آئی ایس سے نبرد آزما شامی باغیوں کی مدد کے بل پر اوباما کے دستخط
واشنگٹن: امریکی صدر بارک اوباما نے ایک قانونی بل پر دستخط کردیے ہیں، جس کے تحت امریکی فوج کو اسلامک اسٹیٹ گروپ سے لڑنے والے شام کے باغیوں کو اسلحے کی فراہمی اور انہیں تربیت دینے کا اختیار حاصل ہوجائے گا۔
عراق اور شام میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش (اسلامک اسٹیٹ) کو روکنے کے لیے شام میں موجود کُرد باغیوں کو تربیت دینے اور انہیں مسلح کرنے کا یہ بل کانگریس کی منظوری کے بعد جمعرات کو سینٹ میں بھی منظور کرلیا گیا تھا۔
اس بل کے تحت امریکا پانچ ہزار شامی باغيوں کو ايک سال کی مدت تک سعودی عرب ميں تربيت فراہم کرے گا۔
ابتداء ميں باغيوں کو صرف چھوٹے ہتھيار، بنيادی ساز و سامان اور گاڑياں مہيا کی جائيں گی۔
شام میں اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے خلاف فضائی حملوں کی اوباما نے منظوری دی تھی، لیکن انہوں نے اس گروپ کے ساتھ زمینی لڑائی کے لیے باغی افواج پر انحصار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکی سی آئی اے نے اپنی ایک رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کی تعداد بیس سے اکتیس ہزار 5 سو کے درمیان ہو سکتی ہے۔
جبکہ اس سے قبل اندازہ لگایا گیا تھا کہ شام اور عراق میں آئی ایس کے دس ہزار عسکریت پسند لڑائی میں حصہ لے رہے ہیں۔
سی آئی اے کے مطابق یورپی ملکوں کے کچھ شہری بھی دہشت گرد سرگرمیوں میں آئی ایس کے ساتھ ہیں۔
واضح رہے کہ اسلامک اسٹیٹ ایک شدت پسند گروپ ہے، جس نے اسلامی نظام کے نفاذ کے نام پر گزشتہ کچھ عرصہ میں شام اور عراق کے بڑے حصے پر قبضہ کرلیا ہے۔
اس ماہ کے پہلے عشرے میں نائن الیون کے سانحے کو تیرہ برس مکمل ہونے پر امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے خطاب میں خبردار کیا تھا کہ عراق اور شام میں یہ شدت پسند تنظیمیں اسلامی اصولوں کے خلاف کام کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت امریکہ کو سب سے بڑا خطرہ اسلامک اسٹیٹ سے ہے، لہٰذا یہ جنگجو جہاں بھی ہوں گے انہیں نشانہ بنایا جائے گا،اور ان کا مکمل خاتمہ کردیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا تھا کہ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے خلاف امریکا کی فضائی کارروائی پہلے ہی سے جاری ہے جس کے دوران عراق میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں اور دیگر اہداف پر گزشتہ ماہ سے اب تک ڈیڑھ سو سے زیادہ فضائی حملے کیے جا چکے ہیں۔
اس موقع پر اوباما نے کانگریس پر زور دیا تھا کہ وہ ایسے شامی باغیوں کے لیے تربیتی پروگراموں کی توثیق کرے، جو شامی صدر بشارالاسد کے ساتھ ساتھ اسلامی ریاست کے خلاف بھی نبرد آزما ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں امریکا کا اتحادی ملک سعودی عرب پہلے ہی ان باغیوں کی تربیت کے لیے پیشکش کرچکا ہے۔
صدر اوباما کا کہنا ہے کہ دولت اسلامیہ کے خلاف امریکی کارروائی عراق اور افغانستان میں جاری جنگ سے مختلف ہوگی، جس کی تفصیلات وہائٹ ہاوس اور کانگریس مل کر طے کریں گے۔