جائے جہاں یہ اپنا شوق پورا کریں؟
کچھ دن امن و سکون سے گزرے مگر گیدڑوں نے مخصوص علاقے سے بھی باہر نکل کر دوسرے کھیت اجاڑنا شروع کر دیے۔ اب کی بار گاؤں کے سیانوں نے طے کیا کہ جس طرف سے گیدڑ حملہ آور ہوتے ہیں وہاں دیوار بنا دی جائے۔ دن رات لگا کر آخر دیوار کھڑی کر دی گئی۔
پڑھیے: ایک کہانی ، بہت پرانی
کچھ دن تو دیواریں کام آتی رہیں، مگر پھر گاؤں والوں نے دیکھا کہ گیدڑ ان کے کھیتوں میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ گاؤں والوں نے وہ دیوار اور بلند کر دی مگر وہ دیوار بلند کرتے چلے جاتے اور ہر بار گیڈر اندر آجاتے۔ اب دیوار نے آسمان کی بلندیوں کو چھونا شروع کر دیا تھا۔ پرندے بھی اسے پار کرنے سے قاصر تھے مگر گیدڑ تھے کہ ناچتے کودتے آتے اور اپنا کام کر کے واپسی کی راہ لیتے۔
آخر کار گاؤں والوں نے تنگ آ کر ایک بوڑھے گیدڑ کو روکا اور منتیں کرنا شروع کر دیں کہ آخر ان کے پاس کیا جادوئی طاقت ہے جو اتنی بلند و بالا دیوار بھی انہیں روک نہیں سکتی۔ بوڑھے گیڈر نے دانت نکالتے ہوئے کہا کہ کم عقلو ہم دیوار سے تھوڑی آتے ہیں، تم انسانوں نے دیوار کا کام ہماری طرف سے شروع کیا اور اپنی واپسی کے لیے ایک دروازہ رکھا۔ ہر بندہ یہ سوچ کر بند نہیں کرتا کہ بعد میں آنے والا بند کر دے گا اور یوں وہ دروازہ کھلا رہ جاتا ہے اور ہم اسی سے آ جاتے ہیں۔
مجھے یہ بھولی ہوئی کہانی آج یاد آئی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ حال ہی میں مجھے ایک کام کے سلسلے میں اپنے پوسٹ گریجویٹ کالج جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں زور و شور سے نہ صرف دیوار کا کام جاری تھا، بلکہ سردیوں کی چھٹیاں بھی بڑھا دی گئی تھیں۔ کچھ روز میں دیکھتے دیکھتے ہی چاروں طرف ایک بلند و بالا فصیل قائم کر دی گئی۔ میں نے جب اور تعلیمی اداروں کی طرف بھی دیکھنا شروع کیا تو وہاں بھی تعمیرات کا یہی سلسلہ دیکھنے کو ملا بلکہ اس سب کی آڑ میں مخصوص کاروباری حضرات نے خاردار تاروں، سکینرز، اور کیمروں کی نہ صرف قلت پیدا کرنے کی کوشش کی بلکہ انتہائی غیر معیاری آلات بھی دوہری قیمت پر تعلیمی اداروں کو فروخت کیے گئے۔
مزید پڑھیے: اسکول کا منظر: کتابیں، اسلحہ، اور گولیاں
ہمارے ہاں بعض اعلیٰ برانڈ کے تعلیمی اداروں کے پاس اضافی سپیڈ بریکرز کے ساتھ ساتھ آڑھی ترچھی رکاوٹیں بھی بڑھا دی گئی ہیں کہ یوں لگتا ہے جیسے آپ اپنے بچے کو سکول چھوڑنے نہیں بلکہ ایمبیسی میں ویزہ فارم جمع کروانے جا رہے ہیں۔ اور پھر اب اساتذہ کو پستول اور ایس ایم جی چلانے کی تربیت کا بھی آغاز کر دیا گیا ہے۔ جن جن ذی شعور لوگوں نے یہ فیصلہ سنا ہے، سب ہی اس بات سے پریشان ہیں کہ کلاس رومز میں ہتھیاروں کی موجودگی سے بچوں کے ذہنوں اور سکیورٹی پر کیا اثرات پڑیں گے۔
میں حکومتِ وقت کے اقدامات کی نفی نہیں کر رہا مگر کیا کروں کہ جب بھی یہ شجر لگاتی ہے تو اس کا پھل کسی اور کی گود میں، اور سوکھے پتے اور ٹہنیاں میرے سر پر آ کر لگتی ہیں۔ کوئی سا بھی موسم ہو یا تہوار، ہماری مشکلات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بجلی گیس کا کیا غم کرنا اب تو ہر تہوار پر موبائل سروسز اور ڈبل سواری کی پابندی بھی خون میں رچ بس گئی ہے۔ سکیورٹی رسک کے نام پر پہلے تو رعایا کو اداروں سے دور کھڑا کر دیا گیا اور اب مذہبی اور تعلیمی اداروں میں بھی عجیب خوف کو ہوا دی جا رہی ہے۔ شاید اب ہمارے کسی سیانے کو کسی بوڑھے گیدڑ کو روک کر درخواست کرنا ہی ہوگی کہ جنابِ والا! ان تمام انتظامات کے باوجود آخر گیدڑ کیسے اندر تک پہنچ جاتے ہیں۔
تبصرے (3) بند ہیں