پھر وہی ڈیموں پر بحث
ایسے وقت میں جب پاکستان اپنے بپھرے ہوئے دریاؤں سے پھیلنے والی تباہی سے نمٹنے میں ناکام نظر آرہا ہے، تو انڈس واٹر کمیشن کے چیئرمین مرزا آصف بیگ فرماتے ہیں کہ اگر ڈیموں میں سرمایہ کاری کی گئی ہوتی، تو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بڑی حد تک بچا جا سکتا تھا۔
بھلے ہی ملک اس وقت سیلاب کی زد میں ہے، لیکن سال کے باقی حصے میں بارشوں پر انحصار کرنے والے اس ملک میں معمول سے کم بارشیں ہوئی ہیں۔ اس سال کے سیلاب نے ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر، اور پاکستان میں 500 لوگوں کی جان لی ہے، لاکھوں لوگوں کو دربدر، جبکہ وسیع رقبے پر کھڑی کپاس کی فصل کو نقصان پہنچایا ہے۔ لیکن اس سیلابی پانی کا زیادہ تر حصہ ضائع ہوجائے گا۔
مرزا آصف بیگ اس قیمتی نعمت کے زیاں پر افسردہ ہیں۔ ان کے نزدیک دریائے سندھ پر بڑے ڈیموں کی تعمیر سے اس مسئلے کے حل میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن بڑے ڈیم ایک گرما گرم سیاسی مسئلہ ہیں۔ تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، کہ ڈیموں کے مسئلے کو اتنا حساس کر دیا گیا ہے، کہ اس معاملے میں قومی مفاد کو نقصان پہنچا ہے۔
رواں سال مئی کے مہیںے میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے دریائے سندھ پر دیامر بھاشا ڈیم اور داسو ہائیڈروپاور پراجیکٹ بنانے کی منظوری دی تھی، جو بالترتیب 4500 اور 2000 میگاواٹ بجلی پیدا کریں گے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کے ماہرِ آب اختر علی کے مطابق یہ نئے ذخائر پاکستان کے بڑھتے ہوئے پانی اور توانائی بحران کے خاتمے کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں، جبکہ آبادی اور صنعتوں کی بڑھتی ہوئی آبی ضروریات پورا کرنے اور خوراک کی کمی دور کرنے کے لیے بھی اہم ہے۔
تھرڈ پول سے باتیں کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ڈیم پانی کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتے ہیں، اور پانی کو بوقت ضرورت استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اگر پانی کے بڑے ذخائر تعمیر کیے جائیں، تو سیلابی پانی سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، اور ڈاؤن اسٹریم میں سیلاب آنے سے روکا جاسکتا ہے۔
مرزا آصف بیگ کے مطابق ڈیموں سے زراعت کے لیے پانی کی دستیابی میں مدد ملتی ہے، جبکہ پانی پر کنٹرول حاصل کرکے بجلی پیدا کی جاسکتی ہے، اور توانائی کے بحران پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
دریائے سندھ پاکستان میں تقریباً ساڑھے تین کروڑ ایکڑ زمین کو سیراب کرتا ہے، جو کہ آبپاشی نظام پر منحصر دنیا کا سب سے بڑا علاقہ ہے۔ اس کے لیے بہت بڑی مقدار میں پانی کی ضرورت ہے، جبکہ انڈس بیسن پر صرف دو ذخائر تربیلا اور منگلا موجود ہیں۔ ان دونوں کے ہوتے ہوئے پاکستان صرف 30 دن کے لیے پانی ذخیرہ کر سکتا ہے، جبکہ زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک ایک سے دو سال کی ضروریات کے لیے پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں۔
پاکستان تیزی سے پانی کی کمی کا شکار ہورہا ہے۔ محکمہ موسمیات پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل غلام رسول کے مطابق اس وقت ملک میں ایک آدمی کے لیے صرف 950 کیوبک میٹر پانی دستیاب ہے، جبکہ 1951 میں ہر فرد کے لیے 5500 کیوبک میٹر پانی دستیاب تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر معاملات اسی طرح چلتے رہے، تو بڑھتی ہوئی آبادی کی پانی کی ضروریات پوری کرنا مشکل ہوجائے گا۔
لیکن سب لوگوں کے نزدیک ڈیم بہتر حل نہیں ہیں۔ مہران یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی جامشورو سندھ کے سینٹر آف انجینیئرنگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے ڈائیریکٹر پروفیسر مشتاق میرانی کے نزدیک ڈیم کی حمایت کرنے والے ڈیموں کے نتیجے میں ہونے والی ہائیڈرولوجیکل تبدیلیوں اور نقصانات کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ان کے مطابق ڈیموں کی ضرورت پر بحث ہر سیلاب کے بعد ہوتی ہے، لیکن ڈیموں کی زیادہ حمایت صرف اپ اسٹریم صوبے پنجاب میں ہے۔
دریائے سندھ کے پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کالاباغ ڈیم پر گزشتہ 3 دہائیوں سے تنازعہ چل رہا ہے۔ پنجاب میں اس کی حمایت کی جاتی ہے، لیکن سندھ اور خیبر پختونخواہ 3600 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی سکت رہنے والے اس پراجیکٹ کی مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ اس سے پنجاب کو ان کے پانی پر کنٹرول حاصل ہوجائے گا۔
مشتاق میرانی کے مطابق ڈیم تعمیر کیے جانے سے پہلے پانی کے قدرتی بہاؤ کو بہت احتیاط کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے، کیونکہ ڈیم ڈاؤن اسٹریم میں پانی کے قدرتی بہاؤ کو تبدیل کر دیتے ہیں۔ ان کے مطابق بڑے ڈیموں کی تعمیر میں بے پناہ سرمایہ لگتا ہے، جبکہ مقامی افراد اور جنگلی حیات کو دربدری جھیلنی پڑتی ہے۔ کچھ دوسرے لوگوں کے مطابق بڑے ڈیم شدت پسندوں کا ویسے ہی آسان نشانہ بن سکتے ہیں، جیسے حال ہی میں عراق کا موصل ڈیم بنا تھا۔
آکسفورڈ یونیورسٹی کے سیڈ بزنس اسکول کی ایک حالیہ تحقیق کے مطابق بڑے ڈیموں کی نا صرف اقتصادی، بلکہ انسانی اور ماحولیاتی قیمت بھی چکانی پڑتی ہے۔ 2000ء میں ڈیموں پر عالمی کمیشن کی تحقیق کے بعد بڑے ڈیموں کے قابل عمل اور فائدےمند ہونے یا نا ہونے کے حوالے سے آزاد تحقیق کم ہی ہوئی ہیں، جبکہ 2000ء تک دنیا بھر میں ڈیموں کی تعداد 47،000 سے زیادہ ہوگئی تھی۔ آٹھ لاکھ چھوٹے ڈیم اس کے علاوہ ہیں۔
آکسفورڈ کی اس تحقیق میں 65 ممالک کے 245 بڑے ڈیموں کا مطالعہ کیا گیا۔ تحقیق کے مطابق ڈیموں نے ممالک کو بھاری قرضوں میں جکڑ دیا ہے۔ تحقیق کے مطابق چھوٹے اور جلد تعمیر ہوجانے والے ہائیڈروالیکٹرک پراجیکٹس کو زیادہ ترجیح دی جانی چاہیے۔ رپورٹ کے مطابق برازیل، چین، ایتھوپیا، اور پاکستان جیسی بڑھتی ہوئی معیشتیں تیزی سے ڈیموں کی تعمیر کی طرف جارہی ہیں۔
ڈیم واحد حل نہیں
سابق سفیر، اور اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے عہدیدار شفقت کاکاخیل کے مطابق سیلابی پانی کا رخ موڑنے یا ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم واحد بہترین حل نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جس طرح کے سیلابوں کا ہمیں گذشتہ کچھ سالوں سے سامنا ہے، ان کو سنبھالنے کے لیے مختلف سائز کے ڈیم مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، لیکن یہ کئی موجود راستوں میں سے صرف ایک راستہ ہے۔
مشتاق میرانی کے نزدیک ڈیم بنانے سے پہلے پاکستان کو اپنا آبپاشی نظام درست کرنا ہوگا، جس کے قدیم ہوجانے کی وجہ سے تقریباً ساٹھ فیصد پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ "اس کے علاوہ ہم اب بھی آبپاشی کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہیں، جبکہ ہمارے پاس اتنا پانی موجود ہے کہ ہم اسے قحط کے شکار تھر کی جانب موڑ سکتے ہیں، جہاں سمندر کا پانی وسیع پیمانے پر زرعی زمینوں کو نگل رہا ہے، یا پھر اس سے کراچی جیسے شہروں میں پانی کی قلت دور کی جاسکتی ہے۔
شفقت کاکاخیل کے مطابق ہر پراجیکٹ کے فوائد اور چیلنجز کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ "ڈیموں سے متاثر ہونے والی آبادیوں کے خدشات جائز ہیں، لیکن آپ یہ بھی دیکھیں کہ چین میں Three Gorges Project نے Yangtze Basin میں سیلابوں پر قابو پانے، اور بجلی کی پیداوار میں کتنا اہم کردار ادا کیا ہے۔
پانی سے چلنے والے بجلی گھر اکثر و بیشتر شہروں کو بجلی فراہم کرتے ہیں، لیکن ان کے قریب موجود علاقے اندھیروں میں ڈوبے رہتے ہیں۔ کاکاخیل اس بات سے متفق ہیں، اور ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کی مثال دیتے ہیں، جہاں کشمیری شکایت کرتے ہیں کہ ان کا پانی استعمال کیا جاتا ہے، لیکن ان کو پاکستان کی طرح لوڈ شیڈنگ کا سامنا رہتا ہے۔ لیکن کاکاخیل کے مطابق ان مسائل کو حل کرنے کے لیے پانی سے چلنے والے بجلی گھروں سے دستبردار ہونا ضروری نہیں ہے۔
کاکاخیل اب بھی بجلی پیدا کرنے کے لیے ڈیموں کو شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں پر ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ ان کے مطابق ڈیم صرف بجلی نہیں پیدا کرتے، بلکہ منگلا اور تربیلا کی طرح قابل زراعت علاقے میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔
بشکریہ تھرڈ پول ڈاٹ نیٹ۔
تبصرے (1) بند ہیں