'امیر المومنین' بننے کے لیے جنگ
جہادی زیرزمین دنیا کبھی بھی ایسی نہ تھی، اعلیٰ ترین جہادی قیادت سے لے کر عالم دین اور یہاں تک کہ ان کے پرجوش حامی سب عسکریت پسندانہ منظرنامے میں بدلتی وفاداریوں اور خونریزی جیسے رجحانات کے اسٹریٹجک مسائل اور مباحثے میں الجھے ہوئے ہیں۔
اس تناظر میں حالیہ عرصے میں دولت اسلامیہ عراق و شام (آئی ایس آئی ایس) کے ابھرنے اور چھانے کے بعد خودساختہ 'امیر المومنین' کی پوزیشن کے لیے جنگ سب سے زیادہ اہم ہوگئی ہے۔
دولت اسلامیہ کی پیدائش
سال 1999 میں اردن سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند ابو معصب الزرقاوی نے اردن میں جماعت التوحید الجہاد کو حکومتی تختہ الٹنے کے مقصد سے تشکیل دیا،2003 میں عراق میں امریکی حملے کے بعد الزرقاوی اپنے گروپ کے ہمراہ امریکی فوج سے لڑنے کے لیے عراق منتقل ہوگیا۔
اس کے گروپ نے وہاں شعیہ برادری پر امریکا سے تعاون کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اسے نشانہ بنانا شروع کردیا، سال 2004 میں اس گروپ نے القاعدہ کی اطاعت قبول کرلی جس کے نتیجے میں القاعدہ کی عراقی شاخ کا نام القاعدہ فی بلاد ال رافدین رکھ دیا گیا۔
سال 2006 میں عراقی سرزمین پر متعدد عسکریت پسند گروپس کام کررہے تھے اور اس موقع پر کچھ طاقتوں نے اسلامک اسٹیٹ آف عراق (آئی ایس آئی) کو تشکیل دیا، یہ 1996 میں افغانستان میں تشکیل دیئے جانے والے طالبان گروپ سے ملتا جلتا گروپ تھا۔
ابو عمر البغدادی اس گروپ کا سربراہ مقرر ہوا، افغانستان کے ملاعمر کی طرح ابو عمر نے بھی اپنے لیے 'امیر المومنین' کا لقب پسند کیا، بعد میں ابوعمر کی جگہ ابوبکرالبغدادی نے لے لی جس نے شام کی جانب عسکریت پسندوں کی ایک چھوٹی ٹیم بھیجی تھی۔
اس ٹیم کی قیادت ابو محمد الجولانی نامی فرد نے کی تھی، ابوبکر البغدادی کی جانب سے اس ٹیم کو تیکنیکی معاونت اور سامان وغیرہ مسلسل فراہم کیا جاتا رہا اور اس کا مشن بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔
الجولانی کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ ‘آئی ایس آئی’ سے اپنے رابطے کو ظاہر نہیں کرے گا اور وہاں ایک مقامی گروپ کے طور پر کام کرے گا جس کا مقصد بین الاقوامی پابندیوں کے امکانات کو کم کرنا تھا، جولانی کا گروپ آج بھی وہاں جبات النصرہ (جے این) کے نام سے سرگرم ہے۔
سال 2013 میں ابوبکر البغدادی نے اعلان کیا کہ جے این درحقیقت ان کے عسکریت پسند گروپ آئی ایس آئی کا حصہ ہے اور وہ اسے ضم کرکے اب دولت اسلامیہ عراق و شام کو تشکیل دے رہے ہیں، جولانی نے اس کے ردعمل میں کہا کہ اس معاملے پر اس سے مشاورت نہیں کی گئی اور اس نے القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری سے وفاداری کا اعلان کردیا۔
سال 2014 میں ابوبکر البغدادی نے 'اسلامی خلافت' کا اعلان کیا اور ‘آئی ایس آئی ایس’ کا نام تبدیل ہوکر دولت اسلامیہ (آئی ایس) کردیا گیا۔
کچھ لوگ اس گروپ کو ‘آئی ایس آئی ایل’ بھی کہتے ہیں، اس کا آفیشل نام ‘آئی ایس آئی ایس’ ہی ہے جسے داعش کے نام سے بھی جانا جاتا ہے تاہم اس گروپ نے کبھی خود کو داعش کے نام سے نہیں پکارا۔
‘آئی ایس آئی’ سے ‘آئی ایس آئی ایس’ کے بعد ‘آئی ایس’ تک کی تبدیلی ایک خودساختہ 'ریاست' میں تبدیلی کے مراحل کی وضاحت کرتا ہے۔
