میڈیا کا آئی ٹیسٹ
پرانے زمانے میں لوگ حکایتیں بیان کرتے تھے جسے لوگوں کی بھلائی کے لیے آگے بڑھانے کی اجازت تھی۔ ایسی ہی آج کی ایک حکایت ہم بھی بیان کرتے ہیں جو ایک حد تک حقیقت کے قریب ہے۔
قصہ کچھ یوں ہے کہ پاکستانی میڈیا کی آنکھیں ٹیسٹ کرنے کے لیے اسے ماہرین کے ایک پینل کے سامنے پیش کیا گیا۔ وہاں ڈاکٹروں کے علاوہ عام افراد بھی تھے جو چاہتے تھے کہ میڈیا دیگر اہم مسائل کو بھی کوریج دے۔
سب سے پہلے نظر ٹیسٹ کرنے کے لیے ایک بورڈ دکھایا گیا۔ آئی ٹیسٹ کے روایتی بورڈز میں انگریزی یا اردو کے حروف یا نمبر ہوتے ہیں جو بڑے، پھر چھوٹے اور پھر اس سے چھوٹے ہوتے ہیں۔ اس بورڈ پر بھی انگریزی اور اردو میں چند اہم نام لکھے تھے لیکن وہ سارے نام ایک ہی سائز اور انداز میں لکھے تھے یعنی کوئی لفظ چھوٹا بڑا نہ تھا اورسب برابر تھے۔ میڈیا نے پہلی لائن کے تین حروف فوراً پڑھ لیے اور تیز آواز میں کہا، سیاست ، سیاست اور سیاست۔ حالانکہ بورڈ پر لکھا تھا سیاست، معیشت اورتعلیم۔
میڈیا کو یہ پڑھتا دیکھ کر ڈاکٹر اوردیگر لوگ حیران رہ گئے اور ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ آخر یہ اہم الفاظ میڈیا کو کیوں نظر نہیں آرہے۔ ایک عام آدمی نے کہا کہ تم معیشت کیوں نہیں پڑھ پارہے؟
ایک ڈاکٹر نے بیزاری سے کہا ’تعلیم کا بیڑہ غرق ہوگیا ہے اور وہ آپ کو نظر ہی نہیں آتی۔'
میڈیا پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اپنے ہاتھ میں مائک لہرارہا تھا۔
آخر کار ڈاکٹر نے اس کی آنکھوں کے سامنے حب الوطنی کا لینس لگایا اور کہا کہ اب پڑھیے۔ میڈیا نے پھر پکارا ’سیاست، سیاست اور سیاست۔' اب ڈاکٹروں نے مایوس ہوکر دوسری لائن پڑھنے کو کہا۔
دوسری لائن میں چار الفاظ تھے، بلوچستان، گلگت بلتستان اور آئی ڈی پیز۔ اس بار میڈیا نے کہا کہ وہ چاروں الفاظ نہیں پڑھ سکتا۔ لیکن ڈاکٹروں کے اصرار پر اس نے کہا کہ شاید بورڈ پر اسلام آباد اور پی ٹی آئی لکھا ہے۔
ایک آدمی کھڑا ہوگیا اور غصے سے کہنے لگا، ’ تمہیں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان اور اس کے مظلوم عوام کی کوئی خبر ہے؟‘ اس پر میڈیا خاموش رہا۔
اتنے میں ایک ڈاکٹر نے فوراً لالچ کے دو دو ڈراپس میڈیا کی دونوں آنکھوں میں ٹپکائے تو اسے کچھ یاد آیا اور اس نے کہا کہ ہاں بلوچستان میں سونا، چاندی اور تانبا ہے!
سول سوسائٹی کے عام فرد نے میز پر مکا مار کر کہا، ’لیکن تمہیں بلوچستان کے عام آدمی کا کوئی خیال کیوں نہیں ہے؟۔'
میڈیا کے چہرے پر ذرا سی بھی پشیمانی نہ تھی اور اس نے عام فرد سے کہا کہ وہ اپنا کام کرے ورنہ وہ اس کے کارخانے پر چھاپہ مار کر کوئی بریکنگ اسٹوری بنادے گا۔
تیسری لائن میں بچے، صحت، دیہی عوام، اقلیتیں، سائنس وٹیکنالوجی، ادب اور زراعت وغیرہ جیسے الفاظ تحریر تھے۔
میڈیا نے کہا، ’ناں! میں کچھ بھی نہیں پڑھ سکتا! شاید عورت اور انٹرٹینمنٹ لکھا ہے، یا شاید بولی وڈ کا کوئی گانا۔'
سارے ڈاکٹر مایوس ہوچکے تھے۔ ایک نے کہا کہ اس ملک میں کروڑوں بچے ہیں، کیا میڈیا کے پاس ان معصوم بچوں کے لیے کوئی پروگرام ہے؟ یا پھر صحت کے گھمبیر مسائل کا کوئی حل ہے؟
میڈیا نے معصومیت سے کہا، ’ایک بچہ گٹر میں گر گیا تھا اور ہم نے اس کی بریکنگ نیوز کا لال ڈبا 200 مرتبہ چلایا تھا، آخر اور آپ ہم سے کیا چاہتے ہیں؟‘
ضمیر کلینک میں میڈیا کے علاوہ تمام افراد سر پکڑ کر بیٹھے تھے۔ آپس میں مشورے ہورہے تھے کہ آخر یہ کون سی بیماری ہے جس کی تشخیص نہیں ہورہی۔
ڈاکٹروں نے اس کے لیے حکیم ’اخلاقیات‘ اور بیگم ’ذمے داری‘ سے بھی رابطہ کیا۔ اخباروں میں نظریاتی صحافت کی تعریف بار بار پڑھی لیکن مرض کی تشخیص نہیں ہورہی تھی۔
میڈیا نے مصروفیت کا کہہ کر رخصت چاہی اور تیز قدموں سے کلینک سے باہر نکل گیا۔
معاشرے کے ایک معالج نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا، ’آخر میڈیا کی اس نابینائی کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟'
کئی گھنٹوں کی بحث اور غور کے بعد سب نے اپنے اپنے خیالات ایک کاغذ پر لکھے اور اس خوفناک بیماری کی وجہ لکھی۔
ایک ڈاکٹر نے لکھا، ’میڈیا کو سنسنی کا دورہ پڑا تھا جس کا اثر آنکھوں پر ہوا تھا۔‘
دوسرے نے کہا کہ شاید اس کی وجہ ریٹنگ کا سانپ ہے جس نے میڈیا کو ڈس لیا ہے، اس کے نیوروٹاکسن بہت خوفناک ہوتے ہیں۔
لیکن دو افراد نے بہت ہی اچھی تشخیص کی اورانہوں نے ایک کاغذ پر بڑے بڑے حرفوں میں لکھا:
’میڈیا کی دونوں آنکھوں کی ایک ایک رگ خراب ہے، دائیں آنکھ کی رگ میڈیا سیٹھوں کے پاؤں تلے دبی ہوئی ہے اور دوسری رگ کو ’بے حسی‘ کا عارضہ ہے۔ اور اس کا علاج کسی کے پاس نہیں ۔۔۔۔ میڈیا اپنی دوا خود ہے۔