شادی سے پہلے۔۔۔
یار پتا ہے کیا۔ ساڑھے چار لاکھ تو صرف شادی ہال والے لے رہے ہیں! اور سُنو، اس میں مہمانوں کا کھانا شامل نہیں ہے۔ اب تم ہی بتاؤ۔ کھانا ملا کر کوئی ساڑھے چھ لاکھ تو بس ایک فنکشن میں نکل جائیں گے۔ یہ تو صرف بارات کا خرچہ ہے۔ مہندی مایوں اس کے علاوہ ہیں اور کپڑے وغیرہ الگ۔
جانی بہن کی شادی ہے، اس کو خالی ہاتھ تھوڑی رخصت کر سکتے ہیں۔ وہ خرچہ الگ ہے۔ تمہیں تو بس مذاق لگتی ہیں یہ شادیاں۔ ابھی اپنی باری آئی گی تو لگ پتا جائے گا۔ شادی کے مسائل سے پہلے شادی کرنے کے مسائل سے گزرنا عذاب ہوتا ہے!
میں بڑی حیرت سے اپنے بچپن کے دوست کو دیکھ رہا تھا۔ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ بہن کی شادی پر خوش ہے یا پریشان۔ میں نے اُسے کبھی اس قدر باتونی نہیں دیکھا تھا۔ آج وہ بس بولے ہی جا رہا تھا۔
میں نے سوال کیا بھائی یہ ساڑھے چار لاکھ روپے کس چیز کے لے رہے ہیں شادی ہال والے؟ کہنے لگا پتا تو مجھے بھی نہیں یار، بس جگہ کا کرایہ، ڈیکوریشن اور ایک کولڈرنک۔
لیکن اتنے زیادہ پیسے؟ میں نے حیرت سے کہا۔
ہاں یار مہنگائی بھی تو بہت ہوگئی ہے! اور ہم لوئر مڈل کلاس لوگ۔ سمجھ نہیں آتا جائیں کہاں۔ دنیا والوں کی نظر میں کھاتے پیتے لوگ ہیں۔ لیکن اندر سے بس خود ہی جانتے ہیں کہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ میں تو دعا کرتا ہوں اللہ لوگوں کی سفید پوشی سلامت رکھے۔
کسی سے مانگتے نہیں ہیں، لیکن صادق سب سے ذیادہ ضرورت مند بھی ہم لوگ ہی ہوتے ہیں۔ سارا دن نوکری کرتے ہیں، رات میں دیر تک گھر کے کاموں میں لگے رہتے ہیں اور صبح پھر وہی زندگی۔ دن یونہی مشین کی طرح گزار دیتے ہیں۔ ہے ہی کیا ہمارے پاس سوائے اس نام کی عزت کے! اندر کا حال تو بس خدا ہی جانتا ہے۔۔۔
میں بہرحال اس کی باتوں کو بھول کر یہی سوچ رہا تھا آخر یہ شادی ہال والوں کو اتنی کھلی چھوٹ دے کس نے رکھی ہے! اتنے ذیادہ پیسے کس لئے مانگتے ہیں اور یہ ساڑھے چار لاکھ کیا۔ بات تو سات آٹھ لاکھ تک چلی گئی ہے۔ مڈل کلاس جو کہ اب برائے نام ہی رہ گئی ہے کا جینا مشکل کر ڈالا ہے ان منافع خوروں نے۔
جائز نا جائز منافع کی سوچ دل میں لئے میں اُس شادی ہال کی جانب چل پڑا جہاں کچھ دن بعد اس لڑکے کی بہن کی شادی ہونا تھی، ساتھ ایک اور دوست کو لے لیا تاکہ اکیلا یہ زہر نہ پیوں۔
سر جی شادی ہال کی بکنگ کروانی ہے۔ کیا پیسے لیتے ہیں آپ۔۔۔؟ جواب آیا پانچ لاکھ!
کوئی ڈسکاؤنٹ؟ ساڑھے چار لاکھ فائنل، اس سے ایک روپیہ بھی کم نہیں ہوگا، پچاس ہزار روپے چھوڑ دیئے آپ کے لئے۔ اب بتائیں کب کی بکنگ ہے۔ شادیوں کا سیزن ہے۔ پہلے دیکھ تو لیں تاریخ ہے بھی کہ نہیں۔
سولہ اگست کو کرنی ہے بہن کی شادی۔
اوہ ہو! جناب اس دن تو پہلے سے بُک ہے ہال۔ معزرت۔
میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا۔
کیا کوئی کینسیلیسن نہیں ہے؟
ہاں جی چودہ اگست کی بکنگ تھی لیکن کینسل ہوگئی۔ اگر آپ اس دن کی بکنگ کرائیں گے تو اسپیشل دسکاؤنٹ ملے گا!
کتنا ڈسکاؤنٹ؟
بھائی آپ بھلے آدمی لگتے ہیں۔ آپ کے لئے فائنل دو لاکھ دس ہزار۔۔۔!
واقعی میں دو لاکھ دس ہزار۔۔۔؟
ہاں جی کیوں؟ اس سے کم نہیں ہو پائیں گے۔۔ ہمارا بھی کچھ خرچہ ہوتا ہے!
کیا خرچہ؟
ڈیکوریشن، بجلی، پانی، کولڈرنک وغیرہ وغیرہ
بھائی تو آپ عام دنوں میں کیوں نہیں دے دیتے دو لاکھ دس ہزار کا۔ یقیناً ان پیسوں میں اچھا گزارا ہو جاتا ہوگا آپ لوگوں کا۔ نقصان میں تو نہیں رہتے ہوں گے۔ تو پھر کیوں دگنے سے بھی ذیادہ منافع کماتے ہیں؟ غریبوں کا خیال کیوں نہیں کرتے؟
او بھائی؟ غریب ان شادی ہالوں میں شادیاں کرتے ہی کب ہیں؟ یہ شادی ہال اچھی فیملیز کے لئے ہے۔ آپ بکنگ کرانے آئے ہو یا لیکچر دینے۔ بکنگ کرانی ہے تو کراؤ ورنہ جاؤ ہمارا ٹائم ضائع مت کرو۔۔۔!
میں وہاں سے اٹھا، گاڑی گھر کی طرف نکالی اور راستے بھر یہی سوچتا رہا کہ غریب فیملی کیا اچھی فیملی نہیں ہوتی؟
حکومت ان شادی ہال والوں سے حساب مانگتی بھی ہے یا نہیں؟ قانوں میں اتنی ذیادہ منافع خوری کی کوئی سزا ہے بھی یا نہیں؟ کیا یہ بزنس مین کسی کو جواب دہ ہیں بھی کہ نہیں؟ کیا یہ سب حلال ہے؟ کیا یہ عوام کے ساتھ نا انصافی نہیں؟ کیا یہ ڈکیتی، بدمعاشی اور کرائم نہیں؟ کیا اس ملک میں واقعی کوئی ایسا لیڈر آئے گا جو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرے گا؟ آخر کب تک شادی جیسے حلال کاموں کے لئے شادی ہال والے حرام منافع خوروں کے منہ لگنا پڑے گا۔
لکھاری ڈان نیوز کے ایگزیکیٹو پروڈیوسر اور پروگرم اینکر ہیں۔
تبصرے (5) بند ہیں