ایران اپنے مسائل بیرون ملک منتقل نہ کرے: دفترِ خارجہ
اسلام آباد: دفترِ خارجہ نے ایران سے کہا ہے کہ اپنے مسائل کو ملک سے باہر منتقل نہ کرے بلکہ اپنے ملک میں عسکریت پسندی سے مقابلہ کرنے پر توجہ مرکوز کرے۔
کل جمعہ کے روز ہفت وار میڈیا بریفنگ کے دوران دفترِ خارجہ کی ترجمان نے کہا ’’اپنے مسائل کو بیرون ملک منتقل کرنا مددگار ثابت نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنے ملکوں میں دہشت گردی کے خاتمے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
وہ ایران کی جانب سے دی گئی اس دھمکی کا جواب دے رہی تھیں، جس میں کہا گیا تھا کہ وہ پاکستان کے صوبے بلوچستان میں پناہ گاہوں سے ایران کی سرحدی چوکیوں پر سرحد پار مبینہ حملے کرنے والے عسکریت پسندوں کا تعاقب کرے گا۔
پچھلے پندرہ دنوں کے دوران جیش العدل سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں نے پاک ایران سرحد کے ساتھ ساتھ ایرانی سرحدی چوکیوں پر حملے کیے تھے۔
مزید پڑھیے: ایران کی پاکستانی علاقے میں کارروائی کی دھمکی
ان حملوں سے متعلق ایرانی حکام نے پاکستان سے کہا تھا کہ وہ ان سرگرمیوں کو کنٹرول کرے یا انہیں (ایرانی سرحدی محافظوں) کو ان کے خلاف کارروائی کی اجازت دے۔
ایرانی میڈیا نے ایک ایرانی عہدے دار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’پاکستانی حکومت کا خاص طور پر سرحدی علاقوں پر کوئی کنٹرول نہیں ہے، اور اگر وہ واقعی مشترکہ سرحد پر کوئی کنٹرول نہیں کرسکتے، تو انہیں چاہیے کہ وہ ہمیں بتائیں، تاکہ ہم خود ان کے خلاف کاروائی کرسکیں۔‘‘
تسنیم اسلم نے سرحد پار سرگرمیوں سے یکسر انکار نہیں کیا، بلکہ ایران سے کہا کہ اگر اس کے پاس ثبوت موجود ہے تو وہ پاکستان کو فراہم کرے۔
انہوں نے کہا ’’سرحد پار سرگرمیاں یا دیگر بین الاقوامی جرائم منشیات کی اسمگلنگ ہوسکتی ہے، ہمارا خیال ہے کہ اگر ایران کے پاس ایسے ثبوت موجود ہیں کہ ایران کے خلاف سرگرمیوں میں ملؤث ان عناصر کا تعلق پاکستان سےہے تو انہیں چاہیے کہ وہ ان کی معلومات ہمیں فراہم کریں۔‘‘
دفترِ خارجہ کی ترجمان نے تہران سے کہا کہ ان الزامات کی تحقیقات کے لیے دونوں ملکوں کی سرحدی انتظام کی کمیٹی کو استعمال کیا جائے۔
انہوں نے کہا ’’ایران کے ساتھ بارڈر مینجمنٹ کمیٹی کی طرز کا ایک طریقہ کار ہمارے پاس موجود ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا ’’ہمارے پاس ایک طریقہ کار موجود ہے، جس سے اس طرح کے واقعات کی تحقیقات کی جاسکتی ہے، جس طرح ماضی میں اس پر عملدرآمد ہوا تھا، جب ایرانی گارڈز کو اغوا کیا گیا تھا اور ان کی رہائی ایران کے اندر عمل میں آئی تھی۔‘‘
لیکن انہوں نے اس کے ساتھ ہی ان واقعات پر ایرانی مؤقف کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو دستیاب معلومات کے مطابق یہ واقعات ایران کے اندرونی علاقے میں سامنے آئے تھے اور یہ ایرانی عسکریت پسندوں کی جانب سے کیے گئے تھے۔
انسدادِ دہشت گردی کے حوالے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان اور ایران ہمسایہ ملک ہیں، جو ایک مشترکہ طویل سرحد رکھتے ہیں، اور اس خطے میں ہونے والے واقعات سے دونوں ہی متاثر ہوئے ہیں۔
پاک افغان سرحد کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں دفترِ خارجہ کی ترجمان نے کہا ’’ہم دہشت گردی کی تمام اقسام اور توضیحات کے خلاف ہیں۔
ہم اس بات پر بھی قائم ہیں کہ ہم کسی دوسرے ملک کے خلاف اپنے علاقے کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اسی طرح ہم بھی توقع رکھتے ہیں کہ دوسرے ممالک بھی اپنے علاقوں کو پاکستان کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ یہ ایک دوطرفہ ذمہ داری ہے۔‘‘