• KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • KHI: Asr 4:13pm Maghrib 5:49pm
  • LHR: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm
  • ISB: Asr 3:27pm Maghrib 5:05pm

ماضی کی جھلکیاں، میرانِ تالپورکے مقبرے

شائع September 14, 2014
فوٹو — سید ذیشان احمد
فوٹو — سید ذیشان احمد
فوٹو — سید ذیشان احمد
فوٹو — سید ذیشان احمد
فوٹو — سید ذیشان احمد
فوٹو — سید ذیشان احمد
مزارات کا 1900 میں ایک منظر — فوٹو برٹش لائبریری
مزارات کا 1900 میں ایک منظر — فوٹو برٹش لائبریری
فوٹو — سید ذیشان احمد
فوٹو — سید ذیشان احمد
فوٹو — سید ذیشان احمد
فوٹو — سید ذیشان احمد
فوٹو — سید ذیشان احمد
فوٹو — سید ذیشان احمد

حیدرآباد ایک ایسا شہر ہے جو بیک وقت کئی زمانوں کی یاد دلاتا ہے۔ جو حیدرآباد مجھے مسحور کرتا ہے، وہ موجودہ حیدرآباد نہیں، بلکہ وہ ہے جو کبھی ہوا کرتا تھا۔ اس شہر کے ماضی اور حال کے بیچ ایک دیوار حائل ہے۔ اس دیوار میں موجود جھروکوں سے دیکھنے پر آپ کو اس شہر کا شاندار ماضی اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آئے گا۔

2004 میں مجھے اپنے دوست کے ذریعے میر تالپور حکمرانوں کے مزاروں کے بارے میں علم ہوا۔ میرا دوست ان کے پاس ہی رہتا تھا۔ لیکن مجھے اس جگہ کو خود دیکھنے کا موقع کئی سالوں بعد 2012 میں ملا۔ تب سے لے کر اب تک میں کئی دفعہ اس جگہ جا چکا ہوں۔

یہ مزار حیدرآباد کے سنٹرل جیل کے قریب ہی میں واقع ہیں۔ اگرچہ کہ ایک بورڈ راہگیروں کی رہنمائی کے لیے موجود ہے، لیکن کیونکہ ہمارے یہاں لوگ ہر چیز کو مفت اشتہاری اسپیس سمجھ لیتے ہیں، اس لیے اس بورڈ پر پوسٹرز وغیرہ چپکے ہوئے پائے جاتے ہیں، جس سے لوگوں کو یہ جگہ ڈھونڈنے میں اکثر مشکل پیش آتی ہے۔ اس گلی میں داخل ہوتے ہی لوہے کا ایک بڑا دروازہ آپ کا استقبال کرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے نصب کیا گیا بورڈ آپ کو یقین دلاتا ہے کہ آپ واقعی میر تالپور حکمرانوں کے مزاروں تک پہنچ گئے ہیں، جنہوں نے سندھ پر 1784 سے 1843 تک حکمرانی کی۔

فوٹو — سید ذیشان احمد
فوٹو — سید ذیشان احمد

ان مزاروں کو میران تالپور کے قبے کہا جاتا ہے۔ قبہ سندھی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنیٰ مزار یا مقبرے کے ہیں۔ اندر داخل ہونے پر آپ کو دو بڑے اور کئی چھوٹے مزار نظر آئیں گے۔ اس کے علاوہ کئی قبریں بھی ہیں جن پر کوئی مزار وغیرہ تعمیر نہیں کیا گیا۔ افسوس کی بات یہ ہے، کہ کسی بھی مزار یا قبر پر آپ کو کوئی نام لکھا نہیں ملے گا۔ اگر قسمت سے آپ کو وہاں تعینات رکھوالا مل جائے، تو وہ آپ کی معلومات میں اضافہ کر سکتا ہے، لیکن بہت ہی تھوڑی حد تک۔

فوٹو — سید ذیشان احمد
فوٹو — سید ذیشان احمد

یہ پوری جگہ بہت ہی زبوں حالت میں تھی۔ دن میں لڑکے یہاں کرکٹ کھیلتے، اور رات میں نشے کے عادی اور بے گھر افراد یہاں نشہ اور آرام کرنے آتے۔ اس تمام عرصے میں مقبروں کو شدید نقصان پہنچا، لیکن جب سے میر تالپور خاندان نے رکھوالا تعینات کیا ہے، تب سے یہ جگہ لوگوں کے لیے صرف شام 4 بجے تک کھلی ہوتی ہے۔ اس سے مزید نقصان کو روکنے میں کافی حد تک مدد ملی ہے۔