مذہبی جنگیں
آئی ایس آئی ایس نے جولانی کے ردعمل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جب تک وہ ابوبکر البغدادی کے زیرتحت ہے اس کے پاس اطاعت کے سوا کوئی آپشن نہیں، اس موقع پر القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری نے مداخلت کی اور آئی ایس آئی ایس کو عراق تک محدود رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے جے این اور دیگر گروپس کو شام میں کام کرنے کی اجازت دی۔
دولت اسلامیہ نے اس ہدایت کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ایک گروپ کی حیثیت سے القاعدہ ایک 'ریاست' کے ماتحت ہے، اس بحث نے بڑی تعداد میں مسلم عالم دین کی توجہ اپنی جانب مرکوز کرالی جو ابوبکر البغدادی کی جانب سے عالم دین اور دنیا بھر کے جہادی گروپس کو اعتماد میں لیے بغیر ایک 'اسلامی ریاست' کے اعلان کو تنقید کا نشانہ بنانے لگے۔
آئی ایس نے اس کے جواب میں یہ جواز پیش کیا کہ اس کے پاس اتنا بڑا خطہ اور طاقت ہے جو کسی اور جہادی گروپ کے پاس نہیں، اس نے اپنے زیرتحت علاقوں میں شریعت کو نافذ کررکھا ہے اور خلیفہ کے انتخاب کے اصول کو پورا کیا ہے۔
قتل و غارت کے اس دور کا آغاز عراق میں 2005 میں شعیہ برادری کے قتل عام سے ہوا، ابومعصب الزرقاوی نے اس برادری کو نشانہ بنایا تاہم اس دور کی القاعدہ کی مرکزی قیادت نے الزرقاوی سے رابطہ کرکے اس قتل عام سے گریز کی ہدایت کی کیونکہ اس سے ایران کے ساتھ القاعدہ کی غیراعلانیہ اسٹریٹجک مفاہمت پر اثرات مرتب ہورہے تھے۔
ملاعمر |
الزرقاوی نے اس بات کو ماننے سے انکار کردیا اور اس کی پالیسیوں کے نتیجے میں القاعدہ اور ایران کے تعلقات میں خرابی آئی۔
عراق میں دولت اسلامیہ کے ابھرنے کے بعد شعیہ برادری کے ساتھ سنی برادری کو بھی حکومت کے ساتھ اتحاد کے نام پر قتل عام کا نشانہ بنایا گیا، آئی ایس آئی ایس کے نام سے توسیع کے بعد اس گروپ کا شام میں القاعدہ کے نئے اتحادی جے این سمیت متعدد جہادی گروپس سے تصادم ہوا۔
اسد مخالف جہادی دھڑے آئی ایس آئی ایس پر اپنے آٹھ سو سے زائد ساتھیوں کی ہلاکت اور حالات، بشار الاسد کے حق میں بدلنے کا الزام عائد کرتے ہیں، اس عسکریت پسند تحریک نے سیکیولر کرد قوم پرستوں کے خلاف بھی محاذ کھولا جن پر 'اسلامی ریاست' کی تشکیل کی مخالفت کا الزام لگایا گیا۔
مقامی جہادی گروپس کا موقف
پاکستان سمیت دنیا بھر کے اہم جہادی گروپس نے ملا عمر کی حمایت جاری رکھی اور حال ہی میں متعدد نے ایک بار پھر افغان طالبان کمانڈر کی اطاعت کا اعادہ کیا، ان گروپس میں تحریک طالبان پاکستان (فضل اللہ)، ٹی ٹی پی (سجنا)، جماعت الاحرار، القاعدہ سینٹرل، القاعدہ برصغیر پاک و ہند (اے کیو اے پی)، حقانی نیٹ ورک، گل بہادر گروپ، تحریک غلبہ اسلام، انصار المجاہدین اور لشکر جھنگوی قابل ذکر ہیں۔
مختلف گروپ سے تعلق رکھنے والے افراد کی بڑی تعداد شام منتقل ہوئی جہاں انہوں نے 'دولت اسلامیہ' یا القاعدہ کے اتحادی جے این گروپ میں شمولیت اختیار کی۔
ملا عمر کی حمایت کیوں؟
متعدد جہادیوں کو ملا عمر کے ساتھ کام کرتے ہوئے تین دہائیوں سے بھی زائد عرصہ ہوچکا ہے اور وہ ان سے جذباتی طور پر مضبوطی سے جڑ چکے ہیں، ان کی نظر میں ملاعمر جہاد میں اتحاد کی نمائندگی کرتے ہیں خاص طور پر القاعدہ کو لگتا ہے کہ افغان کمانڈر نے نائن الیون واقعے کے بعد اسامہ بن لادن اور دیگر عرب کمانڈرز کو امریکا کے حوالے کرنے کی بجائے اپنی حکومت قربان کرنے کو ترجیح دی۔
ملاعمر کے کچھ حامی ابوبکر البغدادی کی جانب سے خود کو 'امیرالمومنین' قرار دینے کے اعلان پر بھی سوالات اٹھاتے ہیں جبکہ ایک شخص پہلے ہی یہ خطاب اپنے نام کیے ہوئے ہے۔
وہ اس حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا حوالہ دیتے ہیں جس کے مطابق اس دوسرے فرد کو ہلاک کردیا جانا چاہئے جو ایک امام (رہنما) کی موجودگی میں خود کو امام قرار دے۔
تاہم کراچی کے مدرسہ علی مرتضیٰ کے ایک استاد مفتی طاہر جامی نے بتایا ہے کہ مختلف سطحوں پر کئی امیر ہوسکتے ہیں "چھوٹے یونٹس سے لے کر بڑے انتظامی علاقوں تک متعدد امیر ہوسکتے ہیں"۔
انہوں نے مزید کہا "جس چیز کی اجازت نہیں وہ ایک وقت میں ایک سے زیادہ خلیفہ ہونا ہے، جب ایسا ہوتا ہے تو اس فرد سے چھٹکارا حاصل کیا جاتا ہے جس نے دوسرے نمبر پر خود کو خلیفہ قرار دیا ہے، مگر یہ مسئلہ اس وقت موجود نہیں کیونکہ البغدادی نے خود کو خلیفہ قرار دیا ہے جبکہ ملاعمر نے خود کو ایک امیر کے عہدے تک محدود کر رکھا ہے"۔
البغدادی کی حمایت کیوں؟
دولت اسلامیہ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ تمام مسلمانوں پر فرض ہوگیا ہے کہ ابوبکر البغدادی کی اطاعت تسلیم کریں۔ وہ القاعدہ پراپنے اصولوں سے 'انحراف' کا الزام عائد کرتے ہیں، جس نے اپنے اصولوں کو ترک کرکے زیادہ "کاروباری" سوچ اختیار کرلی، سخت گیر عسکریت پسند اس سوچ کو بھی سیکیولر نظریے کی طرح مسترد کرتے ہیں۔
القاعدہ سے دولت اسلامیہ کا حصہ بن کر شام منتقل ہونے والے ایک شخص عبدالرحمان کے مطابق "لگتا ہے کہ ملا عمر کے لیے سب سے اہم کام افغانستان میں اپنی حکمرانی کو بحال کرنا ہے، انہوں نے اپنے بیانات میں پڑوسی ریاستوں کے معاملات میں عدم مداخلت کی بات کی ہے، تو کیا افغان طالبان میں قومی ریاست کا تصور ابھر رہا ہے؟ ہم نے اتنی زیادہ قربانیاں قوم پرستی کے مقاصد کے لیے نہیں دی تھیں، ہمارا تصور ایک امت اور ایک قوم ہے"۔
القاعدہ کی میڈیا ٹیم کے ایک سینئر رکن سے تبادلہ خیال کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اس حوالے سے باضابطہ پالیسی یہ ہے کہ اس تنازعے پر کھلے عام بیانات دینے سے گریز کیا جائے، تاہم اس شخص نے نام چھپانے کی شرط پر بتایا "ہر مسلمان سمجھتا ہے کہ ایک خلافت کی اطاعت امت کی بحالی نو کے لیے ضروری ہے، مگر بدقسمتی سے آئی ایس آئی ایس نے بڑی تعداد میں مجاہدین کو ہلاک کیا جو ایک خلافت کے قیام کے لیے کام کر رہے تھے، وہ اپنے موقف میں انتہاپسند تنظیم ہے اور مجاہدین تک کو غدار قرار دیتی ہے، اس انتہاپسند تحریک کی شام میں توسیع کے بعد وہاں داخلی تنازعات ابھر آئے، درحقیقت اس سے بشارالاسد کے خلاف مجاہدین کی پیشرفت سست ہوگئی، مجاہدین کی تقسیم کی اسٹریٹجک منطق کیا ہے؟
مگر القاعدہ کمانڈر نے کہا کہ آئی ایس کے علاقوں میں امریکی فضائی حملوں کے بعد القاعدہ کے حامی گروپس اس سے اسٹریٹجک اتحاد کے لیے مجبور ہوگئے ہیں "مختلف گروپس کی قیادت مسائل کے حل کے لیے کام کر رہی ہے اور میرا ماننا ہے کہ داخلی جھڑپوں، اختلافات وغیرہ ان حالات کا حصہ ہیں مگر امریکی بمباری کے بعد بڑی جنگ کے لیے مخلص لوگ ابھریں گے"۔
تبصرے (1) بند ہیں