• KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm
  • KHI: Zuhr 12:19pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:50am Asr 3:23pm
  • ISB: Zuhr 11:55am Asr 3:23pm

ماؤزے تنگ، چواین لائی بمقابلہ عمران خان، طاہر القادری

شائع August 20, 2014
۔ —. فائل فوٹو
۔ —. فائل فوٹو

کراچی: انقلابی مظاہرین، جنہوں نے پچھلے کئی دنوں سے اسلام آباد کا محاصرہ کر رکھا ہے، حوالہ جات، تخیلات اور استعارات کی ایک وسیع اقسام کو ایک طرف رکھ دیا ہے۔

اس وقت جبکہ ’انقلاب‘ اور ’آزادی‘ کےموضوعات سب سے زیادہ مقبول ہوگئے ہیں، عمران خان اور طاہرالقادری سیاسی، مذہبی اور خاص طور پر اپنے کرکٹ کے سابقہ دور کے واقعات کے ساتھ اپنے اپنے پیغامات میں آزادانہ طور پر اس کا استعمال کررہے ہیں۔

لانگ مارچ کے مکمل تصور کے ساتھ شروع کرتے ہیں۔ چند دن پہلے ان صفحات پر اس جانب اشارہ کیا گیا تھا، وفاقی دارالحکومت پچھلے چند دہائیوں میں بڑی تعداد میں احتجاجی تحریکیں دیکھ چکا ہے، جنہیں لانگ مارچ قرار دیا گیا تھا۔

یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ اس بات کو تلاش کیا جائے کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کیمپوں میں کتنے لوگ ایسے ہیں جو اس اصطلاح کے تاریخی پس منظر سے حقیقی معنوں میں واقف ہیں۔

بہرحال، یہ واقعہ جسے لانگ مارچ کا نام دیا گیا، درحقیقت کمیونسٹ مسلح فوج یعنی ریڈ آرمی نے کیا تھا، جس نے چیانگ کائی شیک کی قوم پرست افواج کو روکنے کے لیے چین میں ہزاروں میل کا پیدل مارچ کیا تھا۔ یہ سفر جیانگ زی صوبے سے 1934ء میں شروع ہوا، اور ایک سال بعد شمالی صوبے شانزی میں اختتام پذیر ہوا۔

بلاشبہ ریڈ آرمی نے چین میں جدید کمیونسٹ ریاست کے ستون قائم کیے، ماؤ زے تنگ اور چو این لائی جنہوں نے مارچ کے 86 ہزار شرکاء کے ساتھ مارچ شروع کیا تھا۔ جب وہ شانزی پہنچے تومارچ کے شرکاء کم ہو کر آٹھ ہزار رہ گئے تھے۔

ماؤ کے جوانوں کو مسلسل موت، بیماریوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن مارچ کی کامیاب نتیجے میں کمیونسٹ افواج کے حوصلے بڑھادیے اور یہی حوصلہ انہیں 1949ء میں پیپلز ریپبلک کے اعلان تک لے گیا۔ چیانگ کائی شیک اور کیومنٹانگ قوم پرستوں کو تائیوان کی طرف پیچھے ہٹنا پڑا۔

یاد رہے کہ ماؤ اور چو این لائی کے جوانوں نے کئی ہزار میل کا فاصلہ ایک سال کے عرصے میں کیا تھا، اس کا موازنہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے لانگ مارچ سے کیا جاتا ہے، جس میں لاہور اور اسلام آباد کے درمیان کا لگ بھگ چار سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ کمیونسٹ خانہ جنگی کی حالت میں بھی تھے، قوم پرستوں اور مخالف سرداروں کی پکڑ سے دور رہنے کی بھی کوشش کررہے تھے، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ مارچ کے دوران زندگی کو لاحق مشکلات سے بھی نمٹ رہے تھے، یہ چیزیں پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے کارکنوں کے لیے قطعی طور پر مختلف ہیں۔

