• KHI: Fajr 5:07am Sunrise 6:24am
  • LHR: Fajr 4:29am Sunrise 5:51am
  • ISB: Fajr 4:31am Sunrise 5:55am
  • KHI: Fajr 5:07am Sunrise 6:24am
  • LHR: Fajr 4:29am Sunrise 5:51am
  • ISB: Fajr 4:31am Sunrise 5:55am

کیا پی ٹی آئی 'مڈ ٹرم' الیکشنز کا بائیکاٹ کرے گی؟

شائع August 6, 2014
لوگ وہی، قوانین وہی، حالات وہی، تو پھر 'صاف شفاف' انتخابات کا انعقاد اب کس طرح ممکن ہے جو پہلے 2013 میں نہیں ہو پائے؟
لوگ وہی، قوانین وہی، حالات وہی، تو پھر 'صاف شفاف' انتخابات کا انعقاد اب کس طرح ممکن ہے جو پہلے 2013 میں نہیں ہو پائے؟

پاکستان تحریک انصاف نے پہلی بار انتخابی میدان میں قدم اپنی تاسیس کے اگلے سال 1998 میں رکھا پر کوئی نشست جیتنے میں کامیاب نہ ہوسکی۔

جماعت اسلامی نے ان انتخابات کا یہ کہہ کر بائیکاٹ کر دیا تھا کہ کرپٹ سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں شفاف انتخابات کا ہونا ممکن نہیں، اور مطالبہ کیا کہ الیکشن سے پہلے احتساب کیا جائے۔

جماعت کی خواہش 2 سال بعد اس وقت پوری ہوگئی، جب جنرل مشرف نے فوجی طاقت کے زور پر میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر میاں صاحب اور محترمہ بینظیر بھٹو کو جلاوطنی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ جماعت نے جمیعت علما اسلام (ف) اور دیگر مذہبی جماعتوں کے ساتھ مل کر متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کی بنیاد ڈالی، جس نے 2002 کے عام انتخابات میں حصّہ لیا۔

2002 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے بھی حصّہ لیا، پر اس وقت صرف پارٹی چیئرمین عمران خان اپنے آبائی علاقے سے ایک سیٹ جیتنے میں کامیاب ہوئے، جس سے انہوں نے پارلیمنٹ کی آدھی مدّت پوری ہونے پر استعفیٰ دے دیا تھا۔

2008 میں اپنے ایک آرٹیکل میں عمران خان نے لکھا؛

"ڈھائی سال تک میں نے مشرف کے پاکستان میں حقیقی جمہوریت لانے کے وعدوں پر یقین کیا۔ مجھے اب مشرف کے بارے میں سبق حاصل ہو چکا ہے"۔

2008 میں ایک بار پھر عام انتخابات کے بائیکاٹ کے مسئلے نے سر اٹھایا۔ جنرل مشرف نے انتخابات سے صرف کچھ ہفتے پہلے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر ڈالی تھی اور اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے ایک پورے گروپ، جس نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمّد چوھدری کی سربراہی میں مشرف کے فیصلوں کی توثیق کرنے سے انکار کر دیا تھا، کو معطل کر دیا تھا۔

پر پیپلز پارٹی نے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے بجائے حصّہ لینے کا فیصلہ کیا، اور کچھ دن بعد نواز شریف، جو کے کچھ دن پہلے ہی تقریباً دس سالہ جلا وطنی کے بعد وطن واپس آئے تھے، نے بھی انتخابات میں حصّہ لینے کا اعلان کیا۔

لیکن جماعت اسلامی اور پاکستان تحریک انصاف نے اس معاملے پر کوئی لچک نہیں دکھائی، اور انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔

عمران نے اپنے اسی آرٹیکل میں بائیکاٹ کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے لکھا تھا؛

"اگر ججز بحال نہیں ہوئے تو صاف شفاف انتخابات کا انعقاد کیسے ممکن ہے؟ آزادانہ اور شفاف کا فیصلہ کیا جنرل مشرف کریں گے؟"۔

پر انتخابی مرحلے نے عمران خان کو غلط ثابت کیا۔

انتخابات ہوئے اور مشرف کو پارلیمنٹ کی طرف سے مواخذے کی دھمکی کے بعد استعفیٰ دینا پڑا۔ منتخب حکومت نے اپنی مدّت پوری کی، اور ججز بھی بحال کر دیئے گئے۔ اگلے انتخابات انہی ججز کی زیر نگرانی ہوئے، اور عمران خان اب کہتے ہیں کہ یہ انتخابات بھی صاف و شفاف نہیں تھے۔

کسی پارٹی کی جانب سے انتخابی نتائج پر سوال اٹھانا اسکا بنیادی حق ہے۔ پاکستان کا انتخابی نظام بلا شبہ خامیوں سے بھرا ہوا ہے اور انتخابی اصلاحات کی شدید ضرورت ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے 11مئی 2014 کو اسلام آباد میں اپنی ریلی کے اختتام پر یہی مطالبہ کیا، اور یہ ایک قبل فہم بات بھی ہے۔

چار حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کو چھوڑ کر پی ٹی آئی کے سارے مطالبات آئندہ انتخابات کے بارے میں ہیں۔ پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈ میں آخری نقطہ ایک انتخابی کمیٹی کی تشکیل ہے۔

33 ممبران پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی کچھ روز پہلے تشکیل دی جا چکی ہے، اور اب کچھ دن میں اس کی میٹنگ متوقع ہے۔

پر اب پارٹی نے خیبر پختونخواہ اسمبلی تحلیل کرنے اور پارلیمنٹ سے استعفیٰ دینے کے اعلان، اور وسط مڈ ٹرم انتخابات کا مطالبہ کر کے حکومت کو گھر بھیجنے کے اپنے ارادے کو ظاہر کر دیا ہے۔

چلئے مان لیتے ہیں کہ 14 اگست کو عمران خان کی حکومت کے خاتمے کی خواہش پوری ہوجاتی ہے، اور حکمران جماعتیں تمام اسمبلیاں تحلیل کر کے 14 نومبر 2014 کو نئے انتخابات کرانے کا اعلان کر دیتی ہیں، پھر اسکے بعد کیا ہوگا؟

اگر آئین پاکستان بالادست رہنا ہے، تو نگران حکومتیں قائم ہونگی۔ نگران حکومتوں کا قیام موجودہ حکومت اپوزیشن سے مشاورت کے بعد کرے گی۔ 18 ویں ترمیم کے مطابق نگران حکومتوں کے قیام کے معاملے میں اپوزیشن کی رائے برابر اہمیت کی حامل ہے۔ پر دیکھنا یہ چاہیے کہ تمام 5 منتخب اسمبلیوں میں اپوزیشن کی نشستوں پر کون براجمان ہے؟

قومی اسملبی میں وہ پارٹی پی پی پی ہے، پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی، سندھ میں پی ایم ایل (ف)، اور بلوچستان و خیبر پختونخواہ میں جمیعت علماء اسلام (ف) اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہے۔

اگر پنجاب میں حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) پی ٹی ائی کی جانب سے نگران وزیر اعلیٰ کے لئے دیے گئے تینوں ناموں کو مسترد کر دے، تو پی ٹی آئی کے پاس کوئی راستہ نہیں بچے گا۔

موجودہ قوانین کے تحت اگر حکمران جماعت اور اپوزیشن نگران حکومت کے معاملے پر اتفاق نہ کر سکیں، تو معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائیگا۔

اہم بات یہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی کا تجویز کردہ نام نگران مقرر کر بھی دیا جائے، تب بھی شاید بات نہ بنے۔ پی ٹی آئی نے مشرّف پر اعتماد کیا، پر دھوکہ کھایا۔ پھر اس نے اعلیٰ عدلیہ پر بازی لگائی، پر وہ بھی پارٹی کی توقعات پر پورا نہیں اتری۔

پارٹی نے "شفاف کردار کے مالک" جسٹس فخرالدین جی ابراہیم کی بطور چیف الیکشن کمشنر تعیناتی کا بھی خیر مقدم کیا، پر اسے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے، کہ تحریک انصاف آخر اپنے چیئرمین کے علاوہ کس پر اعتماد کر سکتی ہے؟

وسط مدتی الیکشن انہی قوانین کے تحت ہوں گے جن کے تحت 2013 کے عام انتخابات کا انعقاد ہوا تھا۔ نگران حکومتیں ان قوانین کو تبدیل کرنے کی مجاز نہیں ہیں۔

جو بیورو کریسی انتخابات کی نگرانی کرے گی، اور جو سرکاری ملازمین انتخابی ڈیوٹیاں دیں گے، وہ بھی 2013 والے ہی چہرے ہوں گے۔ نگران حکومتیں انتخابات کے انعقاد کے لئے دس لاکھ "صادق" اور "امین" لوگوں کو تب تک بھرتی نہیں کر سکتیں، جب تک وہ ملین مارچ میں شامل دس لاکھ لوگوں کو ہی نہ بھرتی کر لے۔

لوگ وہی، قوانین وہی، حالات وہی، تو پھر صاف شفاف انتخابات کا انعقاد اب کس طرح ممکن ہے جو پہلے 2013 میں نہیں ہو پائے؟

یہ منظرنامہ پی ٹی آئی کو ایک بار پھر انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کے لئے بہت سارے عذر فراہم کر سکتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کے جلد بازی میں کیا گیا مڈ ٹرم انتخابات کا مطالبہ اگر مان لیا گیا تو پولنگ سٹیشنوں پر نہ ہی الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور نہ ہی بائیو میٹرک سسٹم کی تنصیب کی جا سکے گی، اور یہ دونوں چیزیں پی ٹی آئی کے مطالبات میں سرفہرست ہیں۔

ہندوستان میں 1984 میں پہلی بار تجرباتی طور پر الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو ایک ریاست میں متعارف کرایا گیا، پر اسے باقاعدہ قانونی شکل 1998 میں دی گئی۔ اس کے بعد 2004 میں ان مشینوں کو تمام صوبائی اسمبلیوں اور لوک سبھا (قومی اسمبلی) کے انتخابات میں استعمال کرنا شروع کیا گیا۔

انڈیا نے حال ہی میں بائیو میٹرک سسٹم کو تجرباتی طور پر ایک چھوٹے پیمانے پر متعارف کرایا ہے، لیکن ملکی سطح پر اس ٹیکنالوجی کا نفاذ ایک طویل مرحلہ ہے۔

صاف بات ہے، مشینوں کی تنصیب 14 اگست تک مکمل نہیں کی جا سکتی۔

لیکن ایک بات ہوسکتی ہے، اور وہ یہ کہ اسی دن پارلیمانی کمیٹی برائے انتخابی اصلاحات اپنی پہلی میٹنگ کرے، اور ملک میں انتخابی نظام میں اصلاحات لانے کے لئے مؤثر فیصلے کرے۔ اس کمیٹی کے یہ فیصلے ضرور ملک میں جمہوریت کے استحکام میں ایک اہم کردار ادا کریں گے۔

کیا پی ٹی آئی میٹنگ میں شرکت کرے گی، یا بائیکاٹ کرے گی؟

انگلش میں پڑھیں


طاہر مہدی جمہوریت اور گورننس پر ریسرچ کرنے والے گروپ پنجاب لوک سجاگ کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

طاہر مہدی

لکھاری الیکشن اور گورننس میں دلچسپی رکھنے والے آزاد محقق ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر TahirMehdiZ@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 31 مارچ 2025
کارٹون : 30 مارچ 2025