• KHI: Maghrib 6:54pm Isha 8:13pm
  • LHR: Maghrib 6:31pm Isha 7:55pm
  • ISB: Maghrib 6:38pm Isha 8:05pm
  • KHI: Maghrib 6:54pm Isha 8:13pm
  • LHR: Maghrib 6:31pm Isha 7:55pm
  • ISB: Maghrib 6:38pm Isha 8:05pm

عدالتی کمیشن کا مطالبہ ماننے پر وکلاء حیرت زدہ

شائع August 13, 2014
— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

اسلام آباد : وزیراعظم نواز شریف نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے مبینہ انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے کمیشن کی تشکیل کے مطالبے کو تسلیم کرکے قانونی برادری کو حیرت زدہ کردیا ہے۔

سیاسی طوفان کے مرکز خاص طور پر موجودہ صورتحال میں اعلیٰ عدلیہ کو گھسیٹ لانے سے وہ متنازعہ ہوگی اور عوام کا اس پر اعتماد بھی متاثرہوگا۔

منگل کو اپنے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران عمران خان نے مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے عدالتی کمیشن کی تشکیل اور وزیراعظم کے استعفے کے ساتھ ٹیکنوکریٹس کی حکومت کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا اور ان کا کہنا تھا کہ وہ چیف جسٹس ناصرالملک پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔

منگل کی رات قوم سے خطاب میں وزیراعظم نے اس مطالبہ کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سپریم کورٹ سے تین ججز پر مشتمل تحقیقاتی کمیشن کی تشکیل کی درخواست کرتی ہے۔

پاکستان بار کونسل(پی بی سی) کے وائس چیئرمین محمد رمضان چوہدری نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہا" سیاسی مسائل کو سیاسی فورمز پر ہی حل کیا جانا چاہئے، جس کا بہترین ذریعہ پارلیمنٹ کی شکل میں موجود ہے"۔

انہوں نے مزید کہا" سپریم کورٹ کو غیرجانبدار اور آزاد ادارہ برقرار رکھنا چاہئے جو کہ اعلیٰ ترین عدالتی فورم ہے اور اسے اس طرح کے بحرانوں سے دور رکھنا چاہئے کیونکہ یہ اسے متنازعہ بناسکتے ہیں"۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی ذمہ داری اپیلوں کی سماعت اور کیسز کے فیصلے کرنا ہے، نہ کہ مکمل تحقیقات کرنا، کیونکہ اگر اعلیٰ عدالتی فورم کوئی تحقیقات کرکے فیصلہ کرے گی تو اس کے خلاف اپیل کے لیے کوئی فورم موجود نہیں رہے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے علاوہ تحقیقاتی کمیشن کے نتائج کے بعد ناکام پارٹی کی جانب سے تنقید اور انگلیاں اٹھائی جائیں گی، جس سے گریز کرنا ضروری ہے کیونکہ عمران خان پہلے ہی سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور سپریم کورٹ کے سابق جج خلیل الرحمان رمدے کو دھاندلی کرانے کے الزامات لگا کر اس بحران میں گھسیٹ کر لاچکے ہیں۔

رمضان چوہدری نے کہا کہ کمیشن کے لیے منتخب کیے جانے والے اراکین بھی تنقید کی زد میں آئیں گے کیونکہ انہیں سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس ہی لائے تھے یا ان کے جسٹس رمدے کے ساتھ پیشہ وارانہ تعلق رہ چکا ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر کامران مرتضیٰ نے اس تجویز پر تبصرہ کرتے ہوئے اسے آئین و قانون سے متصادم قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا" اگر تحقیقاتی کمیشن اس نتیجے پر پہنچ جائے کہ 2013ءکے انتخابات میں دھاندلی ہوئی، تو آخر کس طرح عام انتخابات کے نتائج کو تبدیل کیا جاسکے گا، کیونکہ آئین کے آرٹیکل 225 کے تحت ایسا صرف ایک انتخابی ٹربیونل میں دائر کی جانے والی پٹیشن کے ذریعے ہی ممکن ہے"۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ایک بچگانہ مطالبہ ہے جس کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو کابینہ میں وزیر قانون کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ اس طرح کے خطرناک مشوروں سے بچ سکیں۔

سپریم کورٹ بار کے سابق صدر جسٹس ریٹائرڈ طارق محمود نے کہا کہ عدالتی کمیشن کی تشکیل سے پنڈورا بکس کھل جائے گا جبکہ اس کمیشن کی کارروائی طویل عرصے تک ختم نہیں ہوسکے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ آخر میں یہ کمیشن زیادہ تر سوالات کے جوابات دینے میں ناکام رہے گا اور اس بحران کا حل سیاسی مذاکرات سے ہی ممکن ہے۔

کارٹون

کارٹون : 14 اپریل 2025
کارٹون : 13 اپریل 2025