یہ آزادی اور انقلاب مارچ زیادہ سے زیادہ ایک میلے کی طرز پر دکھائی دیتے ہیں، جس میں بھنگڑا کی دھن پر مبنی گیت جوش بھرنے کے لیے چلائے جارہے ہیں، ملنگ رقص کررہے ہیں، اور اس طرز کے دیگر مظاہرے بھی ان دنوں مارچوں میں جاری ہیں۔

اب آئیے عمران خان کی ’سول نافرمانی‘ کی کال کی جانب۔ یہ ایک بھاری بھرکم اصطلاح ہے، خاص طور پر اس وقت جب اسے بیسویں صدی کے عصری واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے۔

اگر ہم سول نافرمانی کی مختلف تحریکوں کے اسباب کو دیکھتے ہیں تو ہمیں پاکستان کی موجودہ صورتحال میں اس سے کوئی مماثلت نظر نہیں آتی۔

مثال کے طور پر 50 اور 60 کی دہائیوں کے دوران سیاہ فام امریکوں نے نسل پرستانہ اور اخراجی قوانین کے خلاف احتجاج کے لیے سول نافرمانی کی تحریک کا سہارا لیا تھا، جس کے تحت ان کے ساتھ تیسرے درجے کے شہری کا سلوک کیا جاتا تھا۔

گاندھی کی ستیہ گرہ اور عدم تعاون کی تحریکوں کا مقصد برطانوی حکمرانوں کو ہندوستان چھوڑنے اور مقامی لوگوں کو آزادی دینے پر مجبور کرنا تھا۔

اور یہ مثال شاید ہمارے لیے زیادہ قریبی ہے کہ جب شیخ مجیب الرحمان نے اپنی سات مارچ 1971ء کی تقریر کے بعد سول نافرمانی کی تحریک متحدہ پاکستان کے ٹکڑے ٹکرے کرنے کے لیے شروع کی تھی۔

اس وقت پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے، کیا اس کا مذکورہ صورتحال میں سے کسی کے ساتھ موازنہ کیا جاسکتا ہے؟

عمران خان نے یہ بھی کہا کہ ’’ہم پاکستان کو فرعون سے آزاد کرائیں گے۔‘‘

جو شیطان فرعون سے نجات دلانا چاہتے ہیں، ان میں سے اکثر پہلے اس کے ملازم رہے ہیں۔

یہ مثال ایران کے اسلامی انقلاب کے دوران یقیناً مؤثر تھی۔

اس وقت آیت آللہ خمینی کا ایک پوسٹر یاد آرہا ہے، جس میں انہیں موسیٰ ؑ کا کردار دیا گیا تھا، انہوں نے ایران کے آخری بادشاہ محمد رضا کو معزول کرکے اسے فرعون حصے میں ڈال دیا تھا۔

حسنی مبارک جو مصر کے سابق طاقتور حکمران تھے، انہیں بھی ان کے مخالفین نے جدید فرعون کا لقب دیا تھا۔

لیکن ان کے عیبوں کے باوجود (اور جو بہت زیادہ ہیں)، کیا موجودہ حکمران بھی استبداد کی اسی سطح تک نہیں پہنچ گئے ہیں، جن کے لیے رضا شاہ اور حسنی مبارک مشہور تھے؟

یقیناً عمران خان مذہبی تصور کا استعمال کرنے والے واحد نہیں ہیں، مذہبی پیشوا اور سیاستدان طاہر القادری فطری طور پر اس ذیل میں آتے ہیں۔

انہوں نے مستقل اپنی تقریروں میں شہادت اور قربانی کے تصورات کا استعمال کیا ہے۔

طاہرالقادری نے دعویٰ کیا کہ انہیں امام حسین ؓ کے کربلا میں قیام سے ہدایت لی ہے اور انہوں نے اپنے مخالفین کو غاصب قرار دیا۔

اس طرح کی باتیں پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت کے لیے اس لیے بھی قابلِ فہم ہیں، کہ شیعہ اور سنّیوں کے لیے کربلا ایک طاقتور مؤثر علامت ہے جو حق کی ظلم کے خلاف آخری جنگ کی نمائندگی کرتی ہے۔