فوٹو — سید ذیشان احمد
فوٹو — سید ذیشان احمد

سندھ پر میر تالپور خاندان کی حکمرانی کا آغاز تب ہوا، جب انہوں نے ہالانی کی جنگ میں کلہوڑو فوج کو شکست دی۔ یہ تنازعہ باقاعدہ طور پر تب حل ہوا، جب 1784 میں مغل بادشاہ اکبر شاھ دوئم نے فرمان جاری کر کے میر فتح علی خان تالپور کو سندھ کا نیا نواب مقرر کر دیا۔

لیکن ان کی حکومت زیادہ عرصے قائم نا رہ سکی۔ 1843 میں برطانوی فوج کے جنرل چارلس جیمز نیپیئر کی ہاتھوں میانی کی جنگ میں شکست کے ساتھ ہی میر تالپور حکومت کا سورج غروب ہو گیا۔

مزارات کی طرز تعمیر کی بات کریں، تویہ ان دنوں میں سندھ میں رائج طرز تعمیر کی عکاسی کرتے ہیں۔ مزارات کا رنگ، ان کی ساخت، اور باقی سب کچھ فن تعمیرکا ایک نادر نمونہ ہے۔ دیواروں اور قبروں پر قرآنی آیات کی خطاطی کی گئی ہے، جو کہ بہت ہی دلکش ہے۔ مزاروں کی تراش خراش اور وہاں بنائے گئے نقش و نگار دیکھ کر نظر وہیں جمی کی جمی رہ جاتی ہے۔

فوٹو — سید ذیشان احمد
فوٹو — سید ذیشان احمد

مزارات پر اکثر تالا لگا ہوتا ہے، تاکہ آوارہ جانور یا لوگ اندر جا کر نقصان نا پہنچا سکیں، لیکن اگر اندر جانے کا اتفاق ہو، تو یہ دیکھ کر بہت ہی افسوس ہوتا ہے، کہ مزارات کافی خراب حالت میں ہیں۔ یہ بھی نہیں کہا جا سکتا، کہ کس وقت دیواریں منہدم ہوجائیں۔ تالپور خاندان اور حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مرمت کے لیے جلد از جلد اقدامات کریں، ورنہ کہیں یہ نادر تاریخی و ثقافتی ورثہ مکمل طور پر تباہ نا ہو جائے۔

مزارات لمبے عرصے سے وقت اور موسموں کی سختیاں جھیل رہے ہیں۔ انہوں نے آس پاس کے علاقوں کی بے پناہ ترقی دیکھی ہے۔ ایک وقت تھا، جب یہ پورا علاقہ ایک خالی میدان تھا، اور یہ مزارات بلند قامت ہونے، اور پہاڑی پر قائم ہونے کی وجہ سے دور سے ہی نظر آتے تھے۔ لیکن اب اونچی عمارتوں کے درمیان یہ مزارات کہیں پوشیدہ سے ہوگئے ہیں۔

مزارات کا 1890 میں ایک منظر — فوٹو برٹش لائبریری
مزارات کا 1890 میں ایک منظر — فوٹو برٹش لائبریری

ہمیں اپنے ثقافتی ورثے کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے، اور یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ہم نے اس ورثے کے ساتھ کتنا برا سلوک کیا ہے۔ ہم میں سے بہت سے لوگ تو ان مزارات کے بارے میں جانتے تک نہیں ہیں۔ امید ہے کہ ماضی کی اہمیت کو نظر انداز کر کے بعد میں افسوس کرنے کے بجائے ماضی کے آثار کی حفاظت کی جائے گی، تاکہ آنے والی نسلیں تاریخ کو صرف کتابوں میں پڑھنے کے بجائے اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی سکیں۔

حوالہ جات

1- http://www.talpur.org/articles/talpurs-and-their-tomb-architecture 2- http://tribune.com.pk/story/150911/crumbling-heritage-the-talpur-tombs-hold-quiet-histories-long-forgotten/ 3- http://www.dawn.com/2011/08/27/the-talpur-tombs/ 4- http://m.vam.ac.uk/collections/item/O105456/tombs-of-the-talpur-rulers-painting-ainslie-henry-francis/ 5- http://www.dawn.com/2011/08/27/the-talpur-tombs/ http://www.talpur.com/ http://www.talpur.org/
6- http://www.bl.uk/onlinegallery/onlineex/apac/photocoll/other/019pho000000425u00046000.html


سید ذیشان احمد

ذیشان ٓاحمد ادبییات، موسیقی، فلموں، ماضی، اور مستقبل سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ ٹوئٹر پرImZeesh@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 دسمبر 2024
کارٹون : 22 دسمبر 2024