ہندوستان کے دیسی جہادی
معاشرے سے لاتعلق مسلم نوجوان دنیا بھر سے اپنا گھر چھوڑ کر ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے مختلف خطوں میں جاری تصادم میں اسلام پسندوں کی طرف سے لڑنے کے لیے جارہے تھے۔
تاہم یہ مسلمہ حقیقت تھی کہ وہ ہندوستان سے نہیں آرہے تھے۔
اس سال موسمِ گرما میں ایک غیرمعمولی کیس نے اس نظریے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
ممبئی کے مضافاتی علاقے کلیان سے چار اچھے خاصے پڑھے لکھے نوجوان جو ترقی پذیر متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے، پچھلے مئی میں اپنے گھر سے کسی طرح کے انتباہ کے بغیر لاپتہ ہوگئے۔
انہوں نے اپنے پیچھے صرف ایک خط چھوڑا تھا، جس میں تحریر تھا کہ وہ اسلام کے دفاع کی لڑائی میں حصہ لینے کے لیے جارہے ہیں۔
تفتیش کاروں نے انہیں موصل میں دریافت کیا، اور ان کا کہنا ہے کہ انہیں انٹرنیٹ کے ذریعے شام اور عراق کی میں اسلامی ریاست کی جانب سے بھرتی کیا گیا تھا۔ یہ عمل نسبتاً مغرب میں معروف ہے، جبکہ ہندوستان میں اس کی رپورٹ نہیں ملی ہے۔
اگرچہ اس کیس کو اب تک ایک دماغی خلل کے طور پر دیکھا جارہا ہے، تاہم اس سے پریشان کن امکانات کا دروازہ کھل گیا ہے کہ ہندوستانی مسلمان بھی مشرقِ وسطیٰ میں فرقہ وارانہ تصادموں میں انٹرنیٹ کے ذریعے کی جانے والی بھرتی کا شکار بن سکتے ہیں۔
شمال میں ہندوستان کے زیرانتظام کشمیر کے حکام نے حالیہ دنوں میں آئی سی آئی سی کے بینرز اور علامات کی نمائش کرنے والے نوجوانوں کا نوٹس لیا ہے، اور اتوار کو جنوبی ریاست تامل ناڈو کے حکام نے ایک نوجوان کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ایک تصویر کے حوالے سے پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا ہے، اس تصویر میں ہندوستانی مسلمانوں کے ایک بڑے گروپ کو آئی سی آئی سی کی ٹی شرٹس پہنے دکھایا گیا تھا۔
ایک ایسا ملک جہاں دنیا کی دوسری بڑی مسلم آبادی مقیم ہے اور جو طویل عرصے سے نچلی سطح پر ملکی دہشت گردی کے خلاف جدوجہد کررہا ہے، اچھی طرح تربیت یافتہ جہادیوں کی واپسی کا امکان ایک خوفناک مستقبل کی صورتگری کرسکتا ہے۔
ممبئی کے محکمۂ پولیس کے ایک سینئر اہلکار دیون بھارتی کہتے ہیں ’’ہم سب کو اس واقعے سے شدید جھٹکا لگا ہے، عالمی جنگ میں شمولیت کی کوشش ہمارے لیے ایک بالکل نئی چیز ہے۔‘‘
دیون بھارتی نے کہا کہ ہمیں تشویش ہے کہ کلیان کا کیس منفرد نہیں ہوسکتا۔ احتیاطی اقدامات کے طور پر ہم نے اپنے تمام یونٹس کو لاپتہ لڑکوں کے اس زاویے سے دیکھنے کے لیے کہا ہے۔
یاد رہے کہ دیون بھارتی 2008ء میں ہوئے ممبئی دہشت گرد حملوں کی تحقیقات کی قیادت کرچکے ہیں۔انہوں نے اس خطے میں پروان چڑھنے والے دہشت گردوں سے باخبر رہنے کے لیے کئی برس کا عرصہ صرف کیا ہے، وہ ان کے روایتی راستوں سے واقف ہیں۔
تاہم چوبیس مئی کو اپنے گھروں سے غائب ہونے والے چار نوجوان اس پیٹرن سے مطابقت نہیں رکھتے۔
ہندوستان کے شہر ممبئی کے مضافات کلیان کی ایک مسجد، یہ وہ علاقہ ہے، جہاں سے چار نوجوان چوبیس مئی کو عراق میں ایک جہادی گروپ میں شمولیت کے لیے اچانک لاپتہ ہوگئے تھے۔ —. فوٹو بشکریہ نیویارک ٹائمز |
متوسط طبقے کے اس علاقے کے گیٹس پر درج تھا کہ ’’سیلزمینوں اور گداگروں کو اندر آنے کی اجازت نہیں۔‘‘ اس علاقے سے نکلنے والے چار نوجوانوں میں سے تین نے بطور انجینئر تربیت حاصل کی تھی، جو ہندستان میں کامیابی کی ایک بہترین مثال ہے۔
ان بستیوں میں اقتصادی ترقی کی خواہش کے ساتھ ساتھ قدامت پسند اسلام گڈمڈ دکھائی دیتا ہے۔
اولڈ بوائز ایسوسی ایشن انگلش ہائی اسکول سے آنے والی بس میں سے سیاہ برقعے اوڑھے ایک خاتون برآمد ہوتی ہیں۔
لاپتہ ہونے والے ان چار نوجوانوں میں سے ایک چوبیس برس کے فہد تنویر شیخ کے چچا افتخار خان کہتے ہیں کلیان کے نوجوانوں میں قدامت پرستی تیزی سے پھیل رہی ہے۔
افتخار خان نے بتایا کہ ان کے بھتیجے نے اپنے گھر میں ٹیلی ویژن دیکھنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھااور ان کا یہ معمول تھا کہ وہ اگر گھر سے باہر کسی نوجوان مرد اور خاتون کو ایک دوسرے سے بات کرتا دیکھتے تو اس کی مخالفت کرتے تھے۔
فہد تنویر شیخ نے ہندوستانی انتخابات میں ووٹ ڈالنے سے بھی انکار کردیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ یہ اسلام میں حرام ہے۔ انہیں اپنے چچا سے بھی شکایت تھی، جو ایک منتخب مقامی اہلکار اور کلین شیو ہیں۔
افتخار خان نے کہا ’’نئی نسل تعلیمیافتہ ہے اور ہماری نسل کے برعکس وہ اسلام کے تصور کو زیادہ اچھی طرح سمجھتی ہے اور گناہ کے خلاف ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ان میں اور ہم ایک فرق یہ ہے کہ ہندوستانی حکومت کے خلاف شکایات سے کہیں زیادہ ان کی توجہ مشرقِ وسطیٰ میں اسلامی جدوجہد پر مرکوز ہے۔
جب افتخار خان سے آئی ایس آئی ایس کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس گروپ پر دہشت گردی کا غلط لیبل لگا دیا گیا ہے۔ ’’یہ وہی لوگ ہیں جو صدام حسین کے ساتھ حکومت کررہے تھے، امریکا نے اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کرنے کے لیے انہیں ایک طرف دھکیل دیا۔‘‘
انہوں نے کہا ’’اب امریکا وہاں سے باہر چلا گیا ہے، چنانچہ صدام کی پرانی فوج اپنی سرزمین پر حکومت کے لیے لڑ رہی ہے۔‘‘
افتخار خان نے بتایا چوبیس مئی کی سہہ پہر فہد تنویر شیخ نے کرکٹ کھیلنے میں وقت صرف کیا۔ پھر نہانے کے بعد انہوں نے کپڑے تبدیل کیے اور گھر سے یہ کہتے ہوئے نکل گئے کہ انہیں کچھ کام کرنا تھا۔
ایسا ہی کچھ باقی تینوں گھروں میں بھی ہوا۔ بائیس برس کے عارف مجید، جو ایک ڈاکٹر کے بیٹے ہیں، نے اپنے گھروالوں کو بتایا کہ وہ پڑھنے جارہے ہیں۔
بیس برس کے امان تاندیل نے کہا کہ وہ باہر کھانا کھانے جارہے ہیں۔ چھبیس برس کے شاہین فاروقی ٹانکی نے کچھ کہے بغیر ہی گھر چھوڑ دیا۔
کچھ دن بعد ان نوجوانوں کا اپنے گھروالوں کے ساتھ رابطہ بغداد سے ہوا، جہاں وہ ایک مذہبی گروپ کا حصہ بننے کے لیے سفر کرکے پہنچے تھے۔
چھ دن کے بعد اس گروپ کی جانب سے ان کا رابطہ توڑ دیا گیا اور وہ کبھی واپس نہیں آئے۔ اس خطرے کی گھنٹی کو محسوس کرتے ہوئے عارف مجید کے والد نے پولیس میں گمشدگی کی رپورٹ درج کروادی۔
ان میں سے ایک نے اپنے گھروالوں کے لیے ایک خط چھوڑا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ وہ ان کو بھول جائیں اور یہ بھی کہ اب وہ آئندہ انہیں جنت میں دیکھیں گے۔
خط میں تحریر تھا ’’میرے لیے یہ ایک مبارک سفر ہے، اس لیے میں اس گناہگار ملک میں زندگی گزارنا نہیں چاہتا۔‘‘
اس خط میں اس نوجوان نے اپنے گھروالوں کو سلفی ازم کے اصولوں کی پیروی پر زور دیا تھا، جو سنّی اسلام کی ایک انتہائی قدامت پسند شکل ہے۔
دیگر رشتہ داروں کی طرح جن کے انٹرویو لیے گئے، افتخار خان بھی کہتے ہیں کہ انہیں شبہ تھا کہ یہ نوجوان لڑائی کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ان واقعات نے گہری تفتیش کو متحرک کیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ایک یا ایک سے زیادہ لوگوں کی تلاش کی جارہی ہے، جنہوں نے ان نوجوانوں کی روانگی سے پہلے ان کی آئی ایس آئی ایس کی جانب رہنمائی کی ہو، لیکن اس بات پر زیادہ یقین ہے کہ یہ بھرتی آن لائن کی گئی تھی۔
واشنگٹن کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں اسلامی دہشت گردی کے ایک خصوصی ماہر تھامس ایف لائنچ کہتے ہیں کہ پچھلی ایک دہائی کے عرصے سے ایسی کوئی مصدقہ رپورٹ میرے علم میں نہیں آئی کہ ہندوستانی مسلمان جہادی سرگرمیوں میں شامل ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ یہ پیش رفت ہندوستانی اور بین الاقوامی دونوں سطح پر کئی دھاراؤں کا منبع ثابت ہوسکتی ہے۔ اس لیے کہ ہندوستانی مسلمان مقامی شکایات سے مشتعل ہوئے ہیں، لیکن دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف ظلم و جبر کے تصور کو زیادہ پذیرائی نہیں ملی ہے۔
(نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کی تلخیص)