علامہ صاحب اس کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ’’ان کا سینہ ان لوگوں کے لیے کشادہ ہے، جو ان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ پھر بھی ہمیں ضرور ان سے پوچھنا چاہیٔے کہ کیا موجودہ نظام کا اس دور کی مطلق العنانیت کے ساتھ موازنہ کرنا حق بجانب ہوگا۔

ایسا لگتا ہے کہ علامہ قادری اپنے نظریات کے لیے اسلامی تاریخ کے ساتھ ساتھ سوشل ازم سے یکساں طور پر توجہ دی ہے۔ وہ اپنا موازنہ لینن، مارکس یہاں تک کہ اسٹالن سے بھی کرتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ قرآن اور جناح اور اقبال کے تصور پر پاکستان کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔

شاید وہ لاطینی امریکا کے کیتھولک پادریوں بائیں بازو کی لبریشن تھیولوجی سے متاثر ہیں۔

لیکن یہ تصورات سیاست اور مذہب کا مکمل طور پر تاریک حولے نہیں ہیں۔

عمران خان نے کرکٹ کے پس منظر کا بطور مزاح بہت زیادہ استعمال کیا ہے۔

مثال کے طور پر سابق کپتان نے یاد دلایا کہ بطور ایک فاسٹ باؤلر ان کے اندر صبر نہیں تھا (جو اچھی طرح واضح ہوگیا ہے)، کئی مرتبہ نواز شریف پر طنز کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ وزیراعظم صرف اسی صورت میں گیند کھیلیں گے، اگر ان کے مقرر کردہ امپائر ہوں گے۔

پی ٹی آئی کے سربراہ جانتے ہیں کہ کرکٹ ورلڈ کپ کی 1992ء کی فتح، ملک کی ہنگامہ خیز تاریخ کے چند روشن نشانات میں سے ایک ہے۔

شاید اسی لیے فتح حاصل کرنے والی ٹیم کے کپتان اپنے ہم وطنوں کو یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ جس طرح انہوں نے میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں انہیں پسند کیا تھا، وہ وزیراعظم ہاؤس میں انہیں ایکشن میں دیکھنے کے منتظر رہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

عظیم حسن Aug 21, 2014 12:41am
جناب یہ سب ضیاالحق کی آل اولاد ہیں وہ کسی کا باپ تھا کوئی اس کا لے پالک ہے کسی کا وہ دادا ہے یہ سب بچے آپس میں جایئداد کے بٹوارے پر لڑ رہے ہیںنہیں تو غور کر لیں نواز شریف کون ہے؟ احسن اقبال کس کا بیٹا ہے ؟ اعجاز الحق کا باپ کون تھا ؟ ایم کیو ایم کب بنی؟ قادری کو کس نے پروموٹ کیا تھا؟ اور جناب عمران خان کو کس پبلک کروایا تھا؟کیا ان سب کے معاملے میں فوج شامل نہیں ؟ یوں فرض کر لیں کے نواز حکومت چلی گئی ہے تو کیا یہاں ترقی پسندوں کی حکومت بن جائے گی قادری نے اپنی تقریر میں مصالحے ڈالنے کے لئے غلط ملط حوالے ڈال کر لوگوں کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی ہے عمران کرکٹ کے رومانس سے ہی باہر نہیں آ رہا اور نواز شریف اسی عطار کے لونڈے سے دوا چاہ رہاہے جس کی دوا سے وہ بیمار ہوا ہے یہ اتنا ماشااللہ سے عقلمند ہے کہ یہ اپنے عقلمند دشمن سے نہیں لڑتا بلکہ بے وقوف دوستوں میں رہنا پسند کرتا ہے تبھی تو پی پی پی اور اے این پی کو سائیڈ لائین کر دیا ہے اگر یہ عقلمند ہوتا تو جیسے عمران نے خورشید شاہ پر طنز کیا تھا نواز شریف کو چاہئیے تھا کہ فورن اس سے رابطہ کرتا کونکہ دشمن کا دشمن اپنا دوست ہوتا ہے مگر کہاں ان کی تربیت ضیا کی گود میں ہوئی ہے یہ وہ ہی کریں گے جو انھوں نے سیکھا ہے

